نارووال کے علاقے بدوملہی کی پینتیس سالہ ٹرانس جیںڈر کنزہ عرف شرمیلی پچیس روز سے بخار میں مبتلا تھیں۔ کئی طرح کی دوائیں کھانے کے بعد بھی بخار نہ اترا تو ان کی گرو انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کے بعد پتا چلا کہ وہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہیں۔
ڈاکٹروں نے انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کر کے مردوں کے وارڈ میں بھیج دیا لیکن شرمیلی نے ہسپتال کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ انہیں ٹرانس جینڈر وارڈ میں بھیجا جائے۔ عملے نے انہیں بتایا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص وارڈ ختم کر دیا گیا ہے اسی لئے انہیں مردوں کے وارڈ میں علاج کرانا ہو گا۔
شرمیلی کو یہ منظور نہیں تھا اس لیے انہوں نے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے اپنا علاج کرا لیا جس کے لیے انہیں بھاری فیس دینا پڑی۔
صدیق پورہ کی بائیس سالہ ٹرانس جینڈر مہوش کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ دو ماہ قبل شادی کی ایک تقریب میں انہیں سر درد کی شکایت ہوئی تو ان کی گرو انہیں اسی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں لے گئیں۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد انہیں ڈرپ لگوانے کے لیے مردوں کے وارڈ میں جانے کو کہا لیکن مہوش نے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ انہیں ٹرانس جینڈر وارڈ میں بھیجا جائے۔ تاہم انہیں بھی یہی جواب ملا کہ ٹرانس جیںڈر وارڈ بند ہو گیا ہے اور اگر علاج کرانا ہے تو مردوں کے وارڈ میں جانا ہو گا۔
یہ سن کر مہوش واپس چلی آئیں۔
شرمیلی کی گرو چندا کہتی ہیں کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں بند ہو جانے والے ٹرانس جینڈر وارڈ میں ان کی کمیونٹی کو مفت اور باوقار انداز میں علاج کرانے کی سہولت حاصل تھی۔ ٹرانس جینڈر افراد کی بڑی تعداد یہاں علاج کرانے آتی تھی۔ لیکن یہ وارڈ بند ہونے کے بعد علاج کے لیے آنے والے ٹرانس جیںڈر افراد کو عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔
نارووال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں قائم ہونے والی ٹرانس جینڈر وارڈ پچھلے پانچ ماہ سے بند ہے
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال نارووال میں چھ بستروں پر مشتمل ٹرانس جینڈر وارڈ اکتوبر 2021 میں قائم کیا گیا تھا جہاں اس کمیونٹی کے لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میسر تھی۔ قیام کے بعد ایک سال کے عرصہ میں بہت سے ٹرانس جینڈر افراد اس سہولت سے مستفید ہوئے جو اب انہیں حاصل نہیں رہی۔
ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد افضال راجپوت وضاحت کرتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر وارڈ کو بند نہیں کیا گیا اور چھ میں سے دو بیڈ اب بھی موجود ہیں جبکہ ٹرانس جینڈر افراد کو مفت ادویات اور علاج تک رسائی بھی میسر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے پیش نظر ٹرانس جینڈر وارڈ کے بیڈ ڈینگی اور کورونا جیسے سپیشل وارڈوں میں منتقل دیے گئے ہیں۔
ٹرانس جینڈر وارڈ کے بند ہونے کی بابت ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر نوید حیدر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایم ایس کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹرانس جینڈر وارڈ کو اپنی جگہ سے منتقل کر کے میڈیکل وارڈ کے قریب بنا دیا جائے تاکہ میڈیکل سپیشلسٹ بھی ٹرانس جینڈر افراد کا معائنہ اور علاج کر سکیں۔
نارووال کے علاقے جسڑ بائی پاس کی رہنے والی اٹھائیس سالہ ٹرانس جینڈرز شمائلہ رانی چار ماہ قبل جسم پر بننے والی گلٹیوں کا علاج کرانے سرکلر روڈ پر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گئیں جہاں انہیں طبی عملے کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔
"ہسپتال کا ڈسپنسر مجھے ہراساں کرتا اور سرجری مکمل ہونے کے باوجود رات کے وقت ہسپتال میں رہنے پر مجبور کرتا رہا۔ کسی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے میں نے جتنا جلد ممکن ہوا ہسپتال سے چھٹی لے لی۔''
یہ بھی پڑھیں
ٹرانس جینڈر افراد کے مالی حقوق کی پامالی: 'بینک نے کہا تیسری صنف کا اکاؤنٹ نہیں کُھل سکتا'۔
شمائلہ رانی کہتی ہیں کہ اگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں ٹرانس جینڈر وارڈ قائم رہتا تو انہیں نہ تو پرائیوٹ ہسپتال میں بھاری فیس دے کر علاج کرانا پڑتا اور نہ ہی ہراسانی کا سامنا ہوتا۔
ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس کے ضلعی نائب صدر میاں محمد رفیق بتاتے ہیں کہ نارووال پنجاب کا واحد ضلع ہے جہاں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایک علیحدہ وارڈ بنایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ اچھا کام جاری نہیں رہ سکا۔ اب ہسپتال میں ٹرانس جینڈر افراد کے وارڈ کی نشاندہی کے لیے لگائے بورڈ اتار لیے گئے ہیں اور وہاں پر تالے پڑے ہیں۔
نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف اس صورت حال سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے پوچھیں گے کہ وارڈ کیوں بند کیا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 10 اپریل 2023