بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے موٹر بوٹ پر مشرق کو سمندری سفر پر نکلیں تو 20 ناٹیکل میل (37.04 کلومیٹر) کی دوری پر ایک بے آباد جزیرہ آتا ہے جو اپنے قدرتی حسن، ریتلے ساحل، کرسٹل کلیئر نیلے پانیوں اور متنوع سمندری حیات کی وجہ سے فطرت کے شائقین کے لیے منفرد مقام مانا جاتا ہے۔
بحیرہ عرب کے شمالی ساحل کے ساتھ واقع یہ واحد آف شور آئی لینڈ 'جزیرہ استولا ' کے نام سے مشہور ہے جسے مقامی لوگ اس کی سات پہاڑیوں کی نسبت سے ہفت یا ھپت تلار (سات پہاڑ) کہتے ہیں۔ اس جزیرے کی سطح سمندر سے بلندی 240 فٹ (تقریباً 73 میٹر) تک بتائی جاتی ہے۔
استولا پاکستان کا واحد جزیرہ ہے جسے سمندری حیات کے لیے 'محفوظ علاقہ' (رامسر سائٹ) قرار دیا گیا ہے مگر یہاں سمندری حیات کے مسکن اور پرندوں کے گھونسلے انسانی سرگرمیوں سمیت متعدد عوامل کے باعث خطرے سے دوچار ہیں۔
اس جزیرے کو 15جون 2017 کو بلوچستان حکومت نے ' سمندری محفوظ علاقہ' قرار دیا تھا جس میں جزیرے (لگ بھگ تین کلومیٹر لمبا اورتقریباً دو کلومیٹر چوڑا ) کے 6.7 مربع کلومیٹر رقبے اور ارد گرد بفر زون کو ملا کر401.47 مربع کلومیٹر علاقے کوشامل کیا گیا ہے۔
انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے یہاں کروائے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جزیرہ استولا پر فالکن سمیت مہمان اور مقامی پرندوں کی 61 اقسام (سپشیز) پائی گئیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کی سات اقسام جس میں ایک خاص نسل کا سانپ (Saw-scaled viper)، تین اقسام کے چوہے اور سبز کچھوے وغیرہ پائے گئے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ یہاں پانچ اقسام کے میمل پائے جاتے ہیں جن میں فیل ماہی، انڈو پیسیفک فن لیس پورپوز اور عالمی خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل (جوصرف بحیرہ عرب میں ملتی ہے) شامل ہیں۔ اس جزیرے کے ارد گرد مچھلیوں کی 27 اقسام موجود ہیں۔
جزیرے میں سخت کورال (مرجان اور مونگے) کی گیارہ اقسام ہیں جبکہ 30 اقسام کی جھاڑیاں، گھاس وغیرہ کے علاوہ تین انواع کے سمندری پودے بھی موجود ہیں۔ تاہم یہاں میٹھا پانی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی درخت نہیں ہے۔
رامسر سائٹ انفارمیشن سروس کے مطابق استولا میں جینیاتی اور ماحولیاتی تنوع برقرار ہے۔ یہاں کچھوے کی دو ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو عالمی سطح پر خطرے سے دوچار ہیں جن میں سبز کچھوا اور ہاکس بل (یہ کچھوا پانی کے درجہ حرارت کے ساتھ رنگ بدل لیتا ہے) سرفہرست ہیں۔
یہ جزیرہ، بلوچستان کے ضلع گوادر تحصیل پسنی کی ریونیو حدود میں آ تا ہے تاہم صوبائی محکمہ ماہی پروری ساحل سے 12 سمندری میل تک نگرانی کی ذمہ داری سنبھالتا ہے جبکہ استولا کا فاصلہ 20 سے 24 سمندری میل ہے جس کی وجہ سے اس کا انتظام میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی (ایم ایس اے)کو سونپا گیا ہے۔
استولا پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کو ماہی گیر پانیوں سے خاص مناسبت رکھنے والے بزرگ خواجہ خضر کی درگاہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں کالی دیوی کے قدیم مندر کے آثار بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے ہندو اس جزیرے کو 'ستادیپ' کہتے تھے۔
اس جزیرے پر تیسری انسانی تعمیر 1982ء میں بنایا جانے والا لائٹ ہاؤس ہے جو اب سولر پر منتقل ہو چکا ہے۔
ناخدا نیک سال بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی مئی سے ستمبر تک ہفت تلار آتے ہیں اور مچھلیاں، جھینگے ،کیکڑے وغیرہ پکڑنے کے لیے عارضی قیام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سیاح بھی یہاں اسی دوران ہی آتے ہیں، باقی مہینوں میں اکثر یہ جزیرہ ویران ہی دکھائی دیتا ہے۔
" کچھ مقامی لوگ یہاں خواجہ خضر کی درگاہ پر منت مانگنے اور زیارت کے لیے بھی آتے ہیں۔"
ملا شکاران علی پسنی کے باسی ماہی گیر ہیں جو سال میں تین مرتبہ ہفت تلار ضرور جاتے ہیں اور وہاں زیارت کرکے دو تین دن بعد واپس آتے ہیں۔
ان کا پختہ یقین ہے کہ جب کوئی ناخدا مصیبت یا شکار نہ ملنے پر خواجہ خضر کو پکارتا ہے تو وہ ان کی ضرور مدد کرتے ہیں۔
2020ء میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم نے یہاں زیرِآب مونگے اور مرجان کی چٹانوں کا جائزہ لیا تھا جس کے بعد ٹیم کے ارکان نے بتایا تھا کہ استولا میں مونگے اور مرجان کی چٹانیں محفوظ ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تکینکی معاون محمد معظم خان اور انڈس سکوبہ ڈائیورز کے مومن زیدی اس ٹیم میں شامل تھے جن کا کہنا ہے کہ مشاہدے کے دوران غوطہ خوروں کو چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سمندری جہاز کا ملبہ ملا ہے جس میں سمندری حیات موجود تھیں۔
