سعدی احمد یار نے گزشتہ برس 18 ایکڑ اراضٰی پر گنا کاشت کیا تھا۔ اس میں سے آٹھ ایکڑ رقبہ ان کا اپنا تھا اور باقی انہوں نے ٹھیکے پر لیا۔ رواں برس جنوری میں انہوں نے اپنی پیداوار چنیوٹ میں قائم رمضان شوگر مل کو فروخت کی لیکن انہیں اپنے مکمل واجبات تاحال موصول نہیں ہوئے۔
چنیوٹ کی تحصیل بھوانہ سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ سعدی چار بچوں کے باپ ہیں۔ ان کی ایک بیٹی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں بی ایس کی طالبہ ہے جن کی تعلیم کے ماہانہ اخراجات 20 ہزار سے 25 ہزار روپے ہیں۔ ایک بیٹی نویں اور ایک بیٹا دسویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ دماغی عارضے میں مبتلا ایک بیٹی کے لیے انہیں باقاعدگی سے دوا خریدنا پڑتی ہے۔
اپنی معاشی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گھر کے اخراجات، بچوں کی پڑھائی اور فصل کے خرچے پورے کرنے کے لیے انہوں نے ایک نجی بینک سے نو لاکھ روپے کا قرض لیا ہے۔ کاشت کا نیا سیزن سر پر آ گیا ہے لیکن ابھی تک پچھلے سال کے 18 لاکھ روپے میں سے تقریباً پانچ لاکھ مل کے ذمے ہیں۔ بقایا جات کی وصولی کے لیے وہ کئی مرتبہ مل انتظامیہ اور کسان رہنماؤں کو درخواست کر چکے ہیں لیکن انہیں اپنے پیسے نہیں ملے۔
"مِل انتظامیہ بڑے اور اثر رسوخ رکھنے والے زمین داروں سے ڈرتی ہے اور انہیں پیسوں کی ادائیگیاں جلدی اور وقت پر کر دیتی ہے جبکہ چھوٹے کاشت کاروں کو بہت تاخیر سے ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔"
تحصیل بھوانہ ہی کے چک-157 سے تعلق رکھنے والے اختر علی رمضان شوگر مل سے اپنے بقایا جات نہ ملنے کی وجہ سے اس مرتبہ بروقت کھاد خرید کر اپنی فصل میں نہیں ڈال سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ فصل کو وقت پر کھاد نہ ملنے سے پیداوار نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
دوسری طرف بجلی کے بل زیادہ ہونے سے ان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کا گاؤں دریائے چناب سے نکلنے والی نہر کے آخری سرے پر ہے جہاں کم نہری پانی آتا ہے اور وہ بجلی سے ٹیوب ویل چلانے پر مجبور ہیں۔
گزر بسر کے لیے اختر علی اپنی 15 ایکڑ زمین پر زیادہ تر گنا اگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شوگر مِل مارچ میں بند ہو گئی تھی لیکن ساڑھے 12 لاکھ روپے میں سے ساڑھے چار لاکھ روپے ابھی تک ان کے ذمے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنے پیسوں لیے مِل انتظامیہ کی منت سماجت کرنا پڑے گی جیسے وہ بھیک مانگ رہے ہوں۔
"حکومت چینی کی قیمتیں بڑھا رہی ہے لیکن کسانوں سے گنا خریدتے وقت مل مالکان قیمت کم دیتے ہیں اور ادائیگی بھی وقت پر نہیں کرتے۔ گنے کے کاشت کار دونوں طرح پس رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے رواں سال بہت سے کسانوں نے گنا کاشت نہیں کیا۔"
پسرور شوگر مل نے حافظ آباد کے علاقے کوٹ عالم کے مختار احمد کے بھی 15 لاکھ روپے ادا کرنا ہیں۔ رواں سال جنوری میں انہوں نے اس مل کو گنا بیچا تھا اور ان دنوں اپنی رقم وصول کرنے کی خاطر مختلف سرکاری دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
گنا اگانے کے علاوہ وہ بطور آڑھتی بھی کام کرتے ہیں اور کسانوں سے گنا لے کر مل کو فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پسرور شوگر مل نے ان سے رواں برس دو جنوری کے بعد جتنا بھی گنا خریدا اس کے پیسے نہیں دیے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے چند جانور بیچے اور مختلف لوگوں سے ادھار لیا تاکہ کسانوں کے کچھ واجبات ادا کر سکوں۔ وہ مل انتظامیہ کے پاس گئے اور لاہور میں کین کمشنر کے دفتر میں درخواست دی، تاہم شنوائی نہیں ہوئی۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 31 اگست ِ2023 تک پنجاب میں پانچ شوگر ملوں نے کسانوں کو پچھلے سیزن کے ایک ارب اور 20 کروڑ روپے کے واجبات ابھی تک ادا نہیں کیے۔ ان میں سے رمضان شوگر کے ذمے سب سے زیادہ 52 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ شکر گنج شوگر مِل جھنگ نے 30 کروڑ روپے، چنار شوگر مل فیصل آباد نے 21 کروڑ آٹھ لاکھ 57 ہزار روپے، عبداللہ شوگر مل اوکاڑہ نے 10 کروڑ روپےاور پسرور شوگر مل نے پانچ کروڑ روپے ادا کرنا ہیں۔
