پینتیس سالہ ٹرانس جینڈر عائشہ عرف ایشوریہ شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں گیت گا کر روزی کماتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ان تقریبات میں رقص بھی کیا کرتی تھیں لیکن چار سال قبل حج کرنے کے بعد انہوں ںے ناچنا چھوڑ کر خود کو گانے تک محدود کر لیا تھا۔
ایشوریہ کا کہنا ہے کہ اب ان کا اس کام میں دل نہیں لگتا۔ وہ چاہتی ہیں کہ لوگ ان سے باعزت برتاؤ کریں۔
گجرات کے محلہ خواجگان کی ایشوریا جب 14 برس کی تھیں تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے والد وکیل تھے اور وہ چار بھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان پانچویں نمبر پر تھیں۔
وہ بتاتی ہیں بظاہر لڑکا ہونے لیکن لڑکیوں جیسی چال ڈھال کے باعث بھائی ان پر پابندیاں لگاتے اور حکم عدولی پر تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ اس کے علاوہ اہل محلہ کا طرزعمل بھی ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث تھا۔ اسی لیے 16 سال کی عمر میں انہوں نے گھر چھوڑ دیا اور لاہور میں فتح پور کے علاقے میں خواجہ سراؤں کے ڈیرے پہنچ گئیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس ڈیرے پر گرو محمد الیاس نے ان کی سرپرستی کی اور رقص سکھایا۔ وہ دس سال تک ان کے ڈیرے پر رہیں اور لاکھوں روپے کما کر گرو کو دیے۔
ایک روز ساتھی خواجہ سرا سے جھگڑے کے بعد گرو نے انہیں کام سے روک دیا جس کے بعد انہوں نے لاہور ہی کے علاقے بھٹہ چوک میں خواجہ سراوں کے ایک گرو کو اپنا سرپرست بنا لیا جس نے ان کے پرانے گرو الیاس کو اس کے عوض پانچ لاکھ روپے ادا کیے۔
"کچھ عرصہ کے بعد نئے گرو نے مجھے ڈسکہ میں سات لاکھ میں بیچ دیا۔ دو سال بعد وہاں سے پسرور کے گرو نثار عرف نثاری نے مجھے سات لاکھ میں خرید لیا۔ خواجہ سرا کمیونٹی کا منظم نیٹ ورک ہے۔ اگر کوئی خواجہ سرا ایک گرو کو چھوڑ کرکہیں بھی کسی دوسرے گرو کے پاس جاتا ہے تو نئے گرو کو اس کے عوض پرانے کو رقم دینا پڑتی ہے۔کوئی خواجہ سرا اپنی مرضی سے نہ تو ڈیرہ بنا سکتا ہے اور نہ ہی کام کر سکتا ہے۔"
ایشوریا کہتی ہیں کہ وہ اس خرید و فروخت سے تنگ آ چکی ہیں اور اب اس دھندے سے جان چھڑوانا چاہتی ہیں لیکن ایسا کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ گرو انہیں آزاد کرنے کے لیے 12 لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔
جہلم کی رہنے والی 24 سالہ ٹرانس جینڈر ندیم عرف امبر شہزادی کی کہانی بھی ایشوریا سے ملتی جلتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کما کر گرو کو دیتی ہیں۔ ایک این جی او سے انہیں نوکری کی اچھی آفر آئی تھی۔ لیکن گرو نے اجازت نہیں دی۔ وہ انہیں آزاد کرنے کے 25 لاکھ روپے مانگ رہا ہے جسے ادا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔
امبر کہتی ہیں کہ اگر ان کے اہلخانہ کا رویہ بہتر ہوتا تو وہ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتیں۔ گروؤں کی روایات اور باہمی تعلقات بہت مضبوط ہوتے ہیں اور کسی خواجہ سرا کے لیے اپنی مرضی سے آزادی لینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
ضلع نارووال میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی سربراہ گرو نرگس عرف ناری خرید وفروخت کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب کوئی ٹرانس جینڈر گھر سے بھاگ کر ان کے پاس آتا/آتی ہے تو وہ اسے تحفظ دیتے ہیں، اس کی تربیت کرتے ہیں اور اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
"ہم اپنی سرپرستی میں رہنے والے ٹرانس جینڈر کو کسی دوسرے گرو کے حوالے کرتے وقت اسے بیچ نہیں رہے ہوتے بلکہ اس پر خرچ کی جانے والی اپنی رقم واپس لے رہے ہوتے ہیں۔ کسی ٹرانس جینڈر پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور وہ جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔"
