رحیم یار خان کے گرلز کالجوں میں دو ہزار طالبات کو پڑھانے کے لئے صرف 14 اساتذہ

postImg

بلال حبیب

postImg

رحیم یار خان کے گرلز کالجوں میں دو ہزار طالبات کو پڑھانے کے لئے صرف 14 اساتذہ

بلال حبیب

عائشہ سیکنڈ ائر کی طالبہ ہیں وہ اپنے کالج آنے جانے کے لیے روزانہ 22 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔

مگر ان کا مسئلہ طویل فاصلہ یا راستے کی مشکلات نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔

وہ رحیم یار خان کے نواحی گاؤں چک 238 پی میں رہتی ہیں جس کی آبادی ایک ہزار 600 نفوس پر مشتمل ہے۔ وہ گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین قصبہ منٹھار میں پڑھتی ہیں۔

عائشہ کی مشکل یہ ہے کہ ان کےکالج میں صرف دو لیکچرار تعینات ہیں جس کی وجہ سے عائشہ اپنے دو مضامین کے علاوہ پانچ مضامین اکنامکس، اسٹیٹس، اردو، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان  کےحوالے پریشانی میں مبتلا ہیں۔

ان کے والد امتیاز احمد کسان ہیں۔عائشہ نے بتایا کہ دو ماہ بعد بورڈ کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں لیکن وہ تیاری نہیں کر پا رہیں۔ وہ اپنی دوسری کلاس فیلوز کے ساتھ بارہا پرنسپل کالج کو درخواست کر چکی ہیں کہ ان کی پڑھائی کا مسئلہ حل کیا جائے لیکن ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔

گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین میانوالی قریشیاں میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام (اے ڈی پی) کمپیوٹر سائنس کے دوسرے سمسٹر کی طالبہ آمنہ حمید کو بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ روزانہ 15 کلومیٹر کا سفر کر کے اپنی بہن کےساتھ، جو کہ اے ڈی پی سائنس (زوا لوجی) کے دوسرے سمسٹر کی طالبہ ہیں، کالج جاتی ہیں۔

"کالج میں ایک ہی مستقل ٹیچر ہیں جو ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن پڑھاتی ہیں۔ میں کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہوں لیکن اس مضمون کی کوئی ٹیچر کالج میں دستیاب نہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ مضمون ایسے بھی ہیں جو وہ سلیبس کے مطابق پورے نہیں پڑھ سکیں۔ ان میں  انٹروڈکشن ٹو پروگرامنگ، ڈیجیٹل لاجک، کیلکولس، میتھ اینڈ الجبرا، اکنامکس اور بزنس انگلش شامل ہیں۔

 ان کا کہنا ہے کہ تیاری نہ ہونے کے باعث  سالانہ امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔

آمنہ کے والد حمید الدین ایک موبائل شاپ کے مالک ہیں۔ وہ سردار گڑھ (یونین کونسل) سے روزانہ اپنی دونوں بیٹیوں کو موٹرسائیکل پر چھوڑنے آتے ہیں۔

"برادری میں صرف میری بیٹیاں ہی کالج جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو صرف میٹرک تک  تعلیم دی جاتی تھی"۔

حمید الدین کے مطابق بیٹیوں کے کالج میں ٹیچنگ سٹاف کی کمی کے باعث وہ ان کے سالانہ امتحانوں کے نتائج کے لیے فکر مند ہیں۔

ایسوسی ایٹ کالج کیا ییں؟

نومبر 2020ء میں، اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی صوبائی کابینہ  نے سرکاری کالجز میں دو سالہ بی اے اور بی ایس سی ڈگری پروگرام ختم کر کے، دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔

پہلے گریجوایٹ پروگرام دو سال کا ہوتا تھا جسے چار سالہ کر دیا گیا۔ دوسال کی ڈگری کو ایسوسی ایٹ ڈگری کا نام دیا گیا جبکہ چار سالہ ڈگری پروگرام کوگریجوایٹ ڈگری کا نام دیا گیا تھا۔

ڈائریکٹر کالجز ابراہیم بھٹی کے مطابق یہ طرز تعلیم امریکن سسٹم سے لیا گیا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سعدیہ رشید کہتی ہیں کہ ان کالجز کے قیام کا مقصد دور دراز سے شہر میں آنے والی طالبات کو ان کے گھروں کے قریب اعلی تعلیم اور ڈگری کالج کی سہولت فراہم کرنا تھا۔

مگر نہ تو طویل فاصلوں کا مسئلہ حل ہوا نہ کالجوں کا سٹاف پورا ہو سکا۔

لڑکیوں کے کالجوں میں اساتذہ کی کتنی اسامیاں خالی ہیں؟

ضلع رحیم یارخان کے دیہی علاقوں میں سات ایسوسی ایٹ کالج ہیں جو حکومت نے دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے سال 2012 ء سے سال 2021ء کے دوران قائم کیے تھے لیکن وہاں کبھی بھی ٹیچنگ سٹاف کی کمی پوری نہیں ہوسکی۔

مستقل بنیادوں میں تعینات ہونے والی لیکچرارز وہاں سے تبادلے کروا کر شہری علاقوں کے کالجوں میں جا چکی ہیں یا پھر ابھی تک خالی سیٹوں پرتعیناتیاں ہی نہیں ہوئیں۔

ان کالجز میں آرٹس اور سائنس کے تمام مضامین، اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے تو موجود ہیں لیکن اساتذہ ندارد ہیں۔

