سید محمد، ضلع خیبر کی باڑہ مارکیٹ میں گھریلو استعمال کی الیکٹرانکس فروخت کرتے ہیں لیکن آج کل سخت پریشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گاہک کوئی بھی الیکٹرانک کی اشیا تب تک نہیں خریدتا جب تک اسے چلا کر دیکھ نہ لے۔ مگر ان کی دکان میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گاہک کچھ خریدے بغیر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں۔
"میں نے اپنی دکان کے لیے بجلی کا کمرشل میٹر لگوایا تھا تاکہ کم از کم دکان داری کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن پہلے مہینے میں ہی 90 ہزار روپے کا بل آ گیا جس پر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کنکشن کٹوا دیا۔"
وہ بتاتے ہیں کہ کمرشل میٹر پر ملنے والی بجلی، گھریلو کی نسبت بہت مہنگی ہے۔ تاہم گھریلو صارفین کو 20 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہوتا ہے جبکہ کمرشل فیڈر پر لوڈشیڈنگ کا دورانہ کم ہے مگر بھاری بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے مارکیٹ میں بہت کم لوگوں نے بجلی کا کنکشن لے رکھا ہے۔
پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) نے اس صورت حال کے پیش نظر 2019ء میں قبائلی اضلاع کے تجارتی مراکز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
صوبائی حکومت کے تحت "سولرائزیشن آف 13 منی گرڈ " کے نام سے شروع ہونے والا منصوبہ 30 جون 2023ء تک مکمل ہونا تھا لیکن یہ پراجیکٹ اب تک آپریشنل نہیں ہو سکا۔
ٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے ضم شدہ اضلاع کے دیہی علاقوں میں 800 میگا واٹ بجلی درکار ہے۔ تاہم اس وقت 280 میگاواٹ تک بجلی مہیا کی جا رہی ہے اس طرح تقریباً 600 میگا واٹ کا شارٹ فال ہے۔
باڑہ مارکیٹ کے تاجر رہنما علی محمد خان بتاتے ہیں کہ ان کی تنظیم کے ساتھ آٹھ ہزار دکانیں رجسٹرڈ ہے جن میں سے ڈیڑھ سو کے قریب دکان دار ٹیسکو سے 70 روپے یونٹ مہنگی بجلی خرید رہے ہیں اور باقی دن بھر جنریٹر کے شور میں دکانداری کرنے پر مجبور ہیں۔
"ہمیں بتایا گیا تھا کہ تاجروں کے لیے حکومت جلد ہی شمسی توانائی کے کنکشن فراہم کرے گی لیکن چار سال بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی ابھی تک اس حوالے سے کوئی اطلاع یا معلومات نہیں دیں۔"
پیڈو کی سالانہ پراگریس رپورٹ 22-2021ء میں بتایا گیا تھا کہ 'سولرائزیشن آف 13 منی گرڈز' منصوبے کے آغاز میں چار منی گرڈز (ڈی آئی خان، کوہاٹ، ایف آر لکی اور ایف آر بنوں) بنانے کا پروگرام ترک کر دیا گیا تھا۔ باقی نو میں سے پانچ گرڈز کا کام مکمل ہو چکا ہے، پشاور اور شمالی وزیرستان میں کچھ کام ہوا ہے تاہم خیبر اور جنوبی وزیرستان میں ابھی (2021ء تک)کام شروع کیا جانا باقی ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر پیڈو (الیکٹریکل) نعمان ڈار بتاتے ہیں کہ نو سولر منی گرڈز میں سے ہر ایک سے 175کلوواٹ بجلی پیدا ہو گی جو 130 سے زائد دکانوں کو فراہم کی جائے گی۔ اس طرح اس پراجیکٹ سے نہ صرف مجموعی طور پر سالانہ پانچ کروڑ 31 لاکھ 50 ہزار روپے کی بچت ہوگی بلکہ نیشنل گرڈ پر اضافی بوجھ بھی کم ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان نو منی گرڈز کے لیے 75 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے اب تک 40 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر اس پراجیکٹ پر 80 فیصد سول، 80 فیصد الیکٹرو مکینکل ورک اور 55 فیصد لائنیں بچھانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر پیڈو اسفند یار خٹک نے لوک سجاگ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ باڑہ (خیبر) میں 2020ء میں کام کا آغاز کردیا گیا تھا۔
منصوبے کے لیے آٹھ کنال زمین ضلعی انتظامیہ نے خریدی جو ایک بڑا مسئلہ تھا کیونکہ ضم اضلاع میں زمین کا باقاعدہ ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ باڑہ سولر منی گرڈ کے لیے چار کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ اب تک یہاں 330 سولر پینل نصب کیے جا چکے ہیں لیکن منصوبے کی تکمیل میں فنڈز کی کمی سمیت کئی رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بجلی کی لائنیں بچھانے پر بھی مقامی لوگوں کو اعتراض ہے۔
