قصور میں آوارہ کتوں کا خاتمہ آخر کس کی ذمہ داری ہے؟

postImg

افضل انصاری

postImg

قصور میں آوارہ کتوں کا خاتمہ آخر کس کی ذمہ داری ہے؟

افضل انصاری

عابد قصور كے علاقے عثمان والا كے رہائشی ہیں۔ پیشے كے لحاظ سے درزی  اور محلے میں ایک چھوٹی دكان چلاتے ہیں۔ رواں برس مئی كا مہینہ تھا، ان كی آٹھ سالہ بیٹی مہرین صبح صبح سكول جا رہی تھی كہ اس پر آوارہ كتوں كے جھنڈ نے حملہ كر کے کاٹ کھایا۔

عابداپنی زخمی بچی كو لے كر سركاری ہسپتالوں  میں پھرتے رہے لیكن كسی نے بچی كو داخل نہیں كیا، البتہ ایک نجی ہسپتال والوں نے یہ كہہ كر بچی كے علاج سے انكار كر دیا كہ ہسپتال كا علاج عابد كی "اوقات" سے باہر ہے۔

 جب تک مہرین كو لاہور كے سروسز ہسپتال میں لایا گیا تب تک وہ جاں بحق ہو چكی تھی۔
 
عابد كہتے ہیں كہ ان كی بچی كی موت كی خبر جب میڈیا پر آئی تو وزیر اعلی پنجاب نے نوٹس بھی لیا لیكن وہ نوٹس محض ایک جذباتی بیان تھا۔

"اس پر كبھی ایكشن نہیں لیاگیا كیونكہ ذمہ داران كی نوكریاں میری بچی كی جان سے زیادہ قیمتی ہیں"۔

قصور شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں پھرنے والے آوارہ كتوں كی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چكا ہے۔ یہ آوارہ كتے نہ صرف شہریوں كے لیے مستقل خطرہ بن چكے ہیں بلكہ ضلعی انتظامیہ کا بھی منہ چڑا رہے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے آوارہ كتوں كو زہر دے كر یا گولی مار کر ہلاک کرنے پر مکمل پابندی لگا ركھی ہے۔

سال 2021ء میں پنجاب حکومت نے اینیمل برتھ کنٹرول پالیسی کا بھی انعقاد کیا، جس كے تحت كتوں كو مارنے كی بجائے انہیں پكڑ كر ان كی نس بندی كر دی جاتی ہے، یوں ان كی افزائش نسل نہیں ہو پاتی۔

فروری 2022ء میں پنجاب کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو پی ڈی ایم کی طرف سے تحریری نوٹس بھیجا گیا تھا کہ آوارہ کتوں کو زہر دیکر تلف کرنے کی بجائے ٹی این وی آر کے طریقہ کار کو فوری طور پر اپنایا جائے ۔

ٹی سے مراد آوارہ کتوں کو ٹریپ کرنا، این سے مراد ان کو خصی کرنا یا ان کی نس بندی کرنا ہے، وی  سے مراد ان کو ویکسین دینا اور آر کا مطلب ان کو ریلیز یعنی رہا کرنا ہے۔

اس پالیسی کے تحت کتوں کی افزائش نسل کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری میونسپل کمیٹی، محکمہ صحت  اور لائیو سٹاک و ڈیری ڈیویلپمنٹ کی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کا کام اس سارے عمل کی نگرانی اور عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے ۔

 لیكن ان محكموں کے درمیان عدم تعاون اور اور ذمہ داری کے واضع تعین نہ ہونے کی وجہ سے اس پالیسی پر نہ صرف عمل درآمد نہیں ہوسكا بلكہ آوارہ کتوں کی تعداد، کتے کاٹنے کے واقعات، باؤلے پن کے پازئیٹو کیسز کی تعداد اور  ویکسین  دی جآنے والے کتوں کی تعداد کا ریکارڈ کسی محکمے کے پاس موجود نہیں ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سے لوک سجاگ ملنے والی رپورٹ كے مطابق جنوری 2022ء سے اكتوبر 2023ء تک ضلع بھر میں كتے كے كاٹنے كے كل1109 واقعات درج ہوئے۔

ایک شہری جاوید بھٹی کے مطابق جہاں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہریوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے وہاں ان کتوں کو بھی عوامی نفرت، جگہ اور خوراک کی قلت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر شیخ وقاص احمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ آوارہ کتوں کو پکڑنے کے لیے میونسپل کمیٹی کے پاس تربیت یافتہ عملہ اور جال وغیرہ تک دستیاب نہیں ہیں۔کمیٹی اپنے اہلکاروں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی، البتہ کتوں کو زہر دینے کام آسان اور قابلِ عمل تھا۔

میونسپل کمیٹی کے ایک اہلکار فیصل علی کے مطابق جب سے یہ نئی پالیسی بنی ہے انہوں نے کوئی آوارہ کتا نہیں پکڑا اور نہ ہی کسی کو زہر دیا ہے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ ضلع قصور ڈاکٹر طلحہ نے لوک سجاگ كو بتایا كہ آوارہ كتوں كو پكڑنے كی زمہ داری میونسپل كمیٹی كی ہے، جس میں وہ مكمل طور پر ناكام ہو چكی ہے۔

" كتوں كو ہلاک كرنا مسئلے كا حل نہیں ہے جبكہ  ٹی این وی آر ہمارے سماجی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر سے مطابقت رکھتی ہے اور زیادہ موضع طریقہ کار ہے"۔

اینیمل برتھ کنٹرول پالیسی کا تیسرا اہم سٹیک ہولڈر لائیو سٹاک اینڈ ڈئیری ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔

اتھارٹی کے ڈسٹرکٹ آفیسر ڈاکٹر محمد عباس نے لوک سجاگ کو بتایا كہ انہیں كسی بھی ادارے كی جانب سے یہ ذمہ داری نہیں سونپی گئی تھی پھر بھی اپنی مدد آپ کے تحت لائیو سٹاک قصور نے جولائی 2022ء سے جون 2023ء  تک 482 آوارہ کتوں کی نس بندی کی ہے جبکہ 12 ہزار 779 آوارہ کتوں کو ویکسین دی ہے۔

ذمہ دار محکمہ جات کی عدم دلچسپی اور ذمہ داریوں کا درست تعین نہ ہونے کی وجہ سے ضلع بھر میں کتوں کی تعداد اور ان کے حملے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔

اینیمل برتھ کنٹرول پالیسی كے مطابق صوبائی مانیٹرنگ کمیٹی کے بعد ضلعی مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام عمل میں آتا ہے ۔ اس کمیٹی کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے جبکہ باقی چھ اراکین میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، سی ای او ہیلتھ، ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ، کسی این جی او کے دو نمائندے اور جانوروں پر تشدد سے بچاؤ کی تنظیم کا ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

محکمہ جنگلی حیات ناکام: تھرپارکر میں معدوم ہوتے جانوروں کے تحفظ کی ذمہ داری مقامی آبادی نے اٹھا لی

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کے ایک اہلکار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ایسی کمیٹی صرف فائلوں میں موجود ہے، حقیقت میں اس طرح کی کسی کمیٹی نے آج تک نہ تو کوئی میٹنگ کی ہے اور نہ ہی کوئی حکم صادر کیا ہے۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل غلام احمد انصاری نے لوک سجاگ كو بتایا كہ قانوناً اس کمیٹی کی ماہانہ میٹنگ ہونا چاہیے اور اسے اپنی ذیلی کمیٹی تحصیل ایمپلی مینٹیشن کمیٹی( ٹی آئی سی) کی نگرانی کرنا چاہیے اور باقاعدگی کے ساتھ کارکردگی رپورٹ طلب کرنا چاہیے  مگر اس طرح کی کوئی پریکٹس نظر نہیں آتی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹی آئی سی اس بات کی قانوناً پابند ہے کہ وہ آوارہ کتوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے باقاعدہ سروے کرے اور تمام اعداد و شمار اکٹھے کر کے روزانہ کی بنیاد پر صوبائی ڈیٹا میں شامل کرے مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

مقامی تاجر برادری کے نمائندے افضال حسین، ملک عبدالعزیز اور علی رضا کے مطابق آوارہ کتوں کے حملوں اور ان کی غیر معمولی تعداد سے متعلق شکایت درج کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ایک ہیلپ لائن متعارف کروانی چاہیے۔ انہوں نے مزید كہا كہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس معاملے پر غیر سنجیدہ ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹی این وی آر پالیسی قابلِ عمل ہے مگر مختلف محکمے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار نہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔

تاریخ اشاعت 15 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد افضل انصاری کا تعلق پنجاب کے تاریخی ضلع قصور سے ہے۔ وہ گزشتہ 18 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.