نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہونے والی نئی حلقہ بندیوں میں ضلع ٹانک قومی اسمبلی کی اپنی علیحدہ نشست سے محروم ہو گیا ہے۔
تین لاکھ 90 ہزار 626 آبادی پر مشتمل ضلع ٹانک کو 2018ءکے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی اپنی ایک ایک نشست دی گئی تھی۔ ان میں این اے 37 پر مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود اور پی کے 94 پر محمود احمد خان کامیاب ہوئے تھے۔
2023ء میں اس ضلعے کی آبادی چار لاکھ ستر ہزار بتائی گئی ہے۔ نئی حلقہ بندی میں یہاں کی صوبائی نشست برقرار تو رکھی گئی ہے لیکن پی کے 108(پرانا پی کے 94) میں تحصیل جنڈولہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔
یہ علاقہ پچھلے الیکشن میں اس حلقے کا حصہ نہیں تھا۔ بلکہ انضمام کے بعد پہلے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جنڈولہ سابقہ ایف آرز کو ملا کر تشکیل دیے گئے صوبائی حلقے (پی کے 115) میں شامل تھا۔
اسی طرح قومی اسمبلی کا حلقہ 'این اے 37 ٹانک' سے اب 'این اے 43 ڈیرہ کم ٹانک' ہو گیا ہے۔ اس حلقے میں ضلع ٹانک(بشمولجنڈولہ)کے ساتھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی دو تحصیلیں کلاچی اور پنیالہ کی پوری آبادیاں اور تحصیل ڈیرہ اسماعیل خان کی یارک قانونگوئی بھی شامل کی گئی ہے۔
یوں دونوں اضلاع کی یہ آبادیاں ملا کر این اے 43 اب سات لاکھ 64 ہزار 95 نفوس کی آبادیوں پر مشتمل ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں تیدیلی کی وجوہات میں لکھا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ضلع ٹانک کی قومی نشست 52 فیصد یعنی نصف سے تھوڑی زیادہ بنتی تھی۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی نشستیں 2.02 یعنی دو سے تھوڑی زیا دہ بنتی تھیں۔
کمیشن رپورٹ کی مطابق دونوں اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی کو ملا کر 54.2 نشستیں بنتی تھیں۔ لیکن ان دونوں اضلاع کو ملا کر تین قومی نشستیں دے دی گئی ہیں۔
اسی طرح آبادی کے لحاظ سے ضلع ٹانک کے حصے میں صوبائی اسمبلی کی 1.32 نشست آتی تھی۔ اگر آبادی کے فارمولے کے تحت ڈیڑھ سے زیادہ حصہ بنتا تو دو نشستیں دے دی جاتیں۔ کیونکہ یہ ڈیڑھ سے کم ہے اس لیے ایک نشست دی گئی ہے۔
مقامی سیاسی حلقوں کا اتفاق ہے کہ نئی حلقہ بندیوں سے بڑا نقصان تو ضلع ٹانک اور یہاں کے عوام کا ہوا ہے۔ جہاں تک سیاسی فریقوں کا تعلق ہے تو جماعت جمعیت علماء اسلام کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ماضی میں بھی مولانا فضل الرحمان ڈیرہ ٹانک مشترکہ حلقے سے الیکشن جیت چکے ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں سے ضلع ٹانک سے قومی اسمبلی کے لیے متوقع امیدواروں کو ضرور نقصان ہوا ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ سال حلقوں میں بھاگ دوڑ کی تھی۔ اب حلقے میں اچانک تبدیلی پر نہ صرف پریشان بلکہ ناراض ہیں۔
سابق ممبر قومی اسمبلی داور خان کنڈی حلقہ ختم ہونے کی وجہ 2023ء کی مردم شماری کو سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ضلع ٹانک میں رہنے والے محسود اور برکی قبائل کا اندراج وزیرستان میں گیا کیا ہے، جو ٹانک کے ساتھ زیادتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پانچ لاکھ 15 ہزار کی آبادی پر چترال کو تو قومی اسمبلی کی نشست مل گئی، اگر ضلع ٹانک میں مردم شماری "درست" ہوتی تو یہاں بھی نشست مل سکتی تھی۔
"یہ حلقہ انتخاب بہت ہی دور تک پھیل گیا ہے۔ جہاں امن و امان کی مخدوش صورت حال میں انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر انتخابی مہم چلانا پڑے گی۔"
سیاسی رہنما عثمان خان بیٹنی بھی ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں ٹانک کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا۔ چار لاکھ ستر ہزار آبادی کو اپنا حلقہ کیوں نہیں دیا جا سکتا، سابقہ الیکشن کی طرح ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو قومی کی دو اور ٹانک کو اپنی الگ نشست دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع گجرات کے انتخابی حلقوں میں توڑ پھوڑ تحریک انصاف کو اعتراضات، فائدہ کسے ہو گا؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ملک رمضان شوری اس حلقے سے متوقع امیدوار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مقامی سیاست میں لوگوں کے غم و خوشی میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ حلقے میں دور دراز علاقوں میں جانا ممکن نہیں ہو گا۔
"نئی حلقہ بندی سے ٹانک کی تو شناخت ہی نہیں رہی۔ حلقے کا نام بھی 'ڈیرہ کم ٹانک' ہو گیا ہے۔"
صحافی شیخ رحمت اللہ بتاتے ہیں کہ موجودہ حلقہ جغرافیائی حدود کے لحاظ سے کافی وسیع ہے۔ یہاں کسی بھی امیدوار کو انتخابی مہم میں شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹانک پہلے سے ہی پسماندہ ضلع ہے اور یہاں ترقیاتی فنڈ ہمیشہ ناکافی ہوتا ہے۔ اب اس میں مزید پسماندہ علاقے شامل ہو گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ منتخب نمائندے کا ترقیاتی فنڈ عوامی منصوبوں کی بجائے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بندر بانٹ کی نذر کر دیا جائے گا۔
شیخ رحمت اللہ کا خیال ہے کہ قومی حلقے میں شامل علاقوں کے انتظامی امور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے پاس ہیں۔ اگر منتخب نمائندے ٹانک سے ہوں گے تو ان کو مسائل حل کرنے بھی شدید مشکلات ہوں گی۔ اس لیے الیکشن کمیشن ضلع ٹانک کی قومی نشست بحال کرے۔
تاریخ اشاعت 9 نومبر 2023