ناری کہتی ہیں کہ بعض ٹرانس جینڈرز نے گرو سے لاکھوں روپے قرض لے رکھا ہوتا ہے اس لیے ڈیرہ چھوڑنے سے پہلے تمام حساب بے باک کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ممتاز احمد بٹ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کسی بچے کا ٹرانس جینڈر ہونا اس کے والدین کے لیے عام طور پر ناقابل قبول ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے بچوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں وہ تنگ آ کر گھروں سے بھاگ کر کسی گرو کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ چونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا اور انہیں کسی طرح کی سماجی مدد بھی میسر نہیں ہوتی اس لیے وہ گرو کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ گرو انہیں اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا اور ان کا استحصال کرتا ہے۔
نارووال کے گاؤں قیام پور کی ستائیس سالہ اسلم عرف نشیلی کو گرو کی غلامی کے ساتھ اس کے جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان دنوں وہ گوجرانوالہ میں شیراں والا کے قریب گرو رانی ( فرضی نام) کے ڈیرے پر رہتی ہیں۔
نشیلی بتاتی ہیں کہ انہوں نے 18 سال کی عمر میں گھر چھوڑا اور سیالکوٹ میں خواجہ سراؤں کے ڈیرے پر کام شروع کر دیا تھا۔ اس دوران ان کے گرو رانی اور اس کے دوست انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ پانچ سال کے بعد جب انہوں نے ایسی زندگی قبول کرنے سے انکار کیا تو گرو نے انہیں دو لاکھ روپے میں لاہور کے ایک گرو کے حوالے کر دیا۔
دو سال کے بعد گرو رانی نے انہیں تین لاکھ میں دوبارہ حاصل کر لیا اور وہ اس پر کچھ نہ کر سکیں۔ گرو اب ان سے محافل میں ناچ گانے کے علاوہ جسم فروشی بھی کراتا ہے۔
نشیلی کہتی ہیں کہ گھر چھوڑنے کے بعد وہ متواتر غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں اور وہ چاہیں بھی تو یہ بیڑیاں توڑ نہیں سکتیں۔
"ٹرانس جینڈر جب اس دنیا میں آ جاتا ہے تو پھر اس کے لیے یہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہتا"۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر نارووال رانا طاہر الرحمن بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سال کے دوران اس ضلعے میں ٹرانس جینڈر افراد کی خرید و فروخت کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
قریبی ضلع سیالکوٹ کے ڈی پی او محمد حسن اقبال کہتے ہیں کہ اگر کسی ٹرانس جینڈر کی خرید و فروخت یا گرو کی بلیک میلنگ کی شکایت ملی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ دیگر لوگوں کی طرح ٹرانس جینڈر سے بدسلوکی بھی سنگین جرم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کسی ٹرانس جینڈر کی زندگی مشکل میں ہو تو وہ ہر ضلعے میں قائم تحفظ مرکز میں پناہ لے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
خبردار! یہ مردہ ٹرانس جینڈر ہے، اسے اس قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا!
تاہم نارووال میں محکمہ سوشل ویلفیئر کے ڈسٹرکٹ افسر علی رضا بتاتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام صرف چلڈرن ہومز (بوائز اینڈ گرلز) اور اولڈ ایج ہومز(زنانہ و مردانہ) کام کر رہے ہیں۔
"اگرچہ یہ پناہ گاہیں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے نہیں بنائی گئیں لیکن اگر حکومت انہیں بھی ان جگہوں پر رہنے کی اجازت دیتی ہے تو اس پر عمل ہو گا یا ان کے لیے نیا ادارہ بھی بنایا جا سکتا ہے"۔
نیشنل رورل ڈویلپمنٹ پروگرام کے چیف ایگزیکٹو مرزا مقیم بیگ کہتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے روزگار کے مواقع کھل جائیں تو وہ استحصال سے بچ سکتے ہیں۔ فی الوقت ان کی تعلیم اور تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ اگر ان کی فلاح کے لیے مخصوص سرکاری اداری موجود ہوتے تو معاشرے میں ان کی حالت بہت بہتر ہوتی۔
نارووال کے ڈپٹی کمشنر نارووال محمد اشرف نے بتایا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ٹرانس جینڈر افراد کو فنی تعلیم دینے کا ایک منصوبہ شروع کر رہی ہے۔ اس منصوبے سے خواجہ سراؤں کو بہتر روزگار حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
تاریخ اشاعت 4 اگست 2023