بیالیس سالہ محمد جاوید ضلع حافظ آباد کے رہائشی ہیں جو بچپن میں پولیو کا شکار ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ گھر میں نقل و حرکت اور باہر آنے جانے کے لیے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں لیکن ہر الیکشن میں ووٹ ضرور کاسٹ کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ایک دوست کی مدد سے ماڈل ہائی سکول پولنگ سٹیشن پہنچے تو وہاں لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ان کی باری آئی تو برآمدے پر وہیل چیئر کو چڑھانے کے لیے کوئی ریمپ نہیں تھا۔
"قطار میں موجود لوگوں نے وہیل چیئر اٹھا کر مجھے پولنگ عملے کے قریب پہنچایا لیکن بیلٹ پیپر لے کر جب میں پولنگ بوتھ میں داخل ہونے لگا تو سکیورٹی اہلکار نے میرے مددگار کو روک لیا اور کہا، غیر متعلقہ شخص کو آپ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ پریزیڈنگ افسر سے مددگار کو ساتھ بھیجنے کی گزارش کی جنہوں نے حکام سے فون پر بات کی لیکن صرف بوتھ تک چھوڑنے اجازت ملی جبکہ وہ سہارے کے بغیر وہیل چیئر سے نہیں اٹھ سکتے۔ بالآخر پریزیڈنگ افسر کو ان پر رحم آیا اور انہوں نے مددگار کے ذریعے پولنگ بوتھ جا کر ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دے دی۔
محمد جاوید نے اپنی جسمانی کمزوری کو کبھی مجبوری نہیں بننے دیا۔ وہ مشکل حالات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سکول ٹیچر بھرتی ہوئے اور 12 سال سے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن معذور افراد کے لیے پولنگ سٹیشن پر خصوصی انتظامات کے دعوے تو کرتا ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا اور ہر بار ووٹ ڈالنے کے لیے انہیں کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں معذور افراد کتنے ہیں؟
عالمی اداہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ لوگ معذوری کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں جو کہ کل آبادی کا 16 فیصد بنتے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقومی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا تخمینہ ہے کہ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔ پاکستانی وزارت انسانی حقوق ان اعداد و شمار کو تسلیم کرتی ہے۔
پشاور کے رہائشی اور پولیو سے متاثرہ مشتاق حسین پیرا پلیجک سینٹر (مرکز بحالی معذوراں) پشاور کے نگران ہونے کے علاوہ 'فرینڈز آف پیرا پلیجک' نامی تنظیم کے سیکرٹری اطلاعات ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی الیکشن دیکھے ہیں لیکن آج تک خصوصی افراد کے لیے کبھی پولنگ بوتھ تک رسائی کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا جس سے انہیں اور ان جیسے لوگوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
"ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں۔ ہمارا بھی حق ہے کہ پولنگ سٹیشن جا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں لیکن پولنگ بوتھ تک ہماری رسائی کے لیے وہاں وہیل چیئرز ہوتی ہیں نہ ریمپ اور نہ ہی نابینا افراد کے لیے مدد گار کا انتظام ہوتا ہے۔ ایسے الیکشن ہوں یا نہ ہوں ہمارے لیے بے معنی ہیں"۔
مشتاق حسین کا کہنا ہے کہ یہاں 75 برسوں سے ملک کی آدم شماری ہو رہی ہے مگر خصوصی آبادی کے درست اعداد و شمار بھی کسی ادارے کے پاس نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا میں معذور افرادکا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے محکمہ بہبود آبادی کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت درخواست دی گئی جس کا اب تک جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر 2021ء تک کے نادرا سے موصول شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں خصوصی افراد کی تعداد تین لاکھ 71 ہزار 833 ہے۔
تاہم پاکستان میں سوشل پروٹیکشن سنٹر نامی تھنک ٹینک نادرا کے اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور خصوصی افراد کا مکمل ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
