لیہ کے جابرحسین تھرمل پاور سٹیشن مظفرگڑھ میں بطور لیب اسسٹنٹ ملازمت کرتے ہیں اور پچھلے بیس سال سے اسی سٹیشن کی کالونی میں اپنی اہلیہ اوردوبچوں کےساتھ رہتے ہیں۔
ملازمت کے چند سال بعد ان کے چہرے پر داغ دھبے نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ پہلے تو انہوں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی مگر جب داغ بڑھنے لگے تو انہوں نےعلاج کے لیے ماہر امراض جلد سے رجوع کیا۔
ڈاکٹر نے چند ٹیسٹ کرانے کے بعد بتایا کہ یہ نشان خراب پانی کے استعمال یا ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
علاج کے دوران جابر حسین کو اندازہ ہوا کہ جس آلودگی کی وجہ سے انہیں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اس کا ذمہ دار یہی تھرمل پاور سٹیشن ہے۔
جابر حسین کا علاج کرنے والی ڈاکٹر ندایاسر نے بتایا کہ یہ بیماری ڈرما ٹائیٹس کہلاتی ہے جو جلد کو خراب کر دیتی ہے۔اس کے نتیجے میں جسم پر سیال سے بھرے چھالے ابھر آتے ہیں، جسم پر سوزش رہتی ہے اور خارش والے سرخ دانے بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔
ضلع مظفر گڑھ میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز )، جنریشن کمپنیز(جینیکو ) اور واپڈا کے تحت تین تھرمل پاور سٹیشن کام کر رہے ہیں۔ یہ تینوں گذشتہ صدی کے آخری دو عشروں میں لگائے گئے تھے۔
ضلعے میں سب سے بڑا تھرمل پاور سٹیشن کیپکو تحصیل کوٹ ادو میں لگایا گیا تھا۔اس کی پیداواری صلاحیت ایک ہزار 600 میگاواٹ ہے۔ یہ گیس، فرنس آئل اور ڈیزل تینوں ایندھن استعمال کرتا ہے مگر حکومت کے ساتھ معاہدے کی تجدید نہ ہونے کے باعث تقریباً ایک سال سے بند پڑا ہے۔
دوسرا تھرمل پاور سٹیشن اے ای ایس لعل پیر ہے جس کی پیداواری صلاحیت قریباً 730 میگاواٹ ہےاور یہ فرنس آئل سے بجلی پیدا کرتا ہے۔یہ پاور سٹیشن ان دنوں 360 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
لعل پیر تھرمل پاور سٹیشن انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ماحولیاتی گائیڈ لائنز پر مکمل عمل کر رہے ہیں۔
تیسرا اور سرکاری شعبے کے زیر انتظام مظفرگڑھ تھرمل پاور سٹیشن ہے جس میں جابر حسین کام کرتے ہیں۔یہ شہر سے صرف چار کلومیٹر پر واقع ہیں ۔اس پاور سٹیشن سے بجلی کی پیداوار1997ء میں شروع ہوئی تھی۔
یہ پاور سٹیسن تقریباً ایک ہزار 300ایکڑ رقبے پر پھیلاہوا ہے ۔جس میں پاور پلانٹس ،بجلی کی تنصیبات اور رہائشی کالونی شامل ہیں۔اس تھرمل پاور نے جہاں دو ہزار کے قریب لوگوں کو ملازمت دی وہاں مقامی سطح پر بہت سے دیگر مواقع بھی پیدا کئے ہیں۔
مظفرگڑھ پاور سٹیشن جب اپنی پوری صلاحیت سے چلتا ہے تو ماہانہ چھ ہزار ٹن فرنس آئل استعمال کرتا ہے۔اس کی تین بڑی چمنیاں دن رات فضا میں دھواں اگلتی رہتی ہیں اور اس آلودگی نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
امریکن ایئر کوالٹی انڈکس کے مطابق مظفر گڑھ میں آلودگی کی شرح 59 مائیکرو گرام فی مکعب فٹ ہے جو عالمی ادارہ صحت کے سالانہ معیار سے تقریباً 12 گنا زیادہ ہے۔
تھرمل پاور یہاں صرف فضائی آلودگی ہی کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ اس میں بڑے پیمانے پر پانی کا استعمال اور پھر آلودہ پانی کا اخراج الگ مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر میں چھ سو فٹ گہرائی پر بھی اب صاف پانی میسر نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیں
تھر کول پاور پراجیکٹ: مقامی لوگوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب
سرکاری واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق مظفرگڑھ کے زیرزمین پانی میں آلودگی ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈیزالوڈ سالڈز)کی شرح 1000سے1360 پی پی ایم (پارٹس پر ملین)کے درمیان ہے۔ جبکہ ماہرین کے مطابق پینے کے قابل پانی میں ٹی ڈی ایس کی شرح زیادہ سے زیادہ 600 سے900 کے درمیان ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں ٹی پی ایس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تھرمل پاور لگائے جارہے تھے اس وقت ماحولیاتی شعور کم تھا۔ اسی لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس پر حکومت نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی یونٹس لگانے والوں نے ایسا کیا۔
تاہم چیف انجینیئر ٹی پی ایس شیخ اکرم کہتے ہیں کہ تھرمل پاور کی تین بڑی چمنیوں کو اسی لیے بلند ترین سطح پر رکھا گیا ہے کہ دھوئیں کا انسانی زندگی پر اثر کم سے کم ہو۔
تاہم فضا میں دھوئیں اور زیرزمین آلودہ پانی سے مقامی لوگوں کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں ہر علاقے میں دمے، آنکھوں کی سوزش اور جلد کے مریض دکھائی دیتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہسپتال مظفرگڑھ میں شعبہ جلدی امراض کی سربراہ ڈاکٹر مہک رسول بتاتی ہیں کہ ہسپتال میں آنے والا ہر دسواں مریض خراب پانی کے باعث جلدی امراض کاشکارہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے تین برس ایسے 876 مریض ان کے وارڈ میں آ چکے ہیں۔
تاریخ اشاعت 10 اکتوبر 2023