'ماڈل ویلیج' میں منتقل ہونے والے تھر کول متاثرین احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

postImg

الیاس تھری

postImg

'ماڈل ویلیج' میں منتقل ہونے والے تھر کول متاثرین احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

الیاس تھری

اسی سالہ تھانو بھیل، پانچ سال پہلے تک اسلام کوٹ کے 16 کلومیٹر شمال میں گاؤں 'سینھری درس' میں رہتی تھیں جہاں ان کے گھرانے کے علاوہ درجنوں ہندو اور مسلمان خاندان صدیوں سے آباد تھے۔

پھر حکومت نے یہاں کی زمینوں میں موجود کوئلہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا گاؤں، مویشیوں کی چراگاہیں اور زمینیں ختم ہونے جا رہی تھیں جس پر وہاں کے سب مکین پریشان تھے کہ اب ان کا کیا ہو گا؟

 "تاہم اس دوران ہمیں 'ماڈل ویلیج'، علاقے کی ترقی اور نوکریوں کے بڑے بڑے خواب دکھائے گئے جن سے ہم لوگوں کو بہتری کی امید نظر آئی اور ہم اپنے ہاتھوں سے بنائے گھر زمینیں چھوڑنے پر رضامند ہو گئے۔"

وہ اب اپنے خاوند اور دو بیٹوں کے ساتھ ماڈل ویلیج میں رہتی ہیں مگر آج کل سخت پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک تو ان کے دونوں بیٹوں کو یہاں کول کمپنی میں کام نہیں ملا جنہیں بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ کر بیراجی علاقوں میں کھیت مزدوری کے لیے جانا پڑتا ہے۔

"لیکن اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گھر پانچ سال ہی میں خستہ حال ہو گئے ہیں، ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ کہیں ہمارے اوپر گر ہی نہ جائیں۔"

صرف تھانو بھیل ہی نہیں ہیں بلکہ تھرکول بلاک ٹو کی حدود میں واقع اس ماڈل ویلیج کے تمام مکین تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے 20 جون سے با ضابطہ احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔

تھر کول مائننگ کے لیے جن علاقوں کا 2014ء میں سب سے پہلے انتخاب کیا گیا ان میں گاؤں سینھری درس بھی 'کول بلاک ٹو' کے اوپن پٹ مائننگ ایریا میں شامل تھا جہاں کے باسیوں کو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے ایک معاہدے کے تحت نیا 'ماڈل ویلیج' بنا کر ری سیٹل(دوبارہ آباد) کیاجس کا فریم ورک سندھ حکومت پہلے ہی تیار کر چکی تھی۔

یہ معاہدہ فریقین کی رضامندی سے 20 جنوری 2016ء کو طے پایا اور ایک سٹمپ پیپر پر تحریر کیا گیا جس پر سینھری درس کے باسیوں اور کمپنی کے نمائندہ فرحان انصاری نے دستخط کیے تھے۔

اس دستاویز میں واضح کیا گیا کہ یہ گاؤں مائننگ سرگرمی کے باعث متاثر ہوگا جس کے لیے یہاں کے لوگوں کو بلاک ٹو کے ارد گرد دوبارہ آباد کیا جائے گا اور اس سلسلے میں کمپنی کے نمائندوں اور گاؤں کے باسیوں نے مل کر نئی جگہ (سائٹ)کا انتخاب کیا ہے۔

معاہدے کے تحت ہر شادی شدہ جوڑے کو ایک ہزار گز رقبے پر مشتمل مکمل گھر دیا جائے گا جس میں باتھ روم، ٹائلٹ، بجلی کی فٹنگ و ترسیل اور بائونڈری وال کی سہولیات میسر ہوں گی۔

یہ بھی طے پایا کہ نئی آبادی میں پینے کے پانی کے لیےآر او پلانٹ، واٹر سپلائی سکیم، سکول اور صحت کی سہولت ملے گی جبکہ مسجد اور مندر بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ مویشیوں کے لیے ہر محلے میں جگہ اور دو قبرستانوں (ہندو اور مسلم کے لیے الگ الگ)کے لیے زمین بھی مختص کی جائے گی۔

علاوہ ازیں اس آبادی میں ایک مارکیٹ، پارک، دو کمیونٹی سینٹرز ، کھیل کا میدان اور محلے کے حساب سے اوطاق (مہمان خانہ) کی تعمیر بھی معاہدے میں شامل تھی۔ جبکہ گئوچر (مویشیوں کی چراگاہ) کے لیے 850 سے 1000 ایکڑ تک رقبہ بھی مختص کیا جانا تھا۔

معاہدے کے بعد سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے اپنے سی ایس آر(کارپوریٹ سوشل ریسپانسیبلیٹی) کے لیے 'تھر فاؤنڈیشن' کے نام سے ایک سماجی تنظیم بنائی اور نئے ویلیج کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا۔

اب کمپنی حکام کا دعویٰ ہے کہ کمپنی نے ماڈل ویلیج کی تعمیر اور اس میں لوگوں کی آباد کاری کے بعد اس معاہدے کی تکمیل کر دی ہے۔

