سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں 8 فروری کو دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر انتخابی میدان سجے گا۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی سیاسی پارٹیاں، خاندان، گدی نشین اور برادریاں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔
اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹرز کا تعداد سات لاکھ 23 ہزار 591 ہے جن میں تین لاکھ 92 ہزار 395 مرد اور تیں لاکھ 31 ہزار 196 خواتین ووٹرز ہیں۔
تھر پارکر کی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے ارباب خاندان کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اگرچہ صورتحال اب خاصی تبدیل ہو چکی ہے لیکن پھر بھی ارباب خاندان یہاں طاقت کا ایک بڑا مرکز خیال کیا جاتا ہے۔
ماہر تعلیم اور ریٹائرڈ پرنسپل روی شنکر مہاراج بتاتے ہیں کہ تھرپارکر میں سیاست کے تین مراکز رہے ہیں جن میں کھیتلاری کا ارباب خاندان، مٹھی کا ملانی خاندان اور 'امرکوٹ کے رانا' شامل ہیں۔ ان کے بعد یہاں گدی نشینوں اور برادریوں کا نمبر آتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ارباب خاندان کے سربراہ ارباب خان توگاچی سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرنے والوں میں شامل تھے۔ لیکن اس خاندان کو سیاست کا محور ارباب امیر حسن نے بنایا جو خود کئی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے تھے۔ ان کے بھائی ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ اور خاندان کے کئی افراد رکن اسمبلی، وزیر اور مشیر رہ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امیر حسن کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ارباب امیر امان اللہ اور لطف اللہ پیپلز پارٹی جبکہ مرحوم کے بھائی ارباب غلام رحیم اور بہنوئی ذکاء اللہ جی ڈی اے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں بھی ارباب لطف اللہ اپنے چچا ارباب رحیم کو ہرا کر ایم پی اے بنے تھے۔
آئندہ انتخابات میں قومی اور صوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی نے اس خاندان کے دو افراد جبکہ جی ڈی اے نے پانچ افراد کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔
تھرپارکر نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 221 تھرپارکر 1 اب این اے 214 تھرپارکر 1 ہے
ضلع تھرپارکر ایک میں ڈاہلی تعلقے کے تمام دیہات، ننگرپارکر اور چھاچھرو کی کچھ آبادیاں شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع تھرپارکر کے اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 222 تھرپارکر 2 اب این اے 215 تھرپارکر 2 ہے
تھرپارکر دو حلقہ کلوئی ، ڈًپلو، میٹھی ، اسلام کوٹ اور چھاچھرو تعلقوں کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضلع تھرپارکر کے اس حلقے کے علاقوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 54 تھرپارکر 1 اب پی ایس 52 تھرپارکر 1 ہے
ضلع تھرپارکر کا یہ حلقہ پورے ڈاہلی تعلقہ اور چھاچھرو تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 55 تھرپارکر 2 اب پی ایس 53 تھرپارکر 2 ہے
ضلع تھرپارکر کا یہ حلقہ پورے ننگرپارکر اور چھاچھرو تعلقے کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 56 تھرپارکر 3 اب پی ایس 54 تھرپارکر 3 ہے
تھرپارکر کا یہ حلقہ پورے اسلام کوٹ تعلقے، میتھی تعلقے اور چھاچھرو تعلقے کےعلاقوں پر مشتمل ہے۔2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
2018 کا صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 57 تھرپارکر 4 اب پی ایس 55 تھرپارکر 4 ہے
یہ حلقہ پورے ڈپلو تعلقے، کلوئی تعلقے اور میتھی تعلقے کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
تھرپارکر میں پیروں اور گدی نشیوں کا بھی بہت اثر ہے جہاں سے جیلانی جماعت کے پیر نور محمد شاہ اور ان کے بیٹے امیر علی شاہ، سروری جماعت کے مخدوم سعید الزماں اور مخدوم نعمت اللہ منتخب ہوتے رہے ہیں۔
اسی طرح غوثیہ جماعت کے مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان میں بیٹھ کر یہاں سے الیکشن لڑتے رہے ہیں اور اب بھی امیدوار ہیں۔جبکہ پیر پگارا کی حر جماعت کا اکثر ووٹ ارباب خاندان کے امیدواروں کو جاتا ہے۔
جہاں تک برادری ووٹ کا تعلق ہے تحصیل چھاچھرو سے غلام حیدر سمیجو ایم این اے جبکہ دوست محمد راہموں ایم پی اے اپنی سمیجو اور راہموں برادریوں کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے۔
ضلع تھرپارکر میں ہندو آبادی کا بھی بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ 2023ء کی آدم شماری کے مطابق تھرپارکر کی کل آبادی 17 لاکھ 78 ہزار 407 ہے لیکن ابھی تک اقلیتی آبادی کی تعداد سامنے نہیں آئی۔ تاہم 2017ء کی مردم شماری میں یہ تناسب کل آبادی کا 43 فیصد بتایا گیا تھا۔
تھرپارکر میں مٹھی کا ملانی خاندان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہا ہے جن میں جگدیش ملانی ایم پی اے اور موتی رام ملانی ایم این اے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی ڈاکٹر مھیش کمار ملانی ایم این اے بنے تھے۔ بعدازاں وہ یہیں جنرل سیٹ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ملک کے پہلے رکن صوبائی اسمبلی اور پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
اسی طرح یہاں کی مینگھواڑ(ہندو) برادری سے پی پی کے ضلعی صدر انجنئیر گیان چند سینیٹر، سینیئر سیاستدان کھٹومل جیون اور سریندر ولاسائی رکن اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ سمترا منجیانی اب وائس چیئرپرسن مٹھی میونسپل کمیٹی ہیں۔
اسی طرح پی پی رہنما سابق ایم پی اے پونجو مل بھیل، کملا بھیل، مھیش بھیل یہاں کی بھیل برادری میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں جن میں کملا بھیل پی پی خواتین ونگ کی رہنما اور ضلع کونسل کی وائس چیئرپرسن ہیں۔ جبکہ لجپت بھیل پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتے ہیں۔
تھرپارکر کی راجپوت برادری عمر کوٹ کے رانا خاندان کے زیر اثر ہے لیکن رام سنگھ سوڈھو اور رانا ھمیر سنگھ کے گروپوں میں تقسیم رہتی ہے۔ کیونکہ ٹھاکر برادری کے کچھ خاندان ارباب خاندان کے رشتہ دار ہیں۔
آنجہانی رام سنگھ سوڈھو جو ایم پی اے اور ایک بار نائب ضلع ناظم رہے مگر بعد میں بھارت چلے گئے تھے وہ ارباب امیر حسن اور ارباب غلام رحیم کے ماموں زاد تھے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ ماضی میں ارباب خاندان راجپوتوں میں شادیاں کرتا تھا۔ اس وقت رام سنگھ سوڈھو کے حامی ارباب لطف کے ساتھ ہیں۔
'امرکوٹ کے رانا' ہمیر سنگھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں جواقلیتی نسشت پر ایم پی اے تھے اور اب بھی مخصوص نشستوں کی پارٹی لسٹ میں شامل ہیں۔ جبکہ مینگھواڑ برادری کے کھٹومل جیون اور سریندر ولاسائی کو بھی اس لسٹ میں رکھا گیا ہے۔
ضلع تھرپارکر کا پہلا قومی حلقہ این اے 214 تحصیل ڈاہلی، ننگر پارکر اور چھاچھرو کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جہاں پیپلز پارٹی کے امیر علی شاہ جیلانی ، پی ٹی آئی کے (آزاد) مخدوم شاہ محمود اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)کے عبدالرزاق راہموں امیدوار ہیں۔
اس حلقے میں گدی نشینوں کے علاوہ راہموں اور سمیجو برادریوں کا ووٹ زیادہ ہے۔
سینیئر صحافی ممتاز راہموں بتاتے ہیں کہ یہاں برادریوں کے ووٹ تقسیم ہیں لیکن گدی کے ووٹ اکثر ایک طرف ہی جاتے ہیں۔ اگر غوثیہ جماعت اور حر جماعت یعنی پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کا اتحاد نہیں ہوتا تو اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ہوگا ۔
وہ کہتے ہیں کہ 2018ء میں جی ڈی اے اور غوثیہ جماعت کا اتحاد تھا تب ہی شاہ محمود قریشی نے پیپلزپارٹی کے نور شاہ جیلانی کا مقابلہ کیا تھا مگر پھر بھی ہار گئے تھے۔ اب شاہ محمود قریشی کے ساتھ عبدالرزاق راہموں بھی میدان میں موجود ہیں جس سے پیپلز پارٹی کو بہت فائدہ ہوگا۔
اس قومی حلقے کے نیچے دو صوبائی نشستیں آتی ہیں۔ پہلا نشست پی ایس 52 ڈاہلی۔چاچھرو ہے جہاں راہموں، سمیجو اور نھڑی برادری کے ووٹ زیادہ ہیں لیکن یہ تقسیم ہوتے ہیں۔
پچھلے الیکشن میں یہاں جی ڈی اے کے رزاق راہموں، پی پی کے دوست محمد راہموں اور جیلانی خاندان کے امداد شاہ میں مقابلہ تھا جس میں رزاق راہموں جیت گئے تھے۔
اس مرتبہ پی پی کے دوست محمد راہموں اور جی ڈی اے کے شیر خان سمیجو مدمقابل ہیں اور جیلانی جماعت پی پی کی اتحادی ہےاس لیے پی پی کی پوزیشن مضبوط نظر آ رہی ہے۔
پی ایس 53 ننگرپارکر میں کھوسہ، مینگھواڑ، کولھی اور راجپوت برادریوں کے علاوہ مخدوم جمیل الزمان کی سروری جماعت کے مریدوں کی اکثریت ہے۔اس حلقے میں پی پی کے قاسم سومرو اور جی ڈی اے کے ارباب انور کے درمیان مقابلہ ہے۔
یہاں کے رہائشی سابق ہیڈماسٹر امولکھ داس بتاتے ہیں کہ پچھلی بار اس حلقے میں پی پی کے امیدوار قاسم سومرو، جی ڈی اے کے ارباب انور اور غنی خان کھوسو آزاد امیدوار تھے۔ جن میں سے قاسم سومرو جیت گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بار کھوسو برادری کے غنی خان پی پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کولھی برادری کی سینیٹر کرشنا کماری، ان کے بھائی ویرجی کولھی، مینگھواڑ برادری کے رہنما اور رانا ہمیر سنگھ بھی پی پی کے حامی ہیں۔ جس سے پی پی کی پوزیشن مضبوط ہے۔
تھر کی دوسری قومی نشست این اے 215 تحصیل مٹھی، ڈیپلو، اسلامکوٹ اور کلوئی پر مشتمل ہے جہاں پیپلز پارٹی کے مھیش کمار ملانی اور جی ڈی اے کے ارباب غلام رحیم میں مقابلہ ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی مہرالنسا بلوچ کے علاوہ پی پی کے باغی رہنما میئن بجیر اور ہیمراج بھیل بھی میدان میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
حیدرآباد: "لوگ صرف پارٹی نشان کو ووٹ دیتے ہیں" کیا یہاں نتائج میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
یہ نشست گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ڈاکٹر مھیش کمار ملانی نے جی ڈی اے کے ارباب ذکاءاللہ کو ہرا کر جیتی تھی۔
روی شنکر مہاراج کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں پیروں کا ووٹ کم ہے جبکہ مینگھواڑ، بھیل، بجیر، نھڑی، جونیجو، راہموں اور ہنگورجو برادری کے ووٹ زیادہ ہیں۔ لیکن اس حلقے کی سب سے بڑی مینگھواڑ برادری اب پی پی سے ناراض لگ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل مٹھی میں مینگھواڑ برادری نے اپنے اکٹھ میں کلارام کو پی ایس 55 اور لجپت پنجوانی کو این اے 215 کے لیے برادری کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ اگر سینیٹر گیانچند اور ڈاکٹر کھٹو مل اپنی برادری کو منانےمیں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ پی پی کے مخالفین کو ہوگا۔
پی ایس 54 اسلام کوٹ سے گذشتہ انتخابات میں تین امیدواروں پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی، جی ڈی اے کے ارباب فواد رزاق اور آزاد امیدوار لجپت بھیل کا مقابلہ ہوا تھا جن میں سے شیر محمد بلالانی کامیاب ہوئے تھے۔
اس مرتبہ بھی تینوں سابقہ امیدوار مدمقابل ہیں لیکن لجپت بھیل اب پی ٹی آئی کے نام سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ یوں پی پی مخالف ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہونےکا امکان ہے جس کا شیر محمد بلالانی کو فائدہ ہوگا۔
پی ایس 55 ڈیپلو۔ مٹھی۔ کلوئی میں پچھلی بار چچا بھتیجے میں مقابلہ ہوا اور پی پی کے ارباب لطف اللہ نے جی ڈی اے کے ارباب غلام رحیم کو شکست دی تھی۔ اس مرتبہ ارباب لطف اللہ کا مقابلہ ان کے بہنوئی جی ڈی اے کے ارباب ذکاءاللہ سے ہوگا جبکہ محمد خان لونڈ، کلارام مینگھواڑ اور اوبھایو جونیجو بھی امیدوار ہیں۔ جس سے ارباب لطف اللہ اور ارباب ذکاءاللہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
صحافی کھاٹا وجانی سمجھتے ہیں کی ارباب غلام رحیم کے مقابلے میں مھیش کمار ملانی امیدوار ہیں جبکہ یہاں مٹھی شہر اور اقلیتوں کا ووٹ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے جس کا پارٹی کو صوبائی نشست پر بھی فائدہ ہوگا۔
تاریخ اشاعت 23 جنوری 2024