رمضان شوگر مل شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ عبداللہ شوگر مل کے مالک میاں شہباز شریف کے بہنوئی الیاس معراج ہیں جبکہ شکر گنج شوگر مل کریسنٹ گروپ آف کمپنیز کے پاس ہے جس کے سربراہ سلیم الطاف جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں نج کاری کے وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ انہیں 2006ء میں صدر پاکستان کی جانب سے انسانی خدمات کے اعتراف میں ستارہ ایثار سے بھی نوازا گیا تھا۔
شوگر فیکٹری کنٹرول ایکٹ 1950ء کی شق 13 کے مطابق ملیں گنے کی خریداری کے 15 دن کے اندر کسانوں کو رقم ادا کرنے کی پابند ہیں۔ اس کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید ہو سکتی ہیں یا/اور 50 لاکھ روپے یومیہ جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
چنیوٹ میں کسان بورڈ کے مقامی رہنما طفیل لونڑہ کہتے ہیں کہ شوگر مل انتظامیہ کسانوں کی ادائیگیاں خلاف قانون روکے رکھتی ہے تاکہ بینکوں کے ذریعے اس رقم سے منافع کما سکے اور پھر اسی سے کسانوں کو رقم دے۔ دوسری طرف کسانوں کے پاس اپنے گھر اور فصل کے اخراجات پورے کرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔
ان کے بقول تمام مِل مالکان سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں جن کے سامنے مقامی انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے۔
رابطہ کرنے پر رمضان شوگر مل کے نمائندے نے بتایا کہ وہ اس معاملے پر میڈیا کو کوئی بیان نہیں دے سکتے جبکہ متعدد کوششوں کے باوجود پسرور شوگر مِل کے نمائندے سے بات نہیں ہو سکی۔
یہ بھی پڑھیں
مالکان کے درمیان تنازعات: چونیاں کی برادرز شوگر مِل کیسے دس ہزار کسانوں کے ایک ارب روپے کھا گئی۔
کین کمشنر پنجاب عبدالرؤف چوہدری تسلیم کرتے ہیں کہ 15 دن میں ادائیگی کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ملیں مہینوں تک کسانوں کو واجبات ادا نہیں کرتیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس خلاف ورزی پر انہوں نے متعدد بار قانونی کارروائیاں کی ہیں، تاہم اب عدالت نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے حق میں سٹے آرڈر دے رکھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال کے کرشنگ سیزن میں ساڑھے تین کھرب کا گنا خریدا گیا تھا جس کی مکمل ادائیگیاں نہیں ہوئی تھی لیکن مئی میں ان کے چارج سنبھالنے کے بعد اب صرف 68 کروڑ روپے بقایاباقی ہیں۔
"کبھی کبھی ملوں کی مالی صورت حال اچھی نہیں ہوتی اور وہ ہم سے کچھ وقت دینے کی درخواست کر دیتے ہیں تاکہ بینکوں سے قرض لے سکیں۔ ہم ملوں سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے یقین دہانی کرائی ہیں کہ وہ 15 دن کے اندر تمام کسانوں کو بقایا جات ادا کر دیں گے۔"
کین کمشنر مقامی انتظامیہ پر سیاسی اثر و رسوخ کے دعوے کو رد نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری ملیں بڑے سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جن میں سیاست دانوں کے بڑے خاندان بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان کا اپنے علاقوں میں اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے ہں کہ کسانوں کے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کریں۔
تاریخ اشاعت 15 ستمبر 2023