نارووال ڈسٹرکٹ ہسپتال میں قائم پنجاب کا پہلا ٹرانس جینڈر وارڈ کیوں بند پڑا ہے؟

postImg

عابد محمود بیگ

postImg

نارووال ڈسٹرکٹ ہسپتال میں قائم پنجاب کا پہلا ٹرانس جینڈر وارڈ کیوں بند پڑا ہے؟

عابد محمود بیگ

نارووال کے علاقے بدوملہی کی پینتیس سالہ ٹرانس جیںڈر کنزہ عرف شرمیلی پچیس روز سے بخار میں مبتلا تھیں۔ کئی طرح کی دوائیں کھانے کے بعد بھی بخار نہ اترا تو ان کی گرو انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کے بعد پتا چلا کہ وہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہیں۔

ڈاکٹروں نے انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کر کے مردوں کے وارڈ میں بھیج دیا لیکن شرمیلی نے  ہسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ انہیں ٹرانس جینڈر وارڈ میں بھیجا جائے۔ عملے نے انہیں بتایا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص وارڈ ختم کر دیا گیا ہے اسی لئے انہیں مردوں کے وارڈ میں علاج کرانا ہو گا۔

شرمیلی کو یہ منظور نہیں تھا اس لیے انہوں نے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے اپنا علاج کرا لیا جس کے لیے انہیں بھاری فیس دینا پڑی۔

صدیق پورہ کی بائیس سالہ ٹرانس جینڈر مہوش کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ دو ماہ قبل شادی کی ایک تقریب میں انہیں سر درد کی شکایت ہوئی تو ان کی گرو انہیں اسی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں لے گئیں۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انہیں ڈرپ لگوانے کے لیے مردوں کے وارڈ میں جانے کو کہا لیکن مہوش نے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ انہیں ٹرانس جینڈر وارڈ میں بھیجا جائے۔ تاہم انہیں بھی یہی جواب ملا کہ ٹرانس جیںڈر وارڈ بند ہو گیا ہے اور اگر علاج کرانا ہے تو مردوں کے وارڈ میں جانا ہو گا۔

یہ سن کر مہوش واپس چلی آئیں۔

شرمیلی کی گرو چندا کہتی ہیں کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بند ہو جانے والے ٹرانس جینڈر وارڈ میں ان کی کمیونٹی کو مفت اور باوقار انداز میں علاج کرانے کی سہولت حاصل تھی۔ ٹرانس جینڈر افراد کی بڑی تعداد یہاں علاج کرانے آتی تھی۔ لیکن یہ وارڈ بند ہونے کے بعد علاج کے لیے آنے والے ٹرانس جیںڈر افراد کو عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔

<p>نارووال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں قائم ہونے والی ٹرانس جینڈر وارڈ پچھلے پانچ ماہ سے بند ہے<br></p>

نارووال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں قائم ہونے والی ٹرانس جینڈر وارڈ پچھلے پانچ ماہ سے بند ہے

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال نارووال میں چھ بستروں پر مشتمل ٹرانس جینڈر وارڈ اکتوبر 2021 میں قائم کیا گیا تھا جہاں اس کمیونٹی کے لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میسر تھی۔ قیام کے بعد ایک سال کے عرصہ میں بہت سے ٹرانس جینڈر افراد اس سہولت سے مستفید ہوئے جو اب انہیں حاصل نہیں رہی۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد افضال راجپوت وضاحت کرتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر وارڈ کو بند نہیں کیا گیا اور چھ میں سے دو بیڈ اب بھی موجود ہیں جبکہ ٹرانس جینڈر افراد کو مفت ادویات اور علاج تک رسائی بھی میسر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے پیش نظر ٹرانس جینڈر وارڈ کے بیڈ ڈینگی اور کورونا جیسے سپیشل وارڈوں میں منتقل دیے گئے ہیں۔

ٹرانس جینڈر وارڈ کے بند ہونے کی بابت ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر نوید حیدر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایم ایس کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹرانس جینڈر وارڈ کو اپنی جگہ سے منتقل کر کے میڈیکل وارڈ کے قریب بنا دیا جائے تاکہ میڈیکل سپیشلسٹ بھی ٹرانس جینڈر افراد کا معائنہ اور علاج کر سکیں۔

نارووال کے علاقے جسڑ بائی پاس کی رہنے والی اٹھائیس سالہ ٹرانس جینڈرز شمائلہ رانی چار ماہ قبل جسم پر بننے والی گلٹیوں کا علاج کرانے سرکلر روڈ پر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گئیں جہاں انہیں طبی عملے کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔

"ہسپتال کا ڈسپنسر مجھے ہراساں کرتا اور سرجری مکمل ہونے کے باوجود رات کے وقت ہسپتال میں رہنے پر مجبور کرتا رہا۔ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے میں نے جتنا جلد ممکن ہوا ہسپتال سے چھٹی لے لی۔''

یہ بھی پڑھیں

postImg

ٹرانس جینڈر افراد کے مالی حقوق کی پامالی: 'بینک نے کہا تیسری صنف کا اکاؤنٹ نہیں کُھل سکتا'۔

 شمائلہ رانی کہتی ہیں کہ اگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں ٹرانس جینڈر وارڈ قائم رہتا تو انہیں نہ تو پرائیوٹ ہسپتال میں بھاری فیس دے کر علاج کرانا پڑتا اور نہ ہی ہراسانی کا سامنا ہوتا۔

ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس کے ضلعی نائب صدر میاں محمد رفیق بتاتے ہیں کہ نارووال پنجاب کا واحد ضلع ہے جہاں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایک علیحدہ وارڈ بنایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ اچھا کام جاری نہیں رہ سکا۔ اب ہسپتال میں ٹرانس جینڈر افراد کے وارڈ کی نشاندہی کے لیے لگائے بورڈ اتار لیے گئے ہیں اور وہاں پر تالے پڑے ہیں۔

نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف اس صورت حال سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے پوچھیں گے کہ وارڈ کیوں بند کیا گیا ہے۔

تاریخ اشاعت 10 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عابد محمود بیگ 30 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اردو انگلش الیکٹرانک میڈیا کی صحافت اور انویسٹیگیش نیوز سٹوری پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

ماحولیاتی تبدیلی: پاکستان نے اہداف طے کر لئے ہیں بس دنیا کی طرف سے فنڈز کا انتظار ہے۔…

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.