تفتیش میں خامیاں یا قانون کی کمزوری:کراچی میں سٹریٹ کرائم کے 93 فیصد ملزم عدالتوں سے بری

postImg

محمد امین

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

تفتیش میں خامیاں یا قانون کی کمزوری:کراچی میں سٹریٹ کرائم کے 93 فیصد ملزم عدالتوں سے بری

محمد امین

loop

انگریزی میں پڑھیں

ظہیر علی شاہ 11 جون 2021ء کو کراچی میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر سرراہ قتل کر دیے گئے۔ وہ عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر تھے۔ اس ہائی پروفائل کیس میں پولیس نے دو ملزموں کو گرفتار کیا مگر دونوں جرم ثابت نہ ہونے پر بری ہو گئے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق پولیس نے ملزموں کے خلاف ناکافی شواہد پیش کیے تھے۔ تفتیشی رپورٹس اور گواہان کے بیانات میں بھی تضاد پایا گیا جس کی وجہ سے انہیں رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

نشتر روڈ کراچی پر عاشق حسین نامی شخص سے موبائل فون چھیننے والے تین افراد کو پولیس نے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا۔ تاہم عدالت نے ملزموں کو بھی بری کر دیا۔

 عدالت نےفیصلے میں لکھا کہ گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے۔کیس کے مرکزی گواہ اور مدعی کا بیان ہی قلم بند نہیں کرایا گیا۔

کراچی کے ضلع جنوبی کے تھانہ گارڈن کے علاقے حسین ڈی سلوا گارڈن سٹریٹ پر چھ ملزموں نے ایک شہری محمد علی سے موبائل فون اور نقدی چھین لی۔ پولیس نے چند روز بعد چاروں ملزم گرفتار کر کے ان سے تفتیش کے بعد چالان عدالت میں پیش کر دیا۔

 اس کیس کا ٹرائل طویل عرصہ چلتا رہا جس کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ مدعی اور سرکاری گواہ سب انسپکٹر احمد نوازکے بیان میں تضاد ہے اس لیے ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جاتا ہے۔

ظہیر علی شاہ کے قتل کیس میں پولیس نے ملزموں کے اعتراف جرم پر انحصار کیا۔ لیکن عدالت پولیس کی تحویل میں دیے گئے اعترافی بیان کو بطور شہادت قبول نہیں کرتی جبکہ پولیس عدالت میں اس اعترافی بیان کو سچ ثابت کرنے میں ناکام نظر آئی۔

اس کیس کے چالان کے مطابق 12 جون کو نیو ٹاؤن پولیس نے  گشت کے دوران دو ملزموں کو حراست میں لیا۔ ایک ملزم نے تفتیش میں ظہیر علی کے قتل کا اعتراف کرلیا اور جائے وقوع کی نشاندہی بھی کرائی۔

استغاثہ کے مطابق اعتراف کے بعد دونوں کو ظہیر علی کے قتل میں باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت میں ایک سال اور نو ماہ تک یہ کیس چلتا رہا۔30 مارچ 2023ءکو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر ظہیر علی کے قتل کیس میں دونوں ملزمان کو بری کر دیا۔

ماہر قانون عابد زمان ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ تفتیشی افسر پر زیادہ کیسز کی تفتیش کے دباؤ سے تحقیقات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک تفتیشی افسر کے پاس کئی طرح کے ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات ہوتے ہیں۔

سی پی ایل سی (سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی) کی رپورٹ کے مطابق 2022ء میں کراچی شہر میں موبائل فون چھننے کی 56 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ پولیس کے اعداد و شمار یہ تعداد 27 ہزار بتاتے ہیں۔ لیکن پولیس ہی کی فراہم کردہ تفصیلات میں یہ وارداتیں 30 ہزار سے زیادہ بنتی ہیں۔

سی پی ایل سی اغوا، بھتہ اور سٹریٹ کرائمز کی شکایات وصول کرتی ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے کے علاوہ چوری یا چھینی جانے والی گاڑیوں سےمتعلق تکنیکی مددفراہم کرتی ہے۔

سی پی ایل سی کے اعداد و شمار اور عدالتوں تک پہنچنے والے سٹریٹ کرائم کے کیسز کی تعداد میں بہت فرق ہے۔ عدالتوں میں سٹریٹ کرائمز کے مقدمات  حیران کن حد تک  کم ہیں۔ 2022ء میں کراچی کے پانچ اضلاع میں لائے جانے والے ان کیسز کی تعداد ایک ہزار  173 تھی۔

عابد زمان ایڈووکیٹ کا ماننا ہے کہ عدالتوں میں کیسز نہ آنے کی وجہ انصاف میں تاخیر اور پیچدہ طریقہ کار ہے ۔

ضلع جنوبی سٹریٹ کرائمز میں سرفہرست ہے جہاں سٹریٹ کرائمز کے 11 ہزار 303 واقعات رپورٹ ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر وہاں عدالتوں میں ایسے محض 11 مقدمات لائے گئے ۔ان میں سے ایک کیس میں ہی ملزموں کو سزا ہو سکی اور باقی 10مقدمات کے ملزم بری ہو گئے۔

