محمد عثمان تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال ڈوگرہ (باڑہ) میں ایکسرے تھامے تیزی سے ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے سات سالہ بھیتجے اسد خان موٹر سائیکل کی ٹکر سے زخمی ہو گئے تھے جنہیں وہ فوری طور پر یہاں لائے۔ ڈاکٹر وں نے ایکسرے تجویز کیا جو اُنہوں نے اسی ہسپتال سے کرا لیا ہے۔
عثمان بتاتے ہیں کہ ان کا گاؤں ہسپتال کے قریب ہی پڑتا ہے اور وہ اکثر علاج معالجے کے لیے آتے رہتے ہیں۔
"پہلے یہاں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں معمولی ٹیسٹ کرانے کے لیے بھی چار کلومیٹر دور باڑہ بازار جانا پڑتا تھا۔ اس سے ایک تو پیسے اور وقت کا ضیاع ہوتا تھا دوسرے مریض کو لے جانا زیادہ بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔"
وہ کہتے ہیں کہ جب سے یہاں تحصیل ہیڈکواٹرز ہسپتال میں شمسی توانائی کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ مریضوں کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی، بیشتر ٹیسٹ اور ایکسرے یہیں ہو جاتے ہیں۔
ٹرابیل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کی مہیا کردہ دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان اور سابق چھ ایف آر ریجنز میں مجموعی طور پر ایک ہزار 245 میگاواٹ بجلی درکار ہے۔
تاہم ٹیسکو کا دعویٰ ہے کہ ان علاقوں میں 937 میگا واٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے جس میں سے گھریلو صارفین کو 780میگاواٹ، انڈسٹری کو 137 میگا واٹ اور کمرشل علاقوں کو 20 میگاواٹ مہیا کی جاتی ہے۔
یعنی ٹیسکو کو بظاہر 308 میگا واٹ کے مجموعی شارٹ فال کا سامنا ہے لیکن قبائلی اضلاع میں گھریلو صارفین کو دو سے چار گھنٹے مفت بجلی ملتی ہے جبکہ صنعتی اور کاروباری شعبے کو بل کی ادائیگی پر روزانہ 20 گھنٹے سے زیادہ سپلائی دی جا رہی ہے۔
ضلع خیبر میں بنیادی مراکز صحت کے علاوہ لنڈی کوتل میں ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرز ہسپتال (ڈی ایچ کیو) قائم کیا گیا ہے۔ جمرود اور باڑہ میں دو تحصیل ہیڈکوارٹر (ٹی ایچ کیو) کام کر رہے ہیں۔
ڈی ایچ کیو لنڈی کوتل میں صرف 10 سے 12 گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے جہاں سولر سسٹم بھی بعض مسائل کی وجہ سے غیر فعال ہوچکا ہے۔
بجلی کی جزوی دستیابی کے باعث اس ہسپتال کا بلڈ بینک بند ہو چکا اور بعض دیگر شعبے بھی متاثر ہوئے ہیں۔
ٹی ایچ کیو جمرود کو ایکسپریس لائن سے روزانہ تقریباً 22 گھنٹے بجلی مہیا کی جاتی ہے۔اس ہسپتال کا پرانا سولر سسٹم خراب ہو گیا تھا جس کی وجہ سے حال ہی میں ایمرجنسی، لیبارٹری اور لیبر روم کے لیے الگ سسٹم لگایا گیا ہے۔
ٹی ایچ کیو ہسپتال ڈوگرہ (باڑہ) اگرچہ پشاور سے 15 اور باڑہ باراز سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تاہم یہاں بجلی دن میں کبھی چار تو کبھی دو گھنٹے میسر ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو فیڈر سارا دن ہی بند رہتا تھا لیکن اب یہاں بھی 90 کلو واٹ کا نیا سولر سسٹم چل پڑا ہے۔
خیبر ایجنسی میں ستمبر 2009 ء میں بدامنی کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے تھے۔ تاہم جب 2015ء میں آٰئی ڈی پیز کی واپسی شروع ہوئی تو علاقے میں بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے حکومت اور غیر سرکاری امدادی اداروں نے کام شروع کر دیا۔
یو ایس ایڈ کی مالی معاونت سے دیگر اقدامات کے ساتھ ٹی ایچ کیو ہسپتال باڑہ میں تین سے چار کروڑ روپے کی لاگت سے 72 کلو واٹ کا سولر سسٹم لگایا گیا جو 2018ء میں ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کیا گیا تھا۔
تاہم یہ سولر سسٹم ہسپتال کو بجلی فراہم نہ کر سکا۔ ہسپتال انتظامیہ نے امدادی ادارے اور متعلقہ کنسلٹنٹ کو بار بار یاد دہانی کرائی مگر کسی نے توجہ نہ دی۔
ڈاکٹر عالمگیر، ٹی ایچ کیو باڑہ کے انچارچ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہسپتال کو اس کے قریب واقع فیکٹری کی لائن سے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ جب یہ فیکٹری بند ہو جاتی تو ہسپتال میں مسلسل کئی کئی روز بجلی نہیں ہوتی تھی جس کی وجہ سے او پی ڈی میں مریضوں کی یومیہ اوسط تعداد 30 رہ گئی تھی۔
"ہمارے ہسپتال سے لوگوں کو بہت شکایات ہوتی تھیں کہ اُن کے ٹیسٹ، ایکسرے اور سرجری ہسپتال میں نہیں کی جاتی۔ یہ کہ ڈاکٹر انہیں نجی لیبارٹریوں اور پشاور کے سرکاری ہسپتالوں میں بھیج دیتے ہیں۔"
لیبارٹری ٹیکنیشن فضل الرحمان ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ٹیست تاخیر کا شکار ہوتا یا مریض کے لواحقین کو کسی نجی لیبارٹری جانے کو کہا جاتا تو لوگ بہت شور شرابا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تھی۔
ڈاکٹر عالمگیر نے بتایا کہ محکمہ صحت خیبر اور منتخب نمائندوں کی کوشش سے عالمی بینک کے تکینکی وفود نے ہسپتال کے کئی دورے کیے جس کے بعد یہاں سولر سسٹم کو اپ گریڈ کر کے فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
"اب ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے یہ اہم منصوبہ مکمل ہوا ہے جس کے تحت ہسپتال کے سولر سسٹم کو 72سے اپ گریڈ کر کے 90کلو واٹ کر دیا گیا ہے۔ مستقبل میں مسائل سے بچنے کے لیے ہر شعبے میں الگ الگ انورٹر لگایا گیا ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال کے تمام شعبے شمسی توانائی پر چل رہے ہیں۔ مریضوں کے ایکسرے اور تشخیصی ٹیسٹ سرکاری لیبارٹری میں ہو رہے ہیں اور رزلٹ بھی بروقت مل جاتے ہیں۔ او پی ڈی میں اب بتدریج بہتری آ رہی ہے جس سے روزانہ علاج کے لیے آنے والے مریضوں کی تعداد 600 تک پہنچ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟
باڑہ کے رہائشی 30 سالہ صابر خان ٹی ایچ کیو ہسپتال میں علاج کے لیے آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ روز سے ان کی طبیعت خراب تھی تو دوستوں نے انہیں اسی سرکاری ہسپتال میں علاج کا مشورہ دیا۔
" پہلے ہمیں یہاں بہت مشکل ہوتی تھی، مریض کو باڑہ بازار تک خوار ہونا پڑتا تھا۔ لیکن ماضی کے برعکس آج میرا فوری معائنہ اور بروقت ٹیسٹ ہوئے ہیں۔"
خیبر پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو)کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اسفند یار خان بتاتے ہیں کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی معاونت سے 187 بنیادی مراکز صحت کو شمسی توانائی کی سہولیات مہیا کی گئی ہے۔ تاہم ان میں ضم قبائلی اضلاع شامل نہیں جہاں صوبے کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ لوڈشیڈنگ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ضم قبائلی اضلاع میں ساڑھے تین ہزار اور باقی صوبے میں چھ ہزار 440 مساجد کو شمسی توانائی کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔
"صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کے 500 سمیت خیبر پختونخوا میں ڈیڑھ ہزار دینی مدارس کو بھی شمسی توانائی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم پہلے محکمہ اوقاف سے معلومات جمع کی جائیں گی اور پھر محکمہ داخلہ کی تصدیق کے بعد اس منصوبے پر کا م شروع کیا جائے گا۔"
تاریخ اشاعت 11 جولائی 2024