راجن پور کے نواحی موضع کوٹ بہادر کے کاشتکارچودھری ظفر اقبال 35 ایکڑ رقبہ کاشت کرتے ہیں جس میں سے 20 ایکڑ ان کے گھر کے پاس ہے جبکہ 15 ایکڑ موضع کوٹلہ نصیر میں انہوں نے مستاجری (ٹھیکہ) پر لیا ہوا ہے۔ انہوں ںے 35 میں سے دو ایکڑ پر کپاس جبکہ باقی رقبے پر گنا (کماد) کاشت کر رکھا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ دو سال پہلے تک نہری پانی کی کمی یا عدم دستیابی کی صورت میں آبیاری کے لیے وہ ٹیوب ویل استعمال کرتے تھے جسے بجلی سے چلایا جاتا ہے۔ زرعی سبسڈائز ٹیرف کے باوجود ان کا ماہانہ بل تقریباً ساٹھ ہزار روپے آتا تھا اور انہیں کماد کی دس ماہ کی فصل پر پانی کی مد میں تقریباً چھ لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے تھے۔
دوسرا نقصان بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں ہوتا تھا کہ کھیت آدھا سیراب ہوتا اور بجلی چلی جاتی اور جب بجلی آتی تو پھر نئے سرے سے کھیت میں پانی لگتا جس سے کھیت کے کچھ حصوں میں بار بار پانی لگنے اور بعض کو بہت کم پانی ملنے کی وجہ سے پیداوار 15 سے 20 فیصد کم ہوتی تھی۔
دوسال قبل انہوں نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے اپنے گھر والے رقبے پر سولر سسٹم (شمسی توانائی کانظام) لگایا جو دن بھر کھیتوں کو مفت سیراب کرتا ہے۔ زیادہ گرمی کی وجہ سے اگر سارے رقبے کی آبیاری کرنا ہو تو پھر انہیں رات کے وقت بجلی استعمال کرنا پڑتی ہے جس کے نرخ اب پانچ گنا بڑھ چکے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان کا بجلی کابل ساٹھ ہزار روپے سے کم ہو کر تقریباً 12 ہزار روپے رہ گیا ہے۔
ظفر اقبال نے بتایا کہ ٹھیکے پر لیے کوٹلہ نصیر والے 15 ایکڑ رقبے پر کماد کی فصل اگانے پر ایک سیزن میں ان کے تقریباً چھ لاکھ روپے پیٹر انجن کے ڈیزل اور موبل آئل پر خرچ ہوتے تھے جو سولر سسٹم کی تنصیب کی وجہ سے کم ہو کر ستر ہزار روپے پرآ گئے ہیں۔
سولر سسٹم لگانے سے ڈیزل اور بجلی کی بچت کے ساتھ بروقت فصل کو پانی ملنے سے ان کی تقریباً 100 من فی ایکڑ پیداوار بھی بڑھی ہے جو کہ چھ لاکھ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
راجن پور کے شمال میں موضع قاسم پور کے کاشتکار نصراللہ اپنی ساڑھے چار ایکڑ وراثتی زمین کاشت کرتے ہیں جس میں ڈھائی ایکڑ ان کے گھر کے پاس ہیں جس پر انہوں نے کماد کاشت کیا ہوا ہے جبکہ دو ایکڑ ان کے گھر سے تین کلومیٹر دور ہیں۔
گھر کے پاس ڈھائی ایکڑ کو سیراب کرنے کے لیے انہوں نے گزشتہ برس دس لاکھ روپے کی لاگت سے سولر سسٹم نصب کیا جس سے ایک ہی روز میں ان کی کماد کی فصل سیراب ہو جاتی ہے جبکہ ہفتہ کے باقی چھ دن وہ دو ہزار روپے روزانہ کے حساب سے آس پاس کے کاشتکاروں کو پانی فراہم کرتے اور اس سے معقول آمدنی پاتے ہیں۔
نصراللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھر سے دور والے دو ایکڑ رقبے پر ڈیزل سے چلنے والا پیٹر انجن لگا رکھا ہے اور اس رقبے پر انہوں نے کپاس کاشت کی ہے جسے کماد کے مقابلے میں بہت کم پانی لگانا پڑتا ہے۔اس پر ان کا تقریباً چار سے پانچ ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ یوں دو ایکڑ کپاس کے پانی پر اب تک وہ تقریباً ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچ کر چکے ہیں جبکہ پیداوار صرف ایک لاکھ سینتالیس ہزار روپے کی ہوئی ہے۔
دس سال سے راجن پور میں سولر کے کاروبار سے منسلک نعمان شہزاد نے بتایا کہ دو سال پہلے تک سولر پینلز کے نرخ کم ہونے کے باوجود ان کی طلب زیادہ نہیں تھی۔ اس وقت شہر میں صرف تین دکانوں پر زرعی سولر سسٹم دستیاب ہوتا تھا جن کی تعداد اب بڑھ کر سات ہو گئی ہے۔
"پہلے ہماری دکان پر مہینے میں ایک دو سسٹم فروخت ہوتے تھے اب قیمتوں میں دوگنا اضافے کے باوجود تیس سے چالیس سسٹم فروخت ہوتے رہے ہیں اس کی وجہ نہری پانی کی کمی کے ساتھ بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑی حد تک اضافہ ہے۔"
سولر سسٹم کے زراعت پر اثرات سے متعلق ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (توسیع) محمد آصف کا کہنا ہے کہ راجن پور کی نہریں ششماہی ہیں جن میں فصل خریف کے لیے تو کچھ حد تک پانی دستیاب ہوتا ہے مگر ربیع میں یہ زیادہ تر خشک رہتی ہیں۔
نہری پانی کے متبادل کے طور پر کاشتکاروں نے بجلی کے کنکشن یا ڈیزل سے چلنے والے پیٹر انجن لگائے ہوئے ہیں اب چونکہ دونوں ذرائع آبپاشی کے اخراجات میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے تو کاشتکار سولر سسٹم پر ایک بار کا خرچہ کر کے کئی سالوں تک اپنے کھیتوں کو مفت میں سیراب کر کے بچت کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بلوں میں ڈالے گئے اضافی یونٹ: پنجاب بھر کے کسان شدید نالاں۔
ان کا کہنا ہے کہ سولر سسٹم کی وجہ سے راجن پور اور روجھان کا بارانی علاقہ اب تیزی سے آباد ہو رہا ہے۔ ضلع میں اس وقت تین لاکھ 69 ہزار864 ایکڑ پر کپاس، 90 ہزار ایکڑ پر چاول، ایک لاکھ پانچ ہزار ایکڑ پر کماد اور 35 ہزار ایکڑ پر دیگر فصلیں اور چارہ جات کاشت ہیں جنہیں سیراب کرنے کے کاشتکار تیزی سے سولر ٹیکنالوجی اپنا رہے ہیں۔ اس طرح ناصرف ان کی فصل پر اخراجات کم ہو گئے ہیں بلکہ فی ایکڑ پیداوار بڑھ گئی ہے اور ماحول میں ڈیزل سے پیدا ہونے والی آلودگی میں بھی کمی ہو رہی ہے۔
نصراللہ مطالبہ کرتے ہیں کہ دو سال میں سولر سسٹم کی قیمتیں دو گنا بڑھ گئی ہیں اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دوسرے رقبے پر سولر سسٹم نہیں لگا پا رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سولر سسٹم پر لگے تمام ٹیکس ختم کر کے اس ماحول دوست ٹیکنالوجی کو عام کرے جس سے ڈیزل کے درآمدی بل میں کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 28 جولائی 2023