زہرہ تصور سندھ کے ضلع ٹنڈو اللہ یار کی تحصیل جھنڈو مری کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں دسویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے چھٹی جماعت میں یہاں داخلہ لیا تھا اور اب اس سکول میں ان کی تعلیم تقریباً مکمل ہونے کو ہے تاہم انہیں سکول میں کبھی فزیکل ٹریننگ (پی ٹی) کا موقع نہیں مل سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکول میں پی ٹی کی استاد اکثر غیرحاضر رہتی ہیں۔ زہرہ کا کہنا ہے کہ سکول میں پی ٹی تو درکنار مستقبل اسمبلی بھی نہیں ہوتی۔
مسن وڈی نامی علاقے میں قائم اس سکول میں بچیوں کو جسمانی ورزش کرانے کے لیے 2012 میں پی ٹی ٹیچر کی تعیناتی عمل میں آئی تھی۔ تاہم اسی سکول کی ایک استاد اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتی ہیں کہ پچھلے دس سال میں یہ ٹیچر دو ماہ بھی سکول میں حاضر نہیں ہوئیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بعض اساتذہ سکول سے مسلسل غیرحاضر رہتے ہیں تاہم سرکاری ریکارڈ میں انہیں حاضر لکھا جاتا ہے جس کے عوض وہ حاضری چیک کرنے والے عملے کو ماہانہ رشوت دیتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کی جانب سے 21 نومبر 2022 کو اکائونٹنٹ جنرل سندھ کے دفتر کو غیر حاضر اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہ روکنے کے لیے ایک خط لکھا گیا ہے جس میں ضلع ٹنڈو اللہ یار سے 26 اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے درجنوں ارکان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے لیے کہا گیا ہے لیکن ان میں مسن وڈی ہائی سکول کی پی ٹی ٹیچر کا نام شامل نہیں ہے۔
جب اس بارے میں سکول کی پرنسپل سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے پی ٹی ٹیچر کی مسلسل غیرحاضری سے انکار کیا اور اس کے ثبوت میں حاضری رجسٹر پر ان کے دستخط دکھا دیے۔ اسی سکول کی ایک اور استاد کا کہنا تھا کہ پی ٹی ٹیچر عملاً گھر بیٹھے تنخواہ لیتی ہیں اور جب کبھی مانیٹرنگ ٹیم اساتذہ کی حاضری چیک کرنے آئے تو سکول کا عملہ پی ٹی ٹیچر کی چھٹی کی درخواست پیش کر دیتا ہے۔
سندھ کے ساحلی ضلعہ ٹھٹہ کی تحصیل میرپور ساکرو سے تعلق رکنھے والے ٹیچر سلیم اللہ ہائی سکول میں پڑھاتے ہیں۔ وہ انکشاف کرتے ہیں کہ غیرحاضر رہنے والے بیشتر اساتذہ محکمہ تعلیم کے تحصیل اور ضلعی دفتر کے اہلکاروں کی 'مدد' سے ریکارڈ میں خود کو حاضر رکھتے ہیں اور ان کی ماہانہ تنخواہ بھی جاری رہتی ہے۔ "ایسے اساتذہ سکول کے ہیڈ ماسٹر سے لے کر محکمہ تعلیم کے تحصیل افسر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر، ڈویژنل ڈائریکٹر، سکولوں میں اساتذہ کی حاضری چیک کرنے والے عملے اور ضلعی چیف مانیٹرنگ افسر تک سبھی کو مبینہ طور پر رشوت دیتے ہیں"۔
انہوں نے بتایا کے سندھ میں غیرحاضر رہنے والے اساتذہ کی بیشتر تعداد پرائمری سکولوں میں تعینات ہے۔ وہ یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ غیرحاضر اساتذہ کی حاضری لگانے کے لیے ہر ضلعے میں رشوت کا الگ الگ ریٹ ہے۔ مبینہ طور پر ٹھٹہ میں ایسے اساتذہ حاضری لگوانے کے عوض چھ سے پندرہ ہزار روپے رشوت دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لین دین محکمہ تعلیم کے تحصیل افسر کے دفتر میں ہوتا ہے اور ہر ضلعے اور تحصیل میں اس کام کے لیے ایک شخص خصوصی طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔
زمہ دار کون؟
اساتذہ اور تدریس سے منسلک دیگر عملے کی غیرحاضری کے اعتبار سے سندھ میں ضلع قمبر شہداد کوٹ سب سے آگے ہے جہاں ایسے عملے کی تعداد چار سو 65 ہے جبکہ ضلع عمر کوٹ میں یہ شرح سب سے کم ہے۔
اسلام آباد میں قائم 'پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس' نامی ادارے کی جانب سے دی مسنگ تھرڈ کے عنوان سے 2021 میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے 64 لاکھ 80 ہزار بچے سکول نہیں جاتے جن میں تقریباً 35 لاکھ لڑکیاں ہیں۔ ان بچوں میں 45 لاکھ 20 ہزار کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ رپورٹ میں بڑی تعداد میں بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی گئی ہےکہ سرکاری پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں اساتذہ کی بڑی تعداد غیرحاضر رہتی ہے جس کے باعث بچے تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے اور بالاآخر سکول چھوڑ دیتے ہیں۔
21 نومبر کو محمکہ تعلیم و خواندگی کی جانب سے اکاؤنٹنٹ جنرل (ای جی) سندھ کے دفتر کو لکھے گئے ایک خط میں محمکہ تعلیم کے غیر حاضر رہنے والے دو ہزار اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی نشاندہی کی گئی۔ اس پر کارروائی کرتے ہوئے ان اساتذہ اور ملازمین کی ملازمتی پہچان کے لیے رکھے گئے مخصوص نمبر منسوخ کروا دیے گئے ہیں۔ محکمے کے مطابق مزید اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی حاضری کی چھان بین جاری ہے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔
مسلسل غیرحاضر قرار دیے جانے والوں میں پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن (پی ٹی اے) ضلع ٹنڈو محمد خان کے صدر شفیع محمد سٹھیو بھی شامل ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ڈیٹا بیس کے مطابق شفیع محمد سٹھیو ٹنڈو محمد خان کی تحصیل بلڑی شاہ کریم کے گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول جمال دین جونیجو میں تعینات ہیں جہاں 36 بچے پڑھتے ہیں۔ تاہم سٹھیو کا کہنا ہے کہ انہیں سیکرٹریٹ میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا، ان کا نام غلطی سے اس فہرست میں آ گیا ہے۔
حیدرآباد ڈویژن کے ضلع مٹیاری کی تحصیل نیو سعید آباد کے مرکزی سندھی پرائمری سکول کے استاد اور پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ڈویژنل آفس سیکرٹری زاہد کا اپنی ہی تنظیم کے رہنماؤں کو اس مسئلے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
"ایسوسی ایشن کے بیشتر رہنما اپنی ڈیوٹی پر نہیں جاتے اور تنظیم کے پلیٹ فارم سے تحفظ پاتے ہیں۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ بائیومیٹرک ذریعے سے اساتذہ کی حاضری چیک کرنے والا عملہ بھی اس کھیل میں برابر کا شریک ہے"۔
زاہد کے مطابق مانیٹرنگ اسسٹنٹ مہینے میں ایک سکول میں ایک یا دو مرتبہ ہی آتے ہیں اور اپنی آمد سے پہلے اساتذہ کو مطلع کر دیتے ہیں۔ اس طرح غیرحاضر اساتذہ اس روز سکول میں حاضر ہوتے ہیں یا اپنی چھٹی کی درخواست بھیج دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بیشتر غیرحاضر اساتذہ کو متعلقہ افسر یا ضلعی افسر کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔
ردوبدل کا نظام
8 دسمبر 2022 کو اساتذہ کی حاضری چیک کرنے والے مانیٹرنگ اسسٹنٹ ضلع دادو کے صحرائی علاقے کاچھو میں واقع گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں پہنچے تو ہیڈ ماسٹر انور علی جمالی غیرحاضر تھے۔ انہوں نے نائب ہیڈ ماسٹر جام خان سے مسٹرول مانگا تو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا اور کہا کے اسے چیک کرنا مانیٹرنگ اسسٹنٹ کا کام نہیں۔ سومرو نے اس واقعے کی رپورٹ ضلع دادو کے چیف مانیٹرنگ افسر(سی ایم او) کو بھیجی جس کی بنیاد پر محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ اینڈ ایویلیو ایشن کو اس سکول کے سات اساتذہ کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی تاہم اس پر تاحال عمل نہیں ہوا۔
پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن ( پی ٹی اے) سندھ کے چھ سال صدر رہنے والے انتظار حسین چھلگری کا کہنا ہے کے محکمہ تعلیم کی جانب سے غیر حاضر اساتذہ کے حوالے سے جو اعدادوشمار جاری کیے گئے ہیں ان میں ایسے اساتذہ کے نام بھی شامل ہیں جو ریٹائر ہو چکے ہیں یا جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان اعدادوشمار میں محکمہ تعلیم کے نائب قاصد، چوکیدار اور لیبارٹری اسسٹنٹ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں: اعلیٰ تعلیم سے محروم آواران کے نوجوان کسانوں اور مزدوروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور۔
انتظار حسین کے مطابق بڑی تعداد میں پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی غیرحاضری کے حوالے سے پایا جانے والا تاثر درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملازمین کی بائیو میٹرک تصدیق دن کے وقت ہوتی ہے جبکہ غیرحاضر قرار دیے گئے سکول چوکیدار رات کے وقت ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ایسے میں ان کی بائیومیٹرک کیسے ہو گی اور اس طرح جانچ کے اس تمام عمل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کا 2016 سے شروع کردہ بائیومیٹرک نظام مینوئل اور ناقص ہے جس میں با آسانی ٹیمپرنگ کی جا سکتی ہے۔ وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ غیر حاضر اساتذہ کو سب سے زیادہ مدد بائیومیٹرک کرنے والے عملے سے ملتی ہے جو اساتذہ سے مبینہ طور پر رشوت لے کر انہیں اپنی آمد کے بارے میں اطلاع کر دیتے ہیں اور اس دن اساتذہ سکولوں میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
سندھ کے اضلاع میں اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے عملے (نان ٹیچنگ اسٹاف) کی حاضری جاچنے کے لیے مقرر کیے گئے تین اضلاع قمبر شہدادکوٹ، ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو اللہ یار کے چیف مانیٹرنگ افسروں سے اساتذہ کی غیرحاضری اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے بارے میں تفصیلات دریافت کی گئیں تو انہوں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کیا کہ سرکاری طور پر انہیں موقف دینے کی اجازت نہیں۔
تاریخ اشاعت 19 دسمبر 2022