چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

postImg

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

حضرت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

توبہ اچکزئی ویسے تو ضلع قلعہ عبداللہ کی ریونیو حدود میں آتا ہے لیکن اس کے قریب واقع درجنوں دیہات ضلع چمن میں شامل ہیں جہاں ہر طرف سیب کے باغات ہی باغات نظر آتے ہیں۔

کمال الدین، توبہ اچکزئی ہی کے رہائشی ہیں جو 30 ایکڑ رقبے پر مشتمل باغ کے مالک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ افغان بد امنی کے دوران ان علاقوں میں بجلی طویل عرصہ بند رہی تاہم جب 1998ء میں سپلائی بحال کی گئی تو انہوں نے چار ٹیوب ویلز لگائے تھے۔

"چار سال قبل گرمی، خشک سالی اور لوڈ شیڈنگ ایک ساتھ شروع ہوئی تو ہم نے دو ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کر لیا لیکن پھر بجلی دو دو دن مسلسل معطل رہنے لگی تو باغ کو پانی پورا نہیں ہوتا تھا جس پر مجھے تیسرے ٹیوب ویل کو سولر اور چوتھے کو ڈیزل انجن پر لانا پڑا۔"

کمال بتاتے ہیں کہ توبہ اچکزئی میں تین ہزار کے قریب ٹیوب ویلز ہیں۔ ان کے مطابق صرف وہی نہیں یہاں کے 80 فیصد سے زائد باغبان سولر پر منتقل ہو چکے ہیں۔

"اب میں بادلوں کے دنوں یا اشد ضرورت میں ڈیزل انجن چلاتا ہوں ورنہ پانی کافی ہوتا ہے۔"

پاک افغان سرحد پر واقع جڑواں اضلاع قلعہ عبداللہ اور چمن کی لگ بھگ 50 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش باغبانی اور کاشت کاری سے وابستہ ہے۔

ضلع چمن میں انگور، انار، انجیر کے باغات ہیں اور سبزیاں بھی کاشت ہوتی ہیں۔ ضلع قلعہ عبداللہ میں خوبانی، انگور، انار، بلیک بیری، سنتروزہ (آلوچہ یا آلوبخارا) کے علاوہ تربوز اور خربوزہ بڑے پیمانے پر کاشت ہوتے ہیں۔

چمن شہر کے مشرق میں ندا کاریز کے رہائشی محمد خیر نے انجیر اور انار کا باغ لگا رکھا ہے۔ وہ تین ٹیوب ویل بجلی اور ایک ڈیزل پر چلاتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جون، جولائی میں باغ کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی تھی۔

"میرے لاکھوں روپے ڈیزل انجن چلانے پر خرچ ہو جاتے تھے۔ پانی نہ لگاؤں تو باغ سوکھنے لگتا تھا۔ ہم نے تنگ آ کر پچھلے پانچ سال میں سارے ٹیوب ویل سولر پر منتقل کر دیے۔ تب سے بجلی کے بل سے چھٹکارہ مل گیا ہے۔اب میں اپنے باغ میں انگور لگانے کا سوچ رہا ہوں۔"

مہنگی بجلی، اوربلنگ اور طویل لوڈشیڈنگ کے باعث یہاں صرف کاشت کار ہی نہیں گھریلو اور کمرشل صارفین بھی تیزی سے سولر پر منتقل ہو رہے ہیں۔

حاجی برات، چمن میں تاج روڈ پر سات سال سے 'ٹیسٹی فلورا' چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ  انہوں نے دو دکانوں کے لیے سولر پر ساڑھے گیارہ لاکھ روپے خرچ کیے ہیں اور روز کی 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے جان چھڑا لی ہے۔

"ہم تنگ آ چکے تھے۔ میرا ماہانہ بل 18 سے 20 ہزار روپے آتا تھا۔ لوڈشیڈنگ کے دوران جنریٹر کے ڈیزل پر روزانہ چار ہزار روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ سولر لگانے سے تیل کا خرچ (رات کا جنریٹر) ایک ہزار روزانہ پر آ گیا ہے اور بجلی کا بل آدھا رہ گیا ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بل میں ناجائز ٹیکس بھی نہیں دینا پڑتے۔ کل ملا کر انہیں ایک لاکھ روپے ماہانہ کا فائدہ ہوا ہے۔

"اب میں گھر میں بھی سولر لگانے کا پلان بنا رہا ہوں۔"

چمن کے رہائشی سید علی اچکزئی علاقائی سماجی و اقتصادی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق جڑواں اضلاع میں 12 ہزار کے قریب زرعی اور پرائیوٹ ٹیوب ویل ہیں۔ سات سال قبل جب کالعدم تنظیوں نے بجلی کے ٹاورز کو دھماکوں سے اڑایا تو یہاں ہفتوں بجلی بند رہی۔

"باغات سوکھنے لگے تو زمینداروں نے مجبوراً ڈیزل انجن چلانے شروع کیے جو بہت مہنگے پڑ رہے تھے۔ جس پر 50 فیصد سے زائد باغبانوں (باغ مالکان) نے قرض لے کر سولر پینل لگا لیے تھے۔ باقی لوگ بھی اب شمسی توانائی پر جا رہے ہیں۔"

حاجی کاظم خان اچکزئی، قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان میں 120 ایکڑ پر پھیلے ' قاسم باغ' کے مالک اور زمیندار ایکشن کمیٹی کے ممبر ہیں۔

