سورج مکھی کی کاشت: وقت پر بیج نہ ملے تو کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا

postImg

غلام عباس بلوچ

postImg

سورج مکھی کی کاشت: وقت پر بیج نہ ملے تو کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا

غلام عباس بلوچ

ضلع بھکر کے کاشت کار محمد وکیل بھٹی نے اس بار اپنی زمین پر سورج مکھی کاشت کرنی ہے لیکن انہیں اس کا بیج نہیں مل رہا۔ وہ چھ ایکڑ پر یہ فصل اگانا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک انہیں جتنا بیج ملا ہے اس سے بمشکل دو ایکڑ ہی پورے ہوں گے۔ وہ بیج خریدنے کے لیے روزانہ مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں لیکن ڈیلر حضرات ہر بار انہیں کل آنے کا کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔

وکیل بھکر کے نواحی علاقے مسلم کوٹ میں 15 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں جس کے ساتھ انہوں نے 30 ایکڑ ٹھیکے پر بھی لے رکھے ہیں۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ اگر سورج مکھی کی کاشت کا صحیح وقت گزر گیا تو انہیں کم از کم چار ماہ تک ٹھیکے والی زمین کے اس حصے کو خالی رکھنا پڑے گا جہاں وہ سورج مکھی اگانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ہر سال زمین کے مالک کو ٹھیکے کی رقم بھی دینا ہوتی ہے اور سورج مکھی کے لیے مخصوص رقبے پر فصل نہ اگائی جا سکی تو یہ ان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

وکیل کی طرح چک نمبر 51 ٹی ڈی اے کے مرید عباس اس سال 10 ایکڑ رقبے پر سورج مکھی کاشت کرنا چاہتے تھے مگر کئی روز کوشش کے بعد انہیں صرف چار ایکڑ کے لیے ہی بیج مل سکا ہے۔ باقی چھ ایکڑ رقبے پر انہوں ںے جانوروں کے چارے کے لیے مکئی کاشت کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ فصل سورج مکھی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا متبادل نہیں ہے۔

پچھلے سیزن (22-2021) میں بھکر کے کسانوں نے سورج مکھی کا بیج سات ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدا تھا جس میں حکومت پنجاب کی جانب سے کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی بھی شامل تھی۔ اس سال وہی بیج 17 سے 18 ہزار روپے فی ایکڑ میں مل رہا ہے اور وہ بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہے۔

صوبائی محکمہ زراعت کے مطابق پنجاب میں پچھلے سال 49 ہزار 450 ایکڑ رقبے پر سورج مکھی کاشت ہوئی تھی جس میں سے تھل کے ضلع بھکر اور میانوالی میں مجموعی طور پر پانچ ہزار 757 ایکڑ پر یہ فصل اگائی گئی جس میں بھکر کا حصہ تین ہزار 378 ایکڑ تھا۔

 خدشہ ہے کہ کسانوں کی موثر رہنمائی نہ ہونے، بیج کی قلت اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پورے تھل خصوصاً بھکر میں سورج مکھی کی کاشت میں کمی آ سکتی ہے۔

<p>پچھلے سال 7 ہزار روپے فی ایکڑ میں ملنے والا سورج مکھی کا بیج اس سال 17 سے 18 ہزار روپے میں بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہے<br></p>

پچھلے سال 7 ہزار روپے فی ایکڑ میں ملنے والا سورج مکھی کا بیج اس سال 17 سے 18 ہزار روپے میں بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہے

بھکر کے زمیندار عمران اسلم کا کہنا ہے چونکہ سورج مکھی کی پیداواری صلاحیت بہت سی دوسری فصلوں سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے بھکر کے کسانوں کی بڑی تعداد سورج مکھی اگانے لگی ہے۔ یہ دیکھ کر ڈیلروں نے بیج کی مصںوعی قلت پیدا کر دی ہے تاکہ اسے مہنگے داموں بیچ سکیں۔ اس سے کاشتکاروں کو یہ نقصان ہو گا کہ بروقت فصل کاشت نہ ہونے سے ان کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

