جب صہیب علی نے 22 فروری 2022 کو گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کی تو اس کی عمر محض 14 سال تھی اور وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
اس کے گھر والوں کے بقول اس کا مزاج دوستانہ تھا اور وہ کھیل کود کا شوقین تھا لیکن اس کی موت کے بعد جاری ہونے والی ایک طبی رپورٹ میں اس کی خودکشی کا سبب ذہنی دباؤ بتایا گیا۔ اس کے والد کرم علی کا کہنا ہے کہ بظاہر ان کے بیٹے کو کسی طرح کی کوئی ذہنی بیماری یا نفسیاتی پریشانی لاحق نہیں تھی البتہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ حساس طبیعت کا مالک تھا اور عین ممکن ہے کہ اسے کسی ایسے مسئلے کا سامنا ہو جس کے بارے میں اس نے کسی کو نہ بتایا ہو۔
صہیب علی کا گھر پرواک پائین نامی پہاڑی گاؤں میں ہے جو خیبر پختونخوا کے شہر چترال سے تقریباً ایک سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ اس کی موت اس دور افتادہ علاقے میں پچھلے چند سالوں میں ہونے والا خودکشی کا چھٹا واقعہ ہے۔ کرم علی کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے کچھ دیگر لوگ بھی خودکشی کی کوشش کر چکے ہیں جن میں صہیب کے ایک ماموں بھی شامل ہیں۔
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ جہانزیب کالج سوات میں سماجیات کے استاد ظفر احمد کہتے ہیں کہ پرواک پائین میں ہی نہیں بلکہ پورے ضلع چترال میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران خودکشی کے درجنوں واقعات پیش آئے ہیں۔ انہوں نے اس رجحان پر تفصیلی تحقیق کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2013 سے لے کر 2019 تک سات سالوں میں 74 چترالی مردوں اور ایک سو دو چترالی خواتین نے خودکشی کی۔ ان کے مطابق ان میں سے 36 فی صد لوگوں نے دریائے چترال میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، 28 فیصد افراد نے خود کو گولی ماری جبکہ 36 فی صد نے گلے میں پھندا ڈال کر یا زہریلی اشیا کھا کر خود کو ہلاک کیا۔
اس سے پہلے 2007 اور 2012 کے درمیان بھی اس ضلعے سے خودکشی کے تین سو 12 واقعات مقامی اخبارات میں رپورٹ ہوئے تھے۔ اسی طرح پچھلے تین سال کے دوران بھی یہاں خودکشی کے کم از کم 27 واقعات سامنے آئے ہیں۔
ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن چترال نامی غیرسرکاری تنظیم کے سربراہ نیاز احمد نیازی کہتے ہیں کہ 2020 میں پانچ خواتین اور پانچ مردوں اور 2021 میں تین خواتین اور نو مردوں نے خودکشی کی۔ ان کے مطابق اِس سال بھی چترال میں "اگست کے اختتام تک ایک خاتون اور چار مرد خودکشی کر چکے ہیں"۔
مرتے ہیں آرزو میں جینے کی
ایک لمبا عرصہ یہ خودکشیاں چترال سے باہر کے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہیں۔ یہاں تک کہ خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت نے بھی محض پانچ سال پہلے اس رجحان کا نوٹس لیا اور وہ بھی اس وجہ سے کہ چترال کے صحافی اس کے بارے میں صوبائی اور قومی سطح کے صحافتی اداروں میں لکھنے لگے تھے۔
تاہم ان کی دی ہوئی خبروں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے محکمے نے سینئر سرکاری اہل کاروں پر مشتمل ایک چار رکنی کمیٹی بنائی اور اسے یہ ذمہ داری بھی دی کہ وہ خودکشی کے واقعات کے محرکات کی نشاندہی کرے۔ یہ کمیٹی تفصیلی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ بیشتر خودکشیوں کے بنیادی اسباب غربت، بے روزگاری اور نفسیاتی امراض تھے۔
آغا خان ہیلتھ سروسز پاکستان نامی غیرسرکاری تنظیم کے خیبر پختونخوا کے سربراہ معراج الدین ان میں سے غربت کو خودکشی کی سب سے اہم وجہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چترال میں تقریباً 70 فیصد لوگ ایک دن میں 500 روپیہ بھی نہیں کما پاتے اس لیے ان میں سے اکثر مسلسل مالی مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ "ان میں سے جو لوگ یہ دباؤ زیادہ دیر تک نہیں جھیل پاتے وہ خودکشی کے ذریعے اس سے نجات کی راہ ڈھونڈتے ہیں"۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ صہیب علی کی عمر کے بچوں میں خودکشی کے رحجان کی بنیادی وجہ اُن کے والدین کا یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ امتحان میں اچھے نمبر لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "جب یہ بچے اپنی یا اپنے خاندان کی توقعات کے مطابق نمبر حاصل نہیں کر پاتے تو انہیں لگتا ہے کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے لہٰذا وہ مایوس ہو کر اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں"۔