پولز کے بغیر بجلی کی ترسیل؟
شیر علی خان مقامی کاشت کار ہیں جن کا کھیت باڑہ منی سولر گرڈ کے قریب واقع ہے۔ انہیں اپنی زمین میں کھمبوں کے بغیر تار بچھانے پر سخت اعتراض ہے۔
"تاریں میری کھیت سے گزریں گی تو میں یہاں پانی کیسے لگاؤں گا؟ میں اپنی اور کھیت سے گزرنے والے لوگوں کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتا"۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اس گرڈ سے بجلی کی ترسیل کے لیے اگر واپڈا کی طرح پولز لگا دے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس سےکھیت یا کسی راہگیر کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
سولر منی گرڈ کس کی زیر نگرانی ہو گا
پراجیکٹ ڈائریکٹر بتاتے ہیں کہ دکانوں پر میٹرز کی تنصیب اور منی گرڈ سے سپلائی شروع ہونے کے بعد یہ منصوبہ ڈپٹی کمشنرکے حوالے کر دیا جائے گا اور اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری تاجروں برادری کی مشاورت سے ایک کمیٹی کو سونپی جائے گی۔
"دوسال تک سسٹم کی دیکھ بھال اور مرمت کی ذمہ دار انسٹال کرنے والی کمپنی پر ہو گی۔ گرڈ کی بجلی کی قیمت 16 روپے یونٹ رکھی جائے گی اور بل کے رقم کمشنر کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگی جو گرڈ اور سسٹم کی دیکھ بھال پر خرچ ہو گی۔"
انہوں نے بتایا کہ یہاں سے 24 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی اور خراب موسم یا کسی دوسرے مسئلے کے صورت میں بیٹر ی بیک اپ استعمال کیاجائے گا۔
منی گرڈ کی حفاظت کے مسائل
باڑہ میں قائم سولر منی گرڈ کے لیے آٹھ کنال زمین کے گرد چاردیواری تو موجود ہے لیکن یہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور دیوار پر لگے خار دار تار بھی نیچے جھول رہے ہیں۔ اس سول ورکس کے دوران احاطے سے بارش کے پانی کی نکاسی کا خیال تک نہیں رکھا گیا جو قیمتی مشینری کے لیے خطرہ ہے۔
منی سولر گرڈ ایک نجی کمپنی بنا رہی ہے جس کے مالک روخیل خان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیڈو نے انہیں ٹھیکہ 2019ء میں دیا تھا لیکن ضلعی انتظامیہ نے اس منصوبے کے لیے زمین جنوری 2023ء میں خریدی۔اس کے باوجود کنٹریکٹ کے مطابق انہوں نے چار ماہ میں تعمیراتی کام مکمل کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ منصوبے کی لاگت کا تخمینہ چار کروڑ 30 لاکھ روپے تھا جس میں سے انہیں صرف 70 فیصد فنڈز ملے ہیں۔ باقی رقم ابھی تک جاری نہیں کی گئی جس کے لیے وہ عدالت جانے کا سوچ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں.
گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟
" گرڈ پر موجود چوکیدار کو ایک سال سے تنخواہ نہیں دی گئی جو ہمارا مسئلہ نہیں۔ تاہم جب تک بقایا رقم نہیں ملے گی ہم گرڈ پر مزید کام نہیں کریں گے۔ سولر منی گرڈ کی حفاظت اور منٹیننس پیڈو کی ذمہ داری ہے لیکن وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے۔ ہمیں اس کام میں نقصان ہو رہا ہے کیونکہ آلات کی قیمتوں میں دو سال پہلے ہی کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا"۔
تاہم پراجیکٹ ڈائریکٹر پیڈو اسفند یار خٹک ٹھیکیدار کا موقف درست تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ گرڈ جب مکمل ہو جائے گا تو پیڈو اسے ٹیک اوور کر کے ضلعی انتظامیہ کے سپرد کر دے گی لیکن اس سے پہلے سائٹ کی حفاظت ٹھیکیدار کا کام ہے۔
"البتہ ہم فنڈز کے فوری اجرا کے لیے حکام سے مشاورت کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ منصوبہ جلد فنکشنل کردیا جائے گا۔"
دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کے عہدیدار کہتے ہیں کہ فنڈز کے حصول سمیت اس منصوبے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا پیڈو کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
تاریخ اشاعت 20 مئی 2024