عمران اسلم کہتے ہیں کہ "سورج مکھی کا بیج پہلے بھی آسانی سے نہیں ملتا تھا لیکن اب جس قدر برے حالات ہیں وہ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔''

بیج کیوں نہیں مل رہا؟

سورج مکھی خوردنی تیل کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ اور نفع بخش فصل سمجھی جاتی ہے۔ کینولا کے بعد سورج مکھی کم وقت میں تیار ہونی والی تیار ہونے والی دوسری اہم فصل ہے جو صرف سو سے 120 دن میں تیار ہوجاتی ہے۔

پنجاب میں سورج مکھی کی دو فصلیں اگتی ہیں۔ بہاریہ فصل جنوری اور فروری میں کاشت کی جاتی ہے جبکہ خزاں کی فصل اگست اور ستمبر میں اگائی جاتی ہے۔ تھل ریجن میں تیز ہوائیں اور آندھیاں چلتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے کسان سورج مکھی کی بہاریہ کاشت کو ترجیح دیتے ہیں۔

محکمہ زراعت نے 20-2019 اور 24-2023 تک کے سیزنوں کے لیے تیل دار اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے تقریباً ساڑھے پانچ ارب روپے مختص کیے تھے۔ اس سکیم کے تحت کاشتکاروں کو سورج مکھی، کینولا اور تِل کا تصدیق شدہ بیج محکمہ زراعت سے منظور شدہ کمپنیوں کے ذریعے سبسڈی ای واؤچر کے ذریعے فراہم کیا جانا تھا اور فی ایکڑ سبسڈی پانچ ہزار روپے رکھی گئی تھی۔

پاکستان میں استعمال ہونے والے سورج مکھی کے ہائبرڈ بیج سے جو فصل پیدا ہوتی ہے اس سے فصل کے بیج نہیں بنائے جا سکتے اور انہیں بیرون ملک سے منگوانا پڑتا ہے۔

راؤ ماجد ایوب بھکر میں سورج مکھی اور دیگر فصلوں کے ہائبرڈ بیچ فروخت کرنے والے ایک بڑے ڈیلر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے پاکستان میں 10 کمپنیاں سورج مکھی بیج کے بارہ سے زیادہ برانڈ فروخت کرتی تھیں تاہم اس سال حکومت نے صرف چار کمپنیوں کو ہی بیج منگوانے کی اجازت دی ہے جس کی وجہ سے بیج کی قلت ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ٹھٹہ، بدین میں سورج مُکھی کا غروب: بیج ڈالروں میں خریدو، فصل روپوں میں بیچو

ماجد کے مطابق ہوائی جہاز کے ذریعے درآمد اس بیج کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ بحری جہاز کے بجائے ہوائی جہاز سے بیج منگوانے پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مرتبہ پہلے کی نسبت بیج کی کم مقدار درآمد ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے بیج کے کنٹینر چھوڑ دیے جائیں تو اس کی قلت ختم ہو جائے گی اور بہاریہ کاشت کے بعد کسانوں کو موسم خزاں کی کاشت میں آسانی رہے گی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر شوکت علی عابد بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''چونکہ سورج مکھی کا ہائبرڈ بیج بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اسی لیے جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو اس بیج کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات بھی بڑھ گئے، نتیجتاً بیج مہنگا اور کمیاب ہو گیا۔''

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سورج مکھی سمیت دیگر اجناس کے ہائبرڈ بیج بنانے والی کمپنیوں سے انڈیا کی طرز پر معاہدے کرے جن کے تحت  پاکستان کو بیج فراہم کرنے والی کمپنیاں پاکستان میں ہی اپنے فارم بنائیں اور یہیں پر بیج تیار کریں تاکہ آنے والے وقت میں کاشتکاروں کو مشکل پیش نہ آئے۔

تاریخ اشاعت 28 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

غلام عباس بلوچ کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے۔ علاقائی و سماجی مسائل، سیاست، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقہ کے حقوق کیلئے لکھتے رہتے ہیں۔

thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.