چترال پولیس نے اسی لیے مقامی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں 'زندگی ایک نعمت ہے' کے عنوان سے ایک مہم چلا رکھی ہے۔ ضلعی پولیس کی سربراہ سونیا شمروز خان کہتی ہیں کہ "اس مہم کے تحت طلبا و طالبات کو خوش باش زندگی گزارنا اور مشکل حالات کا صبر و تحمل سے مقابلہ کرنا سکھایا جاتا ہے"۔
آغا خان ہیلتھ سروسز پاکستان نے بھی 2017 سے چترال کے تین مقامی مراکزِ صحت، ایک تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال اور ایک طبی مرکز میں مقامی نفسیاتی مریضوں کو یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے گلگت میڈیکل سنٹر اور آغاز خان یونیورسٹی کراچی کے ڈاکٹروں سے طبی مشورے کر سکیں۔ معراج الدین کہتے ہیں کہ اس طریقے سے اب تک "ذہنی امراض میں مبتلا چار سو 50 سے زیادہ افراد کا علاج کیا جا چکا ہے" جو، ان کے مطابق، "اب صحت مند زندگی گزار رہے ہیں"۔
عورت کا مقدر: قیدِ حیات یا بندِ غم
ظفر احمد کی تحقیق کے مطابق پچھلے چند سالوں میں چترال میں ہر 10 خودکشی کرنے والے لوگوں میں سے لگ بھگ چھ خواتین تھیں۔ ان میں سے آدھی شادی شدہ اور 20 سال سے 40 سال کی عمر کی تھیں۔ مقامی سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اِن خواتین کی خودکشی کی وجوہات میں ازدواجی مسائل، طلاقیں اور غربت سب سے نمایاں ہیں۔
چترال شہر میں سماجی بہبود کے کاموں میں سرگرم شاہدہ پروین کا کہنا ہے کہ مقامی لڑکیوں کی چترال سے باہر شادیاں بھی ان کی خودکشی کا سبب بن رہی ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ بعض غریب چترالی باشندے پیسوں کے عوض اپنی کم سِن بیٹیوں کی شادیاں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ادھیڑ عمر مردوں سے کر دیتے ہیں جن میں بیشتر پہلے سے شادی شدہ ہوتے ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، "ایسی لڑکیوں کو سسرال میں دوسری بیوی بن کر رہنا پڑتا ہے لہٰذا عموماً ان کی شادیاں کا انجام طلاق پر ہوتا ہے جو چترالی معاشرے میں اچھی نہیں سمجھی جاتی"۔
شاہدہ پروین خود بھی انہی حالات سے گزر چکی ہیں۔ 1983 میں جب وہ چھٹی جماعت میں زیرتعلیم تھیں تو ان کے والدین نے انہیں ادھیڑ عمر کے ایک غیرمقامی شخص سے بیاہ دیا تھا جس نے پہلے بھی تین شادیاں کر رکھی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سسرال میں انہیں مسلسل ظلم و زیادتی کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بالآخر 1989 میں ان کی شادی ختم ہو گئی۔
اس مسئلے کی روک تھام کے لیے چترال کی ضلعی انتظامیہ نے 2005 میں ایک طریقہ کار بھی وضع کیا جس کے تحت ہر یونین کونسل میں ایسی کمیٹیاں بنائی گئیں جو مقامی لڑکیوں سے شادی کے خواہش مند غیرچترالی لوگوں کی جانچ پڑتال کی ذمہ دار تھیں۔ تاہم ان کمیٹیوں کے کام کے بارے میں ایسے کوئی اعددوشمار موجود نہیں جن سے اس طریقہ کار کی افادیت کے بارے میں کچھ کہا جا سکے۔
معراج الدین خواتین میں خودکشی کے رحجان کی ایک اور وجہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چترال میں روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر مقامی مرد محنت مزدوری کے لئے ملک کے دوسرے حصوں یا دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں جہاں سے وہ مہینوں بلکہ سالوں تک واپس نہیں آ پاتے۔ "ایسے میں ان کی بیویوں کو گھریلو پریشانیوں اور معاشرتی بندشوں سے اکیلے ہی لڑنا پڑتا ہے جس سے وہ ذہنی کِھچاؤ کا شکار ہو جاتی ہیں"۔ ان کے مطابق یہی "کِھچاؤ انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف لے جاتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 3 ستمبر 2022