نادرا کے مطابق پختونخوا میں خصوصی افراد کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار 491ہے جن میں ایک لاکھ ایک ہزار 625 شناختی کارڈ کے حامل ہیں۔ پنجاب میں خصوصی افراد کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار 539 ہے جن میں ایک لاکھ 27 ہزار 591 شناختی کارڈ ہولڈرز ہیں۔
نادرا کے مطابق ملک میں بصارت کے محروم افراد کی تعداد 19 ہزار 643، قوت سماعت و گویائی سے محروم افرد (گونگے بہرے) کی تعداد 25 ہزار 183 اور جسمانی معذوری کا شکار خصوصی افراد دو لاکھ 95 ہزار 93 ہیں۔
شیخوپورہ کی شاہ کالونی کے رہائشی سید عطر عباس کی عمر 45 سال ہے۔ برسوں پہلے ایک حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی تب سے وہ سیدھا کھڑے ہو سکتے ہیں نہ ہی گردن اٹھا کر سامنے دیکھ سکتے ہیں۔
وہ بتاتے کہ 2018ء میں وہ پولنگ سٹیشن پر پہنچے تھے تو قطار میں زمین پر بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کیا تھا اور رینگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر عملے تک پہنچے تھے۔ تب کہیں جا کر ووٹ کاسٹ کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ2021 ء کے ضمنی انتخاب میں پولنگ سٹیشن پر تعینات پولیس اہلکار نے انہیں زمین پر بیٹھے دیکھا تو لائن سے نکال کر نہ صرف انہیں سہارا دیا بلکہ ووٹ ڈالنے کے تمام مراحل میں بھی ان کی مدد کی تھی۔
" اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگر الیکشن کمیشن ہر پولنگ سٹیشن پر خصوصی افراد کے لیے ایک مددگار تعینات کر دے تو ان کے لیے بہت سی آسانیاں میسر آ سکتی ہیں اور وہ کسی پریشانی کے بغیر اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں"۔
مشتا ق حسین کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے خصوصی افرد میں سے 12ہزار افراد سپائنل کارڈ انجری ( ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ) سے متاثر ہیں جن میں سے بیشتر بیساکھی یا وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ یہ صرف ریمپ کے ذریعے پولنگ بوتھ تک پہنچ سکتے ہیں لیکن پولنگ سٹیشنز سرکاری عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں جہاں ریمپ ہوتے ہی نہیں۔
سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیوٹیو(سی پی ڈی آئی )کے زاہد عبداللہ خصوصی افراد کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خصوصی افراد کی رسائی کے لیے سرکاری عمارتوں کا سروے شروع کیا گیا تھا جو تاحال مکمل نہیں ہو پایا ۔
وہ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں سرکاری دفاتر یا نجی عمارتوں میں خصوصی افراد کے لیے کہیں ریمپس بنائے بھی گئے ہیں تو وہ بھی مقررہ معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ سٹینڈرڈ کے مطابق اگر چڑھائی ایک فٹ ہو تو ریمپ کی لمبائی 12 فٹ ہونی چاہیے اور مقررہ معیار کے برعکس بنایا گیا ریمپ خصوصی افراد کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں معذور افراد کے ووٹ ڈالنے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور یہ لوگ اپنے ساتھ مدد گار کو بھی ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ انہیں اکثر اوقات پولنگ افسر سہولت بھی دیتے ہیں لیکن مشکل تب زیادہ ہوتی ہے جب پولنگ بوتھ دوسری منزل پر ہو۔
شرقپور (شیخوپورہ) کے رہائشی فلک شیر گوگا اور ان کی 32 سالہ بہن دونوں کے ہاتھوں کی گرفت اتنا کمزور ہے کہ انتخابی نشان پر ٹھیک سے مہر نہیں لگا سکتے۔دونوں بہن بھائی صرف اسی وجہ سے ووٹ کاسٹ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
گوگا کہتے ہیں کہ وہ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن اگر مدد گار میسر ہو تو انہیں ووٹ ڈالنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔
حافظ آباد کے رہائشی خصوصی فرد محمد جاوید اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ووٹ کے بغیر جمہوری عمل کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن چند اقدامات کرے تو معذور افراد بھی پولنگ میں بھرپور حصہ لے سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سماعت سے محروم افراد کے لیے اشاروں پر مبنی پوسٹر آویزاں کیے جانے چاہیئے۔