کراچی کے تمام اضلاع کی عدالتوں میں اب بھی سٹریٹ کرائمز کے دو ہزار 941 مقدمات زیر التوا ہیں۔مجموعی طور پر عدالتوں نے ایسے ایک ہزار 173 مقدمات نمٹائے۔ ان میں اہک ہزار 77 مقدمات میں ملزم بری ہوئے اور محض 96 کیسز میں سزائیں ہو سکیں۔ یوں ملزموں کی بریت کا تناسب 92.81 فیصد رہا۔

پولیس تفتیش میں خامیاں

کراچی کے پولیس حکام 'تفتیش میں خامیوں' کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو بتاتے ہیں کہ پولیس نے مسلسل وارداتیں کرنے والے ڈھائی ہزار سٹریٹ کرمنلز کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں آٹھ سو کے قریب ملزموں کو رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سٹریٹ کریمنلز کی بریت کی ایک وجہ کمزور تفتیش بھی ہے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ ان  کی گرفتاری کے بعد بعض منظم گروہ فوری طور پر ان کی ضمانت کی درخواستیں دائر کر دیتے ہیں۔ یہ گویا ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔

ایڈیشنل آئی جی کا کہنا ہے کہ سٹریٹ کرائمز کے کیسز میں شہری بھی مقدمات کی پیروی سے کتراتے ہیں۔ عدالتی طریقہ کار اتنا طویل ہے کہ شہری  چند ہزار روپے کے موبائل فون کی خاطر مہینوں عدالتوں کے چکر کاٹنے سے گریز کرتے ہیں۔

"شہری یہ بھی سوچتے ہیں ایف آئی آر کے بعد انہیں وکیل کرنا پڑے گا۔ فیس بھی دینی ہو گی۔ ان تمام باتوں کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ سٹریٹ کرائمز کے کیس کا عدالتی طریقہ کار آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس نے اپنی تجاویز پراسکیوٹر جنرل سندھ کو ارسال کر دی ہیں۔ایسے ملزموں کے ضمانتی پیشہ ور افراد ہوتے ہیں جن کے خلاف کارروائی کے لیے فہرستیں تیار کی جارہی ہیں۔

اعترافی بیان کی کیا قانونی حیثیت ہے؟

ماہر قانون عابد زمان ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ جب پولیس کے پاس ملزموں کے خلاف شواہد نہیں ہوتے تو وہ ان کے اعترافی بیان پر انحصار کرتی ہے۔ پولیس جب ملزم کو گرفتار کرتی ہے تو فوری طور پر اس کا 154 کے تحت بیان قلم بند کرتی ہے۔

"اس بیان میں ملزم واردات کا طریقہ کار، جائے وقوعہ، وقت اور واردات کی نوعیت کے بارے میں بتاتا ہے۔جب ملزم کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو اگر وہ کسی تضاد کے بغیر پہلے والا بیان دہراتا ہے تو عدالت اسے قابل قبول شہادت تسلیم کرتی ہے۔ اور اگر دوسرے بیان میں تضاد ہو تو اسے شہادت تسلیم نہیں کرتی۔"

عابد زمان کا کہنا ہے کہ پولیس تحویل میں بیان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔عدالت یہ بھی دیکھتی ہے کہ جو شواہد  سامنے رکھے گیے ہیں۔آیا اعترافی بیان ان سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں اور یہ بیان پراسکیویشن کے کیس کو درست ثابت کر رہا ہے یا نہیں۔دباؤ کا معاملہ بھی عدالت کے پیش نظر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں چھ سال کے دوران پولیس مقابلوں میں 400 فیصد اور جرائم کی شرح میں 600 فیصد اضافہ

انہوں نے لیاری کےعذیر بلوچ ،ایم کیو ایم کے سعید بھرم اور رئیس مما جیسے ملزموں کی مثال دیتے ہوئے بتایا  کہ ان کا اعترافی بیان بھی لیا گیا تھا مگر ملزمان ان کیسوں میں بری ہو گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ملزم کا اعترافی بیان شواہد سے مطابقت رکھا ہے یا نہیں؟

کراچی پولیس کے محکمہ انوسٹی گیشن سے وابستہ انسپکٹر سعید نیاز تھیم کئی ہائی پروفائل کیسوں کی تفتیش میں شامل رہے ہیں۔

 وہ بتاتے ہیں کہ سٹریٹ کریمنل عام طور پر واردتوں کے بعد شہر سے فرار ہو جاتے ہیں۔ انہیں دوسرے صوبے سے گرفتار کرنے کے لیے محکمہ داخلہ کی اجازت لینا ہوتی ہے۔ اس میں چار سے پانچ دن لگ جاتے ہیں۔ اس دوران ملزم وہاں سے بھی بھاگ جاتے ہیں۔

سعید تھیم کہتے ہیں کہ سٹریٹ کریمنلز کی گرفتاری میں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے تفتیشی افسروں  کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے کیونکہ تفتیشی افسر کے پاس جتنے کم کیسز ہوں گے اس کی تفتیش کار اتنی ہی بہتر ہو گی۔

تاریخ اشاعت 1 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد امین کراچی سے فری لانس ملٹی میڈیا جنرلسٹ ہیں۔ وہ گذشتہ دس سالوں سے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.