انہوں نے 23 اقسام کے انگور، چار اقسام کے سیب کے علاوہ بلیک بیری اور خوبانی کے ہزاروں پودے لگا رکھے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں رجسٹرڈ یا سبسڈائزڈ زرعی ٹیوب ویلوں کی تعداد 27 ہزار437 ہے۔ 2021ء سے 2022ء تک ان ٹیوب ویلوں کا بل چھ ہزار روپے ماہانہ فکس تھا۔ تاہم 2022ء میں یہ رقم 12 ہزار روپے ماہانہ کردی گئی۔

"بارہ ہزار میں سے ساڑھے چھ ہزار روپے صوبائی اور وفاقی حکومتیں سبسڈی کی مد میں ادا کرتی تھیں جبکہ زمینداروں کو چھ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی تھی۔ تاہم ستمبر 2023ء میں بجلی کی فراہمی تین گھنٹے تک محدود کر دی گئی۔"

وہ کہتے ہیں کہ بجلی سپلائی میں تین گھنٹے کی کمی کے خلاف کاشتکاروں نے صوبہ بھر میں مظاہرے کیے۔ رواں سال دو سے 10 مئی تک وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا۔ جس پر وزیر اعلیٰ نے وفاق سے بجلی کی چھ گھنٹے فراہمی اور رجسٹرڈ ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کی سفارش کرنے کا وعدہ کیا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ٹیلی فونک رابطے پر لوک سجاک کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے زمینداروں کا مسئلہ حل کرا دیا ہے۔ بلوچستان کے تمام رجسٹرڈ (27 ہزار437 ) زرعی ٹیوب ویل سولر پر منتقل کر دیے جائیں گے اور بجلی بھی چھ گھنٹے سپلائی کی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کے لیے 55 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ہر زمیندار کو متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، زمیندار ایکشن کمیٹی کے ممبر اور ایکسین واپڈا کی موجودگی میں فی ٹیوب ویل 20 لاکھ روپے کا کراس چیک دیا جائے گا جس کا آغاز رواں ماہ میں ہی ہو گا۔

"وفاق اور صوبائی حکومت تین عشروں سے بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلوں کی بجلی کے بل پر سالانہ 24 ارب روپے سبسڈی دے رہے تھے جس کا 60 فیصد صوبائی حکومت اور 40 فیصد وفاقی حکومت دیتی تھی۔ سولرائزیشن کے بعد یہ سبسڈی ختم کر دی جائے گی۔"

قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کے زمیندار محمد ہاشم اس حکومتی فیصلے سے بہت خوش نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے زمینداروں کی مشکل کو اپنا مسئلہ سمجھ کر حل کرایا۔ اس قدام سے نہ صرف لوڈشیڈنگ، اوربلنگ اور مہنگی بجلی سے جان چھوٹے گی بلکہ کسان خوشحال ہوں گے اور ملکی وسائل کی بھی بچت ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شمسی توانائی، قبائلی ضلع خیبر کے لوگوں کی تکالیف کیسے کم کر رہی ہے؟

جہاں سولرائزیشن سے کاشت کار پر جوش دکھائی دیتے ہیں وہاں چمن کے شہریوں کو بھی ایک نوید سنائی جا رہی ہے۔

چمن کا نیا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) 2019ء میں فنکشنل ہوا تھا جہاں او پی ڈی میں روزانہ ڈیڑھ سو کے قریب مریض آتے ہیں۔ ہسپتال کے ڈائیلیسز یونٹ، ایکسرے، آپریشن تھیٹر، زچہ وبچہ ودیگر شعبوں میں لوڈشیڈنگ کے باعث مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ہسپتال انتظامیہ کے بقول بجٹ نہ ہونے کے باعث ڈائیلیسز یونٹ تو اگست 2022ء میں بند ہی ہو گیا تھا۔ تاہم لوک سجاگ کی ایک رپورٹ پر چیمبر آف کامرس نے ڈائیلیسز یونٹ کے جنریٹر چلانے کا ایک سال کا خرچ اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ 2023ء کے بعد سے یہ اخراجات ایک تاجر حاجی نظر جان برداشت کر رہے ہیں۔

اب نیو ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عبدالرشید ناصر نے خوشخبری دی ہے کہ ہسپتال میں 15 روز کے اندر سولر پینل نصب ہو جائیں گے۔ اس منصوبے سے ہسپتال میں تمام شعبے 24 گھنٹے فعال رہیں گے اور مریضوں کو بھی کسی حد تک ریلف ملے گا۔

یو این ایچ سی آر کے ضلعی افسر سلطان رودی بتاتے ہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ان کے ادارے کے تعاون سے سولر سسٹم لگایا جا رہا ہے کیونکہ یہاں میزبان کمیونٹی کے ساتھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کا بھی علاج معالجہ ہو رہا ہے۔

"شہر کے دو تعلیمی اداروں گورنمنٹ بوائز ہائیر سیکنڈری سکول اور گرلز ہائی سکول میں بھی 15 دن میں سولز سسٹم نصب کر دیے جائیں گے جہاں ہزاروں مقامی بچوں کے ساتھ افغانی بچے بھی پڑھتے ہیں۔"

تاریخ اشاعت 24 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

حضرت علی عطار کا تعلق بلوچستان کے ضلع چمن سے ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے مختلف نیوز ایجنسز اور پاکستان کے بڑے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہیں۔

چینی بنانے سے پہلے ہی شوگر ملز 25 ارب روپے کما لیتی ہیں

اس کے بال دھاگے کے تھےمگر ماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بیش قیمت تھی

واٹر کانفرنس: سندھ کا پانی دوسرے صوبوں کو ہرگز نہیں دیں گے

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.