قبرستان کے ایک کونے میں چند سوگوار جمع تھے۔ میت پڑی تھی اور قبر کھودی جارہی تھی۔ اسی دوران شور مچاتے اور قبریں پھاندتے لوگوں کا ہجوم ان کی طرف بڑھا اور اعلان کیا کہ وہ اس مردے کو اس قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تدفین میں شریک لوگوں نے ان کی منت سماجت کی اور کہا کہ بحیثیت مسلمان انہیں یہاں تدفین کا حق حاصل ہے لیکن روکنے والوں نے ایک نہ سنی اور سوگواروں کو میت سمیت قبرستان سے نکال دیا۔
یہ واقعہ نارووال شہر کے پھاٹک والا قبرستان کا ہے جہاں لائی جانے والی میت ٹرانس جینڈر افراد کے گرو علی حسینہ کی تھی۔
اس موقع پر سوگواروں میں شریک نور نامی ٹرانس جینڈر بتاتی ہیں کہ انہوں نے بصد مشکل اپنے گرو کو قریبی گاؤں غازی وال کالونی کے قبرستان میں دفن کیا۔ علی حسینہ نور کے بھی گرو تھے اور وہ بچپن سے ان کے ساتھ رہتی چلی آئی تھیں۔
س واقعے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ 'اس معاشرے میں ٹرانس جینڈر افراد کا جینا ہی نہیں بلکہ مرنا بھی مشکل ہے۔''
نارووال سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر چنبیلی بتاتی ہیں کہ وہ لوگ اپنے آبائی علاقوں میں نہیں رہتے بلکہ اپنے خاندانوں سے دور جا کر کسی گرو کی شاگردی اختیار کرتے ہیں۔
''اگر کوئی ٹرانس جینڈر اپنے خاندان کے ساتھ یا اپنے آبائی علاقے میں رہے گی/گا تو اسے رشتہ داروں اور اہل علاقہ کی جملے بازی، تنقید اور اکثر اوقات تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹرانس جینڈر کا جیتے جی اپنے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جب کسی ٹرانس جینڈر کی وفات ہو جائے تو عام طور پر تب ہی اس کے اہلخانہ گرو کے پاس آتے ہیں جو میت ان کے حوالے کر دیتا ہے''
ٹرانس جینڈر گرو لیاقت کہتے ہیں کہ جن ٹرانس جینڈر افراد کے خاندان کے لوگ ان کی میت لینے نہ آئیں ان کی تدفین گرو کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
"ہم ٹرانس جینڈر کی تدفین دن کی بجائے رات کی تاریکی میں کرتے ہیں۔ تدفین کے انتظامات سے لے کر نماز جنازہ تک یہ تمام عمل رات کو انجام دیا جاتا ہے۔''
نارووال میں ٹرانس جینڈر افراد کی تنظیم کی صدر مائی طاہرو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ٹرانس جینڈر گرو حاجی منظور مرحوم نے محلہ لوہاراں میں ٹرانس جینڈر کے قبرستان کیلئے زمین خرید کر وقف کی تھی۔ اس زمین پر اب بااثر افراد نے قبضہ کرکے گھر تعمیر کر لئے ہیں۔
جب اس بارے میں محکمہ ریونیو کے سابقہ پٹواری محمد اصغر سے معلومات لینے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں نارووال شہر میں رجسٹری کے بغیر کونسلر اور میونسپل کمیٹی کے سرٹیفکیٹ پر ہی سیکڑوں پلاٹوں کی رجسٹریاں کروائی گئیں۔ ہو سکتا ہے ٹرانس جینڈر افراد کے قبرستان کے لئے وقف زمین بھی اسی طرح ہڑپ کر لی گئی ہو۔
ماہر قانون محمد صابر حسین ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کوئی قانون ٹرانس جیںڈر افراد کو عام قبرستان میں تدفین سے نہیں روکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے قانون کے تحت چھ ماہ سے تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع نارووال میں 169 ٹرانس جینڈر رہتے ہیں جن کی محکمہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹریشن موجود ہے۔ لیکن عام اندازے کے مطابق ان کی اصل تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے مطابق کسی بھی ٹرانس جینڈر فرد کو اس کی جنس، صنفی شناخت اور/یا صنفی اظہار کی بنیاد پر عوامی، تفریحی اور مذہبی مقامات تک رسائی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
قانون میں حکومت سے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 26 کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کی عوامی سہولیات اور مقامات تک رسائی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سیالکوٹ میں ریلوے پھاٹک کی رہنے والی پچیس سالہ ٹرانس جینڈر کرن شادی بیاہ کی تقریبات میں گانے گا کر روزی کماتی ہیں اور دو سال قبل عمرہ بھی کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ انہیں نہ تو مساجد میں نماز ادا کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔
ایسوسی ایشن آف ہیومن رائٹس ضلع نارووال کے نائب صدر میاں محمد رفیق کا کہنا ہے کہ تعلیم، صحت اور مذہبی آزادی سمیت تمام ایسی سہولیات تک رسائی ٹرانس جینڈر افراد کا بنیادی حق ہے جو دیگر لوگوں کو میسر ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کے حقوق کی ضمانت حکومت ہی دے سکتی ہے۔
نارووال میں خاص طور پر ٹرانس جینڈر کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والا کوئی ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے شہر میں ٹرانس جیںڈر افراد کو قومی شناختی کارڈ بنوانے میں مدد دینے والی تنظیم 'آواز' کے سربراہ مرزا مقیم بیگ کہتے ہیں کہ پہلے شہر میں کسی ٹرانس جینڈر کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتا تھا جبکہ اب بہت سے لوگ یہ سہولت حاصل کر چکے ہیں جو ان کے لئے اپنے حقوق تک رسائی کی جانب پہلا قدم ہے۔
یہ بھی پڑھیں
نارووال ڈسٹرکٹ ہسپتال میں قائم پنجاب کا پہلا ٹرانس جینڈر وارڈ کیوں بند پڑا ہے؟
نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف سے ٹرانس جیںڈر افراد کی حق تلفی اور ان کے قبرستان کے لئے مخصوص زمین پر قبضے کی بابت پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جنس کی بنیاد پر کسی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہ دینے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایسے واقعات پر ایکشن لیا جائے گا اور اگر ٹرانس جیںڈر افراد ضلعی انتظامیہ کو درخواست دیں گے تو ان کی زمین واگزار کرا دی جائے گی۔
انہوں ںے یہ بھی بتایا کہ ضلعی انتظامیہ ٹرانس جینڈرز افراد کے لئے ایک فلاحی مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جہاں انہیں تین ماہ تک تعلیم و تربیت اور چھ ماہ کے عرصہ میں ہنر سکھانے کا اہتمام ہو گا اور کورس کے اختتام پر کام شروع کرنے کے لئے درکار آلات بھی فراہم کئے جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 11 مئی 2023