لیکن اب 'سب اچھا' نہیں ہے۔
ماہرِ سمندری حیات ڈاکٹر واجد بلوچ بتاتے ہیں کہ تاریخی جزیرہ استولا اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے جس کا ذکر قبل مسیح کے یونانی امیر البحر نے بھی کیا ہے لیکن سندھ سے آنے والا ٹرالر مافیا اس جزیرے کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ فشنگ ٹرالرز کے پاس ایسے جال ( مقامی نام گجّو) ہوتے ہیں جو سمندر کی تہہ میں پونگے کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اس غیرقانونی ٹرالنگ سے جزیرے کی سمندری مخلوق محفوظ ہے نہ آسمانی (پرندے)۔
"گرمیوں میں مہمان پرندے انڈے دینے کےلیے مکران کے ساحل کو مسکن بناتے ہیں مگر ٹرالنگ ان کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ ٹرالرز کچھووں، مرجان اور مونگے کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جس سے سمندری ایکو سسٹم متاثر ہو رہا ہے۔"
کورال کو خطرہ، آبی حیات کے لیے خطرہ کیوں ہے؟
کورال (مرجان اور مونگے ) پانی کے اندر ایک ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم)ہے جو سمندر کے پانی کی نچلی سطح میں کیلشیم کاربونیٹ کے ذریعے کالونیاں (چٹانیں) بناتا ہے۔ یہ چٹانیں یا کالونیاں سمندری حیات کے لیے مسکن کا کام کرتی ہیں جن میں سپنج، سیپ، کلیم، کیکڑے، سمندری سٹار اور ارچنز وغیرہ شامل ہیں۔
مرجان (کورال) کو ایشیائی ممالک میں نگینے(رنگین پتھر) کے طور پر زیورات میں لگایا جاتا ہے جبکہ طبی میدان میں اس سے ہڈیوں کو جوڑنے ( بون گراف ) اور کینسر کے علاج میں استعمال کے لیے تجربات کیے جا رہے ہیں۔
تاہم مقامی لوگ مرجان سیاحوں یا دکان داروں کو بیچنے کے لیے 'کورال مائننگ' کرتے ہیں جس سے سمندری حیات کی یہ کالونیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔
کورال کے لیے انتہائی خطرناک فشنگ ٹرالرز کو بھی کوئی سرکاری ادارہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
پسنی اور ساحلی بستیوں کے ماہی گیر اگست سے مئی تک اس جزیرے کو ٹھکانے کے طور پر استمال کرتے ہیں جن میں سے بیشتر جھاڑیوں کو جلا کر کھانا وغیرہ بناتے ہیں جس سے یہاں کی نباتات شدید متاثر ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'فشنگ ٹرالرز نے گوادر ساحل پر تباہی مچا رکھی ہے'، کلمت کے ماہی گیروں نے احتجاجاً سمندر میں جانا چھوڑ دیا
بتایا جاتا ہے کہ ماہی گیر جب مچھلیاں پکڑنے کے لیے یہاں آتے تو جزیرے پر موجود چوہے ان کے جال کتر دیتے تھے جن پر قابو پانے کے لیے انہوں نے (1960ء کی دہائی میں) اپنے ساتھ گھریلو بلیاں لانی شروع کر دیں۔ لیکن اب یہ بلیاں کچھووں اور پرندوں کی افزائش کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ان کے انڈے، بچے کھا جاتی ہیں۔
سماجی کارکن بادل بلوچ بتاتے ہیں کہ اسٹولا (ہفت تلار) جزیرے کے لیے حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ایک طرف اسے ریزرو ایریا بنایا گیا ہے تو دوسری طرف ٹورسٹ مقام بھی بنا دیا گیا ہے۔ مقامی ماہی گیر بھی جزیرے پر آتے جاتے رہتے ہیں۔
بادل بلوچ کہتے ہیں کہ سیاحوں کا رش، جگہ جگہ پلاسٹک کا کچرا اور ماہی گیروں کے ٹوٹے جال، سمندری حیات کی افزائش کے لیے سخت خطرناک ہیں۔ مگر یہاں صفائی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ بلیوں کا بھی کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔
ایم ایس اے جزیرے پر فشریز ریگولیشن کے نفاذ، زون میں غیر قانونی سرگرمیوں اور کورال مائننگ(مرجان کی کان کنی) روکنے کی ذمہ دار ہے، محکمہ جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان کو بھی آبی و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کا اختیار ہے۔
جزیرہ استولا کی صورت حال کے حوالے سے ایم ایس اے حکام سے رابطہ نہیں ہو سکا جبکہ ڈپٹی کنزرویٹر جنگلات و جنگلی حیات یار محمد دشتی بتاتے ہیں کہ ان کا محکمہ ہر وقت مقامی ماہی گیروں اور سیاحوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ جزیرے پر پلاسٹک اور جال کے ٹکڑے نہ پھینکیں۔
"ہمارے پاس بوٹ، کشتی یا دیگر وسائل نہیں ہیں جس سے ہم وہاں روزانہ گشت کریں سٹاف کی بھی کمی ہے۔ اس کے علاوہ جزیرے پر کوئی ایسی سہولت یا جگہ موجود نہیں جہاں کوئی اہلکار قیام کر سکے۔"
تاریخ اشاعت 2 مئی 2024