ضلع ٹانک کے گاؤں تتور میں رہنے والے زیر ولی کی بیٹی نثا بی بی گزشتہ برس اگست میں پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئیں۔ زیر ولی بتاتے ہیں کہ بیٹی کو زندہ حالت میں نکال لیا گیا تھا لیکن راستے میں سیلابی پانی کے باعث انہیں تتور پل کے مقام پر رکنا پڑا اور بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کے سبب بیٹی نے وہیں دم توڑ دیا۔
ایک برس بعد اگست ہی کے مہینے میں تتور کے نصیب اللہ کو اپنی بیوی کی زچگی کے لیے شہر کے ہسپتال جانے کی ضرورت پیش آئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ رات کے وقت جب وہ تتور پل پر پہنچے تو پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ ہمیں طویل اور دشوار متبادل راستہ اختیار کرنا پڑا۔ ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ بچہ مر چکا ہے اور زچہ کی جان بچانے کے لیے فوری آپریشن کرنا ضروری ہے۔
" اگر پل موجود ہوتا اور ہم بروقت ہسپتال پہنچ پاتے تو شاید بچہ صحیح سلامت ہوتا"۔
نشیبی علاقوں پر مشتمل ضلع ٹانک مون سون کی بارشوں کے دوران کم و بیش ہر سال سیلابی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔
ضلع جنوبی وزیرستان کے بارانی پانی کا نکاس ٹانک میں ہوتا ہے، یہ پانی زام کے مقام پر چھ بڑے نالوں پیر کچ، لواڑا، سیدگی، چھوا، ٹکواڑہ اور کریانی میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان نالوں یا رود کوہیوں میں سیلاب اور طغیانی رہن سہن، زراعت اور نظام آمد و رفت سب کو متاثر کرتی ہے۔
2010ء میں آنے والے سیلاب نے جہاں ضلع بھر میں تباہی مچائی تھی وہاں تتور پل کو بھی بہت متاثرہ کیا جس کے بعد وہ کارآمد نہ رہا۔ یہ پل نیو تتور، تتور، کڑی لٹی، عمر خان، کوٹ گلان اور بزائے سمیت متعدد دیہات کو ٹانک شہر سے ملانے والا اکلوتا رابطہ پل تھا۔
پل کے بے کار ہونے سے زیادہ بارش ہوتے ہی ان دیہات کا شہر سے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔
تتور سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ ملک عباس علی تتور کا کہنا ہے کہ پل کا راستہ بند ہونے کے باعث شہر سے صرف آٹھ کلومیٹر کی دوری کے باوجود بھی علاقے کے لوگ سودا سلف لانے کے لیے 40 کلومیٹر طویل چیسن کچ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
"یوں اس مہنگائی میں اشیا خور و نوش دگنی قیمت میں پڑ جاتی ہیں"۔
مون سون کے دوران سکول جانے اور آنےکے لیے بعض اوقات پل کے قریب بیٹھ کر طلبا و طالبات کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
گاؤں کوٹ گلان سے تعلق رکھنے والے ملک حسین خان کہتے ہیں کہ ہر سال ان کی بیشتر زرعی زمین میں سیلابی پانی آ جاتا ہے جس سے وہ کچھ عرصہ قابل کاشت نہیں رہتیں۔
“گزشتہ برس مجھ سمیت متعدد کسانوں کی گندم کی کھڑی فصل سیلابی پانی کی نذر ہو گئی۔”
ویلج چیئرمین اور سماجی شخصیت فضل کریم تتور کا کہنا تھا کہ نکاسی کے نظام میں خرابی کے باعث بارش کا معمولی پانی بھی سیلاب کی صورت اختیار کر کے تباہی مچا دیتا ہے۔
"جنوبی وزیرستان کا بیشتر بارانی پانی نالے پیر کچ میں آ جاتا ہے، جس سے اس نالے کے قریب نہ صرف آبادی متاثر ہوتی ہے بلکہ زرعی زمین بھی ناقابل کاشت ہو جاتی ہے۔ دیگر پانچ نالوں میں عموماً پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اکثر اوقات کریانی اور لواڑا رود کوہیوں کے کاشت کار پانی نہ ملنے سے زمین کاشت نہیں کر پاتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ زام کے مقام پر پانی کی تقسیم کو اگر ٹھیک کر دیا جائے اور تمام بڑے نالوں میں پانی برابر ہو تو تقریباً تمام آبادی کو سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس سے کاشتکاری سمیت دیگر فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
"جس طرح گومل زام ڈیم کی تعمیر سے ٹانک کا مشرقی علاقہ سیلاب سے محفوظ ہو گیا، اس طرح ٹانک زام ڈیم کی تعمیر سے مغربی حصہ بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے، اس لیے ٹانک زام ڈیم کو بروقت تعمیر کیا جائے۔ اس سے بارش کا پانی علاقے میں کاشت کاری کے لیے استعمال ہو گا اور سیلاب سے تحفظ ملے گا۔"
یہ بھی پڑھیں
'حکومت سڑکیں اور پل بنا دے، ہم چیئر لفٹ پر سفر کرنا چھوڑ دیں گے'
محکمہ آبپاشی کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر سے وزیرستان سے آنے والا بارانی پانی ذخیرہ اور منصوبہ بندی کے تحت زمین داروں کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے سیلابی صورت حال پیدا ہو گی اور نہ پانی ضائع ہو گا۔
محکمہ تعمیرات کے حکام کا کہنا ہے کہ تتور پل کی تعمیر رواں سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہے اور اس کی پرپوزل شعبہ کنسلٹنٹ کے پاس موجود ہے جس کی منظوری کے بعد اخبارات میں ٹینڈر شائع کر دیا جائے گا۔ ان کے مطابق سیلاب بحالی سکیم میں بھی اس پل کی تعمیر کو شامل کیا گیا ہے۔ دونوں منصوبوں میں سے جس کی بھی منظوری ہوئی، تعمیراتی کام شروع کر دیا جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر محمد شعیب کا کہنا تھا کہ سرکاری کام میں کچھ وقت لگتا ہے تاہم مراحل کی جلد تکمیل کے لیے وہ محکمہ تعمیرات سے رابطے میں ہیں۔
تاریخ اشاعت 20 نومبر 2023