متعدد مزدور رہنما اور مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والے چند ادارے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس میں وہ مطالبہ کریں گے کہ کراچی میں کپڑا اور ملبوسات بنانے والے 23 کارخانوں کے بارے میں تحقیقات کی جائیں کہ انہوں نے 2020 میں کورونا وبا کے دوران اپنے مزدوروں کی تنخواہیں کیوں کم کیں اور انہیں نوکریوں سے کیوں نکالا حالانکہ اس دوران انہوں نے تقریباً نو ارب روپے کا منافع کمایا۔
یہ درخواست گزار یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ ان مقامی کارخانوں سے مال بنوانے والی 23 غیر ملکی کمپنیوں کو ان کٹوتیوں اور برطرفیوں کے جرم میں ’شریک' قرار دیا جائے اور انھیں حکم دیا جائے کہ وہ متاثرہ مزدوروں کو زرِتلافی ادا کریں۔
اس درخواست کی بنیاد جولائی 2021 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ پر رکھی گئی ہے جو ایشین فلور ویج الائنس نامی ایک ایسے اتحاد نے تیار کی ہے جس میں انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلادیش، کمبوڈیا اور انڈونیشیا میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کی تنظیمیں شامل ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے لاہور، فیصل آباد اور کراچی کے پچاس کارخانوں میں ایک سروے کیا گیا جہاں مزدوروں کی کل تعداد تقریباً دو لاکھ 44 ہزار ہے۔
اس کے مطابق پچھلے سال مارچ سے مئی تک حکومتِ پاکستان نے ملک میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صنعتی، تجارتی اور دفتری سرگرمیوں کو بند کیے رکھا۔ ان تین مہینوں کے دوران سروے میں شامل کسی کارخانے میں مزدوروں کو تنخواہ نہیں دی گئی۔ لیکن رپورٹ کا کہنا ہے کہ صنعتی سرگرمیوں پر بندش ختم ہوتے ہی ان کارخانوں میں پہلے کی نسبت زیادہ کام شروع ہو گیا تاکہ برآمد کے لیے بنائے جانے والے مال کے رکے ہوئے آرڈر جلد از جلد پورے کیے جا سکیں۔ چنانچہ مزدوروں سے اضافی اجرت کے بغیر اضافی کام بھی کرایا گیا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صنعتی بندش کے دوران غیرملکی کمپنیوں کے لیے کپڑا بنانے والے پاکستانی کارخانوں میں کام کرنے والے 86 فیصد مزدوروں کو عارضی طور پر اور 14 فیصد مزدوروں کو مستقل طور پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان نے کپڑے کی صنعت کے بارے میں کوئی علیحدہ اعداد و شمار جاری نہیں کئے لیکن دسمبر 2020 میں مرکزی ادارۂ شماریات نے ایک رپورٹ میں تسلیم کیا کہ 2020 میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں دو کروڑ افراد کی نوکریاں چلی گئیں جن میں سے 30 لاکھ کے لگ بھگ لوگ معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے باوجود اکتوبر کے مہینے تک دوبارہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
کارخانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ انہیں تنخواہوں میں کٹوتی اور نوکریوں سے برطرفی کا راستہ اس لیے اختیار کرنا پڑا کہ کورونا کے پیدا کردہ عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے پچھلے سال غیرملکی کمپنیوں نے ان سے مال بنوانے کے آرڈر منسوخ کر دیے تھے۔ لیکن ایشین فلور ویج الائنس کی رپورٹ اس دعوے کو مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ 2020 میں پاکستان میں کپڑے اور ملبوسات کی پیداوار اور برآمد میں 2019 کی نسبت صرف دو فیصد کمی آئی لیکن اسی دوران اس شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہوں میں 29 فیصد کمی ہوئی۔
اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالتی درخواست تیار کرنے والے لوگوں میں ایک نمایاں نام ناصر منصور کا ہے جو نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن نامی ایک ایسے ادارے کے جنرل سیکرٹری ہیں جس میں پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والی مزدوروں کی درجنوں انجمنیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کارخانوں سے کپڑا اور ملبوسات خریدنے والی غیرملکی کمپنیاں یہ کہہ کر مزدوروں کے حالاتِ کار یا اجرتوں سے متعلق مسائل سے بری الذمہ ہو جاتی ہیں کہ وہ ان کارخانوں سے اپنا مال بنوانے کے علاوہ کوئی سروکار نہیں رکھتیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کارخانے ان کمپنیوں کا مال تیار کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں ان میں کام کرنے والے مزدور بنیادی طور پر انہی کمپنیوں کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
مزید برآں، ان کے مطابق، یہ کمپنیاں ان کارخانوں کے معاملات میں اس قدر ملوث ہوتی ہیں کہ وہ ان کے اندر نصب کی جانے والی مشینری کا معیار اور ان میں رکھے جانے والے مزدوروں کی اہلیت تک کا فیصلہ بھی کرتی ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ان کمپنیوں کو ان کارخانوں کے حالاتِ کار کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے اہم رکاوٹ غیر واضح پاکستانی قوانین ہیں جو مزدوروں کے استحصال کی ذمہ داری کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ان کے بقول ان کی درخواست میں اس بات پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ اس قانونی خلا کو پر کیا جائے۔
کیا عدالتیں مفادِ عامہ کا تحفظ کر سکتی ہیں؟
یہ درخواست دائر کرنے والوں میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) اور 1982 میں مزدوروں کے حقوق کے بارے میں اگاہی پھیلانے کے لیے قائم کیا گیا ادارہ، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، بھی شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ایشین فلور ویج الائنس کی نمائندہ اور کراچی کی مزدور رہنما عابدہ علی کا نام بھی درخواست گزاروں میں موجود ہے۔
ان میں سے کچھ افراد اور تنظیمیں اس سے پہلے بھی مفاد عامہ کے مسائل کے حل کے لیے عدالت سے مدد مانگ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر پائلر صحرائے تھر میں بچوں کی اموات اور کراچی میں گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں پر عدالتی درخواستیں دائر کر چکی ہے۔ اس نے پاکستان فشر فوک فورم نامی ماہی گیروں کی انجمن، ناصر منصور اور کچھ دیگر افراد کے ساتھ مل کر کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کے ایک کارخانے، علی انٹرپرائز، میں لگنے والی آگ پر بھی ملکی اور غیر ملکی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے ہیں۔
یہ آگ 11 ستمبر 2012 کو لگی۔ اس وقت پانچ سو سے زائد مزدور کارخانے میں موجود تھے جن میں سے کم از کم دو سو 89 جھلس کر ہلاک ہو گئے اور تقریباً سو زخمی ہوگئے کیونکہ کارخانے کے مالکان نے اس سے باہر نکلنے کے تمام عمومی اور ہنگامی راستے بند کر رکھے تھے۔
اس کے باوجود انہیں کوئی سزا نہیں ملی جس کی سب سے اہم وجہ 7 فروری 2015 کو ایک سرکاری تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے کیا گیا یہ انکشاف ہے کہ کارخانے میں لگنے والی آگ کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ کراچی کی ایک طاقت ور سیاسی جماعت، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، کے کارکنوں نے جان بوجھ کر لگائی تھی کیونکہ وہ کارخانے کے مالکان کو بھتہ نہ دینے کی سزا دینا چاہتے تھے۔ اس انکشاف کے نتیجے میں 22 ستمبر 2020 کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایم کیو ایم کے دو کارکنوں کو مزدوروں کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں سزائے موت سنادی۔
تاہم اسی دوران مارچ 2015 میں ناصر منصور نے ہلاک شدہ مزدوروں کے لواحقین کے ساتھ مل کر جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ میں کِک نامی اس جرمن کمپنی کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا جو علی انٹرپرائز سے مال بنواتی تھی۔ اس مقدمے میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ کِک کو اس کارخانے میں مزدوروں کے استحصال، ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی اور تالے لگا کر ان سے کام کرانے کے جرائم میں برابر کا شریک قراد دیا جائے اور اسے ہلاک شدہ مزدوروں کے لواحقین سے معافی مانگنے اور انہیں زرِ تلافی ادا کرنا کا پابند کیا جائے۔
لیکن اس مقدمے میں بھی عدالت نے کِک کو مزدوروں کے ناقص حالاتِ کار کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا حالانکہ ناصر منصور اور مقدمہ دائر کرنے والے دیگر افراد کے مطابق وہ اس بات کو ثابت کر چکے تھے کہ علی انٹرپرائز مزدوروں کو مستقل ملازم رکھنے کے بجائے ٹھیکے داری نظام کے تحت بھرتی کرتی تھی (تاکہ انہیں علاج معالجے، اضافی کام کی اضافی ادائیگی اور پراویڈنٹ فنڈ جیسی سہولتیں نہ دینا پڑیں)، انہیں کم از کم تنخواہ کے قانونی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے ماہوار تنخواہ دی جاتی تھی اور انہیں سالانہ چھٹیوں جیسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔
بہر حال اس مقدمے کے نتیجے میں کِک نے مزدوروں کے لواحقین کو تقریباً 87 کروڑ روپے بطور زرِ تلافی ادا کرنے کی حامی بھر لی۔ یوں یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ بن گیا جس میں کسی غیر ملکی کمپنی نے کسی پاکستانی کارخانے میں ہلاک ہونے ہونے والے مزدوروں کے ورثا کو زرِ تلافی ادا کی۔
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
کراچی میں مقیم وکیل سارہ ملکانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے مقدمات کے فیصلوں کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے منصفین کون ہیں۔ لیکن ان کے مطابق اگر کوئی اچھا منصف مزدوروں کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو اس پر عملدرآمد کرانے والے انتظامی ادارے اس پر توجہ نہیں دیتے۔ اس لیے وہ کہتی ہیں کہ "ایک اچھا فیصلہ صرف مسئلے کا ایک بہتر حل تجویز کر سکتا ہے لیکن اس کے نفاذ کے لئے ایک پرعزم اور متحرک تنظیم کی ضرورت پڑتی ہے"۔