سی ٹی آئیز کی بھرتی کیسے ہوتی ہے ؟

عارضی ٹیچر یا کالج ٹیچنگ انٹرنیز (سی ٹی آئیز)  کی بھرتی کے لیے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اخبار میں اشتہار دیتا ہے۔ ساتھ ہی ڈیپارٹمنٹ  ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سے عارضی ٹیچرز کی ڈیمانڈ طلب کرتا ہے۔

گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج میانوالی قریشیاں کی پرنسپل مسز فرخ چودھری کے مطابق وہ زیادہ ٹیچرز کی ڈیمانڈ نہیں کر سکتیں۔ "صرف اہم مضامین کی ڈیمانڈ پوچھی جاتی ہے"۔

انہوں نے بتایا پورے پنجاب میں کل تین ہزار سی ٹی آئیز کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے ہر کالج میں چار یا پانچ سی ٹی آئیز ہی ایک کالج کے حصے میں آتی ہیں۔

 مسز فرخ چودھری بتاتی ہیں کہ ان کے کالج میں ٹیچنگ سٹاف کی 18 پوسٹیں ہیں ان میں سے 17 خالی ہیں۔ ان کے پاس اس وقت ایک مستقل لیکچرار ہیلتھ اینڈ فیزیکل ایجوکیشن کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2022ء میں ان کے پاس آٹھ مستقل ٹیچرز تھیں جن کی وجہ سے ان کے کالج میں انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ 84 فی صد تھا جبکہ ایسوسی ایٹ کلاسز کا نتیجہ 100 فی صد تھا۔ تاہم سات مستقل ٹیچرز کے ٹرانسفر ایک ماہ کے اندر اندر کر دئیے گئے۔ جس کے بعد طالبات کے والدین ان کے پاس مطلوبہ مضمون کی ٹیچر نہ ہونے پر شکایت لے کر آ رہے ہیں۔

گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین خان بیلہ کی سابق پرنسپل صبیحہ کا دو ہفتے قبل تبادلہ ہوا ہے۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ ان کے ٹرانسفر کے بعد وہاں کوئی بھی مستقل ٹیچنگ سٹاف نہیں ہے اور صرف عارضی تعینات ہونے والی پانچ  سی ٹی آئیز پڑھا رہی ہیں۔

ضلع رحیم یار خان میں دو ہزار طالبات کے لیے 14 مستقل ٹیچرز موجود ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر ٹیچرز اختیاری مضامین پڑھانے کے لیے ہیں۔ سائنس ،سوشل سائنس اور لازمی مضامین کا سٹاف تو کبھی کبھار ہی نظر آتا ہے۔

گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج کوٹ سمابہ کی پرنسپل افشاں سلیم کے مطابق ان کے کالج میں پانچ مستقل ٹیچرز جبکہ سات سی ٹی آئی ٹیچرز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کے پاس ٹیچنگ سٹاف کی کمی ہے لیکن ضلع کے دیگر کالجز کے مقابلے میں ان کے کالج کی پوزیشن بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

محکمہ تعلیم یا اساتذہ: چاغی میں بند پڑے سکولوں کا ذمہ دار کون ہے؟

"میرے پاس کچھ ایسی ٹیچرز بھی ہیں جنہون نے ماسٹر ڈگری کرلے رکھی ہے اور وہ رضاکارانہ طور پربغیر تنخواہ پر اس امید یہاں پڑھا رہی ہیں کہ جیسے ہی یہاں اسامیاں نکلیں گی انہیں نوکری مل جائے گی"۔

"ٹیچر تو ٹیچر ہوتا ہے"

ڈائریکٹر کالجز بہاولپور محمد ابراہیم بھٹی کے مطابق دو ہزار طالبات کے لئے14 مستقل ٹیچرز کے اعدادوشمار پرانے ہیں۔

"ہم نے ضلع بھر میں 115 اساتذہ، سی ٹی آئیز کی صورت میں ان کالجز کو دیے ہیں۔ "وہ ریگولر ٹیچر تو نہیں ہیں لیکن ٹیچر تو ٹیچر ہوتا ہے جو انٹرویو اور پراسس سے گزر کر آتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ  اس وقت الیکشن کمیشن کی طرف سے تعیناتیاں روک دی گئی ہیں ورنہ مستقل ٹیچرز  نے ہی ان سیٹوں پر آنا ہے۔ وہ مستقل ٹیچرز کی تعیناتی میں تاخیر کا ذمہ دار پبلک سروس کمیشن کو ٹھہراتے ہیں کہ ان کا پراسس سست ہونے کی وجہ سے بھی یہ سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں۔

" اس وقت ہم نے ہر دیہی کالج کو آٹھ سے دس عارضی ٹیچر دے دیے ہیں جس سے صورتحال بہتر ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ الیکشن کے بعد دیہی کالجز میں 80 سے 90 فی صد سیٹیں پوری ہو جائیں گی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سعدیہ رشید ٹیچنگ سٹاف کی کمی پر اتفاق کرتی ہیں۔

ان کا کہنا  ہے کہ  اچھے نتائج کے لیے ہر کالج میں مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی تعیناتی ضروری ہے۔ "میری تجویز ہے کہ سی ٹی آئیز کو ستمبر میں تعینات کیا جائے تو طالبات کی پڑھائی متاثر نہیں ہو گی"۔

تاہم، بقول سعدیہ رشید کے اس بار چونکہ سی ٹی ائیز جنوری 2023ء میں تعینات کی گئی ہیں جس کی وجہ سے امتحانی نتائج پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 24 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.