"اگر یہ اقدا مات ممکن نہیں تو ہر شہر میں خصوصی افراد کے لیے ایک الگ پولنگ سٹیشن بنایا جا سکتا ہے یا انہیں ای ووٹنگ کی سہولت دے کر پولنگ سٹیشن پر آنے کی مشکلات سے بچایا جا سکتا ہے"۔
پاکستان اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے اور اس کنونشن کی آرٹیکل 29 اے کے تحت معذور افراد کو سیاست میں شامل کرنا ان کا اہم حق ہے لیکن ملک میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
یہ بھی پڑھیں
عبدالصبور کاسی: پاکستان کے پہلے معذور شخص جو انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں
انتخابی قوانین (الیکشن ایکٹ 2017ء )کے مطابق بینائی سے محروم افراد اپنے ساتھ مددگار لا سکتے ہیں مگر یہاں زیادہ تر پولنگ عملہ قوانین سے لاعلم ہوتا ہے اور ایسے افراد کو امتحان میں ڈال دیتا ہے۔
خصوصی انتظامات سے متعلق الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا شمشاد خان بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات ہیں کہ تمام پولنگ سٹیشنز پر خصوصی افراد کے لیے پولنگ بوتھ گراونڈ فلور پر بنائے جائیں اور انہیں ریمپ کی سہولت مہیا کی جائے۔
ترجمان الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا سہیل احمد کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کتنے پولنگ سٹیشنز میں ریمپ نہیں اور معذور افراد کی رسائی کے لیے کتنے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ تاہم عمومی ہدایات دی جاتی ہے کہ ان افراد کی پولنگ تک رسائی یقینی بنائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام ووٹروں کی آگاہی کے لیے الیکشن کمیشن کا ونگ کام کر رہا ہے جو مختلف جگہوں پر جا کر طلبا، شہریوں اور محروم طبقات کو ووٹ ڈالنے کے حوالے سے آگاہی دیتا ہے۔
"معذور افراد کے لیے پوسٹل بیلٹ پیپر کی سہولت دسیتاب ہے۔ اگر وہ گھر بیٹھے ووٹ ڈالنا چاہیں تو یہ سہولت بروقت حاصل کر سکتے ہیں اس حوالے سے آگاہی دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے اوریقیناً اس کی تشہیر بھی کی جانی چاہیے"۔
معذور افراد اور سیاسی جماعتیں
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ معذور افراد کا گھر سے پولنگ سٹیشن اور پھر بوتھ تک پہنچنا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسے ووٹرز کو دنیا بھر میں مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے اور پاکستان میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی ترجمان ثمر ہارون بلور بتاتی ہیں کہ ان کی پارٹی ہر کمزور کے ساتھ ہے اور پولنگ ڈے پر بھی ایسے ہر فرد تک پہنچنے کی کوشش کرے گی۔
مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا خواتین ونگ کی صدر صوبیہ شاہد کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہوگی کہ ہر شہری کو ووٹ ڈالنے کی طرف راغب کریں اور پارٹی خصوصی افراد کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ بوتھ تک رسائی میں بھی مدد کرے گی۔
پنجاب امپاورمنٹ ڈس ایبل ایکٹ 2022ء کہتا ہے کہ معذور افراد کو سیاسی سرگرمی میں شامل ہونے اور پسند کے امیدوار کو ووٹ کرنے کا پورا حق ہے۔ اس ایکٹ میں پولنگ سٹیشنز پر معذور افراد کی آسانی کے لیے سہولیات فراہم کرنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے
اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر شیخو پورہ ڈاکٹر وقار خان بتاتے ہیں کہ ضلع بھر کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر معذور افراد کی آسانی کے لیے ریمپ موجود ہوں گے جس کے لیے متعلقہ حکام نے پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کر کے جائزہ لیا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر حافظ آباد کے اسسٹنٹ ثناء اللہ بتاتے ہیں کہ اس ضلعے میں رجسٹرڈ خصوصی افراد کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ہے اور شیخوپورہ میں صرف چار ہزار رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم بد قسمتی سے دیہی علاقوں میں مقیم خصوصی افراد رجسٹریشن کے عمل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 7 فروری 2024