عوامی مفاد میں دائر کیے گئے کچھ حالیہ مقدموں کے نتائج ان کے تجزیے کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر 2014 میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سندھ حکومت نے تھر میں ہونے والی بچوں کی اموات پر ایک عدالتی کمیشن بنایا جس نے 2016 میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع بھی کروا دی لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس رپورٹ کے نتیجے میں حکومت نے کیا عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اسی طرح 15 اکتوبر 2021 کو سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے اس اقدام کی توثیق کی کہ صوبے میں کم از کم ماہانہ اجرت پچیس ہزار روپے ہونی چاہیے لیکن حقیقت میں اس ماہانہ اجرت کا اطلاق محض چند بڑے کاروباری اداروں یا سرکاری محکموں میں ہی ہوتا ہے جبکہ اکثر کارخانے اور تجارتی مراکز ٹھیکے داروں کے ذریعے ملازمین بھرتی کر کے اس کے نفاذ سے بچے رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پسرور شوگر مل: کچی رسیدوں پر گنا بیچنے والے کسان کئی ماہ سے کروڑوں روپے کی ادائیگی کے منتظر۔
کراچی بار کونسل کے صدر اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل صلاح الدین احمد بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اچھے عدالتی فیصلوں پر اکثر و بیشتر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ "ایک وکیل کا اصل امتحان تب شروع ہوتا ہے جب جج اس کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہے" کیونکہ اب اسے اس پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔
کورونا وبا کی وجہ سے مزدوروں کی "چوری" ہو جانے والی اجرت کی واپسی کے لیے تیار کی جانی والی درخواست کے بارے میں بھی ان کا کہنا ہے کہ اس کے وکیلوں اور درخواست گزاروں کا کام صرف عدالت تک محدود نہیں ہو گا بلکہ انہیں عدالت سے باہر بھی ایک منظم جدوجہد کرنا پڑے گی۔
صلاح الدین احمد کے مطابق کہ اس مقدمے میں غیر ملکی کمپنیاں یہ جواز پیش کر سکتی ہیں کہ وہ پاکستانی عدالتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتیں جس کا مطلب یہ ہے کہ "اگر عدالت درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ کر بھی دے تو انتظامی ادارے اس پر عملدرآمد نہیں کروا سکیں گے"۔
لیکن وہ اس خدشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ "اگر عدالت درخواست گزاروں کے خلاف فیصلہ دے دے گی تو غیر ملکی کمپنیوں کو اپنی مزدور دشمن پالیسیوں کا ایک قانونی جواز مل جائے گا"۔
ناصر منصور اس خطرے سے آگاہ ہیں مگر ان کے نزدیک انہیں بار بار عدالتوں سے اس لیے رجوع کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کی ایک مضبوط اور منظم تحریک موجود نہیں ہے۔ کچھ روزقبل لاہور کی ایک مرکزی شاہراہ پر ایک کارخانے میں لگنے والی آگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "اس واقعے پر نہ تو نیوز میڈیا پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی ترقی پسند تجزیہ نگاروں اور بائیں بازو کے سیاست دانوں نے اس پر کچھ کہا"۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ لاہور کی کوئی مزدور تنظیم اس واقعے پر کوئی چھوٹا سا مظاہرہ بھی نہیں کر پائی۔ اگر سینکڑوں مزدور کارخانوں میں ناقص حفاظتی انتظامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں تو نہ صرف نیوز میڈیا کو ان کے مطالبات کی خبر چلانا پڑے گی بلکہ تجزیہ نگار اور سیاست دان بھی انہیں نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔
لیکن اس طرح کی سرگرمی کی عدم موجودگی میں، ناصر منصور کے بقول، "عدالت سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا"۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہونے والی مزدوروں کی حق تلفی پر عدالت میں درخواست دائر کرنے کا مقصد مقدمہ جیتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنے مطالبات لوگوں کے سامنے بھی لے کر آنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ سے وابستہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "جب ہم ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو لے کر جرمنی گئے تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم اپنا مقدمہ جیت نہیں پائیں گے لیکن ہم نے عدالت کے باہر بھی ہر ترقی پسند محقق، صحافی اور سیاستدان تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی"۔
ان کوششوں کے نتیجے میں حال ہی میں جرمن پارلیمان میں ایک ایسے قانون کا مسودہ پیش کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جرمن کمپنی پر بیرونِ ملک مزدوروں کا استحصال کرنے کا الزام لگے تو جرمن ریاستی ادارے خود اس کی تحقیقات کریں۔ اس قانون میں ایسی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں جن کی بنا پر ایسی کمپنیوں کو سخت سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
تاریخ اشاعت 3 نومبر 2021