ماڈل ویلیج سے متعلق ایک ای میل کے سوالنامے کے جواب میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ کمپنی مقامی کمیونٹیز کی مدد اور مشاورت پر یقین رکھتی ہے۔اسی کے پیش نظر نیو سینھری درس ماڈل گاؤں بھی مکینوں کی مشاورت سے آباد کیا گیا جہاں تعمیر کے لیے گھروں کی فہرست کی توثیق یہاں کے بزرگوں نے کی تھی۔

"گاؤں میں صاف پانی کے لیے دو آر او پلانٹس، ڈسپنسری، سکول، ایک بازار، مسجد، مندر، کھیل کا میدان، اور مردوں و عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیونٹی ہال بنائے گئے۔ ہر گھرانے کو 100 یونٹ مفت بجلی اور فی گھر سالانہ ایک لاکھ روپے ملتا ہے جبکہ گاؤں سے ملحقہ 850 ایکڑ اراضی زمین گؤچر کے لیے مختص کی گئی ہے۔"

"ایک ذمہ دار کمپنی کے طور پر ہم حکومت سندھ کو رائلٹی ادا کرتے ہیں جس کی تقسیم صوبائی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔"

کمپنی کا کہنا ہے کہ 1100 مربع گز کے پلاٹ پر تعمیر شدہ ہر گھر میں تین کمرے، سٹور روم، باورچی خانہ اور مویشیوں کا شیڈ موجود ہے جبکہ ہر گھر میں سولر سسٹم بھی لگا ہوا ہے۔

حکام کے بقول اب ان گھروں میں منتقل ہونے کے بعد ان کی مرمت اور دیکھ بھال رہائشیوں کی ذمہ داری ہے۔

مگر ماڈل ویلیج کے باسی الزام لگاتے ہیں کہ حکمرانوں اور کمپنیوں نے ان کے ساتھ جو وعدے اور معاہدے کیے ان پر عمل نہیں ہوا۔ "ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور اب ہماری بات سننے والا بھی کوئی نہیں۔"

اڑتیس سالہ نبی بخش درس اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک تھے جو اب اسی ماڈل ویلیج میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب 2014ء میں گاؤں کا سروے کیا گیا تو 182 خاندان بے دخل ہو رہے تھے مگر معاہدہ صرف 172گھر بنانے کا کیا گیا۔

"2018ء میں لوگوں کی منتقلی شروع ہوئی تومزید 30 نوجوانوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ ہم نے کمپنیوں سے 40 اضافی گھر تعمیر کا مطالبہ رکھا جو قبول کر لیا گیا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔"

 وہ کہتے ہیں کہ بلاک ٹو کی مائیننگ اور پھر پاور پلانٹس کی افتتاحی تقریبات کے دوران یہ بھی طے پایا تھا کہ متاثرین کو فی خاندان ایک لاکھ روپے سالانہ معاوضہ دیا جائے گا اور بجلی مفت دی جائے گی۔

"ماڈل ولیج کے باسیوں کو سالانہ معاوضے ادائیگی تو ہو رہی ہے مگر معاہدے کے مطابق رقم میں اکانومی ویلیو کے مطابق اضافہ نہیں ہو رہا۔ گاؤں میں مفت بجلی، تعلیم، صحت اور ہر گھر کو ایک نوکری دینے کے وعدے بھی پورے نہیں کیے گئے۔"

ان کا کہنا ہے کہ اب تو ماڈل ویلیج کے گھروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں مگر ان کی کوئی مرمت نہیں کرا رہا۔ اگر اس سال تیز بارشیں ہوئیں تو کافی گھر گر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

 'تھر فاؤنڈیشن' کے ذرائع بھی ماڈل ویلیج کے مکینوں کے تحفظات کی تصدیق کرتے ہیں۔

فاؤنڈیشن کے ایک ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فاؤنڈیشن نے سندھ حکومت سے فی گھر تعمیر کے لیے 67 لاکھ روپے رقم منظور کرائی تھی مگر کمپنی نے مقامی ٹھیکیداروں سے فی گھر 39 لاکھ روپے میں بنوانے کا معاہدہ کیا۔ ٹھیکیداروں نے یہ کام 15 دسمبر 2018ء میں مکمل کر کے گھر فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیے۔

" پراجیکٹ مینیجر نے اس وقت بھی گھروں کی تعمیر کا کام معیاری نہ ہونے کا کہا تھا اور تین لاکھ روپے فی گھر کٹوتی کر کے ٹھیکیداروں کو 36 لاکھ کے حساب سے رقم ادا کی تھی جس پر انہوں نے کچھ دن احتجاج کیا مگر پھر خاموش ہو گئے۔"

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلی سندھ کے ہمراہ 10 اپریل 2019ء کو تھر میں 660 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے دو کول پلانٹس کا افتتاح کیا تھا۔

 کھیت مزدور رامچند کولہی بتاتے ہیں کہ پاور پلانٹس کے افتتاح کے وقت وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت کوئلے سے بچت کا تین فیصد حصہ مقامی لوگوں کی ترقی پر خرچ کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔

"پہلے دو سال بجلی کے بل نہیں آئے تو ہم سمجھتے رہے کہ بل شاید کمپنی ادا کر رہی ہے لیکن پھر کسی کا بل ایک لاکھ تو کسی کا دو لاکھ آ گیا۔ ہم نے آواز اٹھائی تو وہ بھی کسی نے نہیں سنی۔"

"پانچ سال گذر جانے کے باوجود ماڈل ویلیج میں شفٹ ہونے والے 172 خاندانوں کو مالکانہ حقوق نہیں مل سکے۔ ہم بلاک ایریا کے باہر نئی چراگاہ (باڑ کے باہر متبادل) چاہتے تھے مگر  نہیں ملی جس کی وجہ سے ڈھائی ہزار سے زائد بھیڑ، بکریاں اور جانور مر گئے۔ کوئی داد رسی نہیں ہوئی، آخر لوگوں کو مویشی بیچنے پڑے۔"

نبی بخش درس کا کہنا تھا کہ کمپنی نے رائلٹی کی رقم سے تھرکے طلباء کو سکالرشپ دینے کا کہا تھا مگر ایک بھی طالب علم کو سکالرشپ نہیں ملا۔ معاہدے کے باوجود کمپنی نے نئے ویلیج میں پارک تعمیر نہیں کیا۔

"ہمیں ہسپتال کے نام پر وہ دو کمرے ملے جو ایک ٹھیکیدار نے مزدوروں کی رہائش کے لیے بنائے تھے جبکہ پرانے گاؤں کے ہسپتال کی عمارت پانچ کمروں پر مشتمل تھی۔ یہاں نام ماڈل ویلیج ہے مگر اس میں کوئی جدید سہولت میسر نہیں۔ ناقص میٹیریل سے گھر بنائے گئے اور ان کی ملکیتی دستاویز (رجسٹری) بھی کسی کو نہیں ملی۔"

کامریڈ نندلال مالھی، پیپلز پارٹی ضلعی ترجمان اور تھرپارکر کوئلہ ایکشن کمیٹی کے بانی کنوینر ہیں۔ وہ بتاتے کہ کول کمپنیاں متاثرین سے کیے گئے وعدوں سے مکر گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھر کول پاور پراجیکٹ: مقامی لوگوں کا زمین کے حصول پر شدید تحفظات کا اظہار

وہ تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں ایک ہفتہ قبل ہی ماڈل ویلیج کو جا کر دیکھا ہےجہاں پانی، تعلیم، صحت، روزگار، سیکیورٹی سمیت کئی مسائل ہیں۔ متاثرین کو ابھی تک مالکانہ حقوق ہی نہیں ملے تو باقی کیا سہولت ملی ہو گی یہ بات ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔

تاہم سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی متاثرین سے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

کمپنی کے سی ای او عامر اقبال نے لوک سجاگ کو بتایا کہ گائوں سینھری درس کے تمام متاثرین کو 'اعلیٰ طرز کے ماڈل ویلیج' میں آباد کیا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ تربیلا کے متاثرین کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے مگر تھر کول کے ماڈل ولیج میں مندر، مسجد، سکول سمیت کئی سہولتیں موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 2014ء کے سروے میں حتمی طور پر گاؤں سینھری درس کے 172 گھر ہی رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ لیکن اگر نئے شادی شدہ جوڑوں کے گھروں کا مسئلہ ہے تو گاؤں والے ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کو درخواست دیں۔ اس کے بعد جو بھی حکومتی پالیسی ہو گی سبھی فالو کریں گے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ کمپنی متاثرین کو سالانہ ایک لاکھ روپے فی خاندان ادا کر رہی ہے جس میں اگر کوئی اضافہ چاہتا ہے تو یہ سندھ حکومت کا معاملہ ہے۔ باقی جہاں تک گھروں کی مرمت کا سوال ہے تو پوری دنیا میں گھر کی دیکھ بھال مکان کے مالکان ہی کرتے ہیں اور مرمت کا کام کمپنی تو نہیں کرے گی۔

پی پی پی رہنما کنور کرنی سنگھ سوڈھو حال ہی میں تھر کول انرجی بورڈ کے ممبر نامزد ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مھیش ملانی تھرکول متاثرین کا معاملہ دیکھ رہے ہیں لیکن سند ھ حکومت نے پہلے بھی متاثرین کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی۔

تاہم نبی بخش درس اب کسی وعدے پر یقین کرنے کو تیا ر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماڈل ویلیج کے مکینوں نے 20 جون کے بعد دوبارہ اپنی پرانی زمینوں میں جا کر جھونپڑیوں میں رہنے کا پروگرام بنایا ہے جہاں وہ احتجاج کریں گے اور دھرنا بھی دیں گے۔

تاریخ اشاعت 4 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الیاس تھری کا تعلق ضلع عمرکوٹ سندھ سے ہے۔ وہ گذشتہ بیس سالوں سے زائد عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں۔ تعلیم، سیاست، ادب، ثقافت و سیاحت، زراعت، پانی، جنگلی جیوت اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.