سیلاب کی نذر ہونے والے تتور پل کی ازسرنو تعمیر سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں

postImg

محمد زعفران میانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سیلاب کی نذر ہونے والے تتور پل کی ازسرنو تعمیر سے انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں

محمد زعفران میانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

ضلع ٹانک کے گاؤں تتور میں رہنے والے زیر ولی کی بیٹی نثا بی بی گزشتہ برس اگست میں پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئیں۔ زیر ولی بتاتے ہیں کہ بیٹی کو  زندہ حالت میں نکال لیا گیا تھا لیکن راستے میں سیلابی پانی کے باعث انہیں تتور پل کے مقام پر رکنا پڑا اور بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کے سبب بیٹی نے  وہیں دم توڑ دیا۔

ایک برس بعد اگست ہی کے مہینے میں تتور کے نصیب اللہ کو اپنی بیوی کی زچگی کے لیے شہر کے ہسپتال جانے کی ضرورت پیش آئی۔

وہ  بتاتے ہیں کہ رات کے وقت جب وہ تتور پل پر پہنچے تو پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے راستہ بند تھا۔ ہمیں طویل اور دشوار متبادل راستہ اختیار کرنا پڑا۔ ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ بچہ مر چکا ہے اور زچہ کی جان بچانے کے لیے فوری آپریشن کرنا ضروری ہے۔

" اگر پل موجود ہوتا اور ہم بروقت ہسپتال پہنچ پاتے تو شاید بچہ صحیح سلامت ہوتا"۔

نشیبی علاقوں پر مشتمل ضلع ٹانک مون سون کی بارشوں کے دوران کم و بیش ہر سال سیلابی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔

ضلع جنوبی وزیرستان کے بارانی پانی کا نکاس ٹانک میں ہوتا ہے، یہ پانی زام کے مقام پر چھ بڑے نالوں پیر کچ، لواڑا، سیدگی، چھوا، ٹکواڑہ اور کریانی میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان نالوں یا رود کوہیوں میں سیلاب اور طغیانی رہن سہن، زراعت اور نظام آمد و رفت سب کو متاثر کرتی ہے۔

2010ء میں آنے والے سیلاب نے جہاں ضلع بھر میں تباہی مچائی تھی وہاں تتور پل کو بھی بہت متاثرہ کیا جس کے بعد وہ کارآمد نہ رہا۔ یہ پل نیو تتور، تتور، کڑی لٹی، عمر خان، کوٹ گلان اور بزائے سمیت متعدد دیہات کو ٹانک شہر سے ملانے والا اکلوتا رابطہ پل تھا۔

پل کے بے کار  ہونے سے زیادہ بارش ہوتے ہی ان دیہات کا شہر سے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔

تتور سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ ملک عباس علی تتور کا کہنا ہے کہ پل کا راستہ بند ہونے کے باعث شہر سے صرف آٹھ کلومیٹر کی دوری کے باوجود بھی علاقے کے لوگ سودا سلف لانے کے لیے 40 کلومیٹر طویل چیسن کچ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

"یوں اس مہنگائی میں اشیا خور و نوش دگنی قیمت میں پڑ جاتی ہیں"۔

مون سون کے دوران سکول جانے اور آنےکے لیے بعض اوقات پل کے قریب بیٹھ کر طلبا و طالبات کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

گاؤں کوٹ گلان سے تعلق رکھنے والے ملک حسین خان کہتے ہیں کہ ہر سال ان کی بیشتر زرعی زمین میں سیلابی پانی آ جاتا ہے جس سے وہ کچھ عرصہ قابل کاشت نہیں رہتیں۔

 “گزشتہ برس مجھ سمیت متعدد کسانوں کی گندم کی کھڑی فصل سیلابی پانی کی نذر ہو گئی۔”

ویلج چیئرمین اور سماجی شخصیت فضل کریم تتور کا کہنا تھا کہ نکاسی کے نظام میں خرابی کے باعث بارش کا معمولی پانی بھی سیلاب کی صورت اختیار کر کے تباہی مچا دیتا ہے۔

"جنوبی وزیرستان کا بیشتر بارانی پانی نالے پیر کچ میں آ جاتا ہے، جس سے اس نالے کے قریب نہ صرف آبادی متاثر ہوتی ہے بلکہ زرعی زمین بھی ناقابل کاشت ہو جاتی ہے۔ دیگر پانچ نالوں میں عموماً پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اکثر اوقات کریانی اور لواڑا رود کوہیوں کے کاشت کار پانی نہ ملنے سے زمین کاشت نہیں کر پاتے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ زام کے مقام پر پانی کی تقسیم کو اگر ٹھیک کر دیا جائے اور تمام بڑے نالوں میں پانی برابر ہو تو تقریباً تمام آبادی کو سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس سے کاشتکاری سمیت دیگر فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

"جس طرح گومل زام ڈیم کی تعمیر سے ٹانک کا مشرقی علاقہ سیلاب سے محفوظ ہو گیا، اس طرح ٹانک زام ڈیم کی تعمیر سے مغربی حصہ بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے، اس لیے ٹانک زام ڈیم کو بروقت تعمیر کیا جائے۔ اس سے بارش کا پانی علاقے میں کاشت کاری کے لیے استعمال ہو گا اور سیلاب سے تحفظ ملے گا۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

'حکومت سڑکیں اور پل بنا دے، ہم چیئر لفٹ پر سفر کرنا چھوڑ دیں گے'

محکمہ آبپاشی کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر سے وزیرستان سے آنے والا بارانی پانی ذخیرہ اور منصوبہ بندی کے تحت زمین داروں کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے سیلابی صورت حال پیدا ہو گی اور نہ پانی ضائع ہو گا۔

محکمہ تعمیرات کے حکام کا کہنا ہے کہ تتور پل کی تعمیر رواں سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہے اور اس کی پرپوزل شعبہ کنسلٹنٹ کے پاس موجود ہے جس کی منظوری کے بعد اخبارات میں ٹینڈر شائع کر دیا جائے گا۔ ان کے مطابق سیلاب بحالی سکیم میں بھی اس پل کی تعمیر کو شامل کیا گیا ہے۔ دونوں منصوبوں میں سے جس کی بھی منظوری ہوئی، تعمیراتی کام شروع کر دیا جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر محمد شعیب کا کہنا تھا کہ سرکاری کام میں کچھ وقت لگتا ہے تاہم مراحل کی جلد تکمیل کے لیے وہ محکمہ تعمیرات سے رابطے میں ہیں۔

تاریخ اشاعت 20 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد زعفران میانی کا تعلق جنوبی ضلع ٹانک سے ہے۔ وہ حالات حاضرہ اور اپنے آبائی شہر کے مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.