گذشتہ برس کی موسمیاتی تباہی نے بلوچستان کے دورافتادہ ضلع کوہلو میں ایک نئے ذریعہ معاش کے پنپنے کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔
ضلع کوہلو سنگلاخ پہاڑوں کا علاقہ ہے۔ اس کا رقبہ تو ساڑھے سات مربع کلومیٹر ہے لیکن آبادی کُل سوا دو لاکھ افراد ہے یعنی 28 افراد فی مربع کلومیٹر۔ یہاں ایک گھرانہ اوسطاً آٹھ افراد پر مشتمل ہے گویا ہر دو مربع کلومیٹر میں سات گھرانے آباد ہیں۔ (پورے صوبہ پنجاب میں ہر مربع کلومیٹر میں اوسط 535 افراد آباد ہیں۔)
ضلع کوہلو مری قبیلے کا گڑھ ہے۔ یہاں کی 97 فیصد آبادی کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔
قبیلے کا بنیادی ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے جن میں زیادہ تر بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں۔ یہ لوگ سال بھر ضلع کی قدرتی چراگاہوں میں گھوم پھر کر یہ مویشی پالتے ہیں۔
یہاں تعلیمی سہولیات ناپید ہیں۔ پاکستان ایجوکیشن ڈسٹرکٹ رینکنگ کے مطابق ملک کے 145 اضلاع میں کوہلو 116ویں نمبر ہے۔ 2007ء میں ایک تعلیمی اسیکم کے توسط سے کوہلو میں تعلیمی بہتری آئی ہے۔ اس کے سکیم کے تحت دو ہزار سے زیادہ بچے پاکستان بھر کے اچھے اداروں میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں جن میں سے کئی اب ملک کے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ضلع کوہلو میں چھوٹے ندی نالے موجود ہیں جہاں ڈیم بنا کر پانی جمع کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف زراعت کو ممکن بنا دیتا ہے بلکہ زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جاتی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلع میں گزشتہ تین دہائیوں میں قدرتی ندی نالوں پر تین چھوٹے ڈیم تعمیر کئے گئے جس سے کچھ رقبہ قابل کاشت ہو گیا۔ ان کے نام نصیوبہ، ترخہ اور تنگہ ڈیم ہیں۔
اس کے بعد ضلع میں گندم، کپاس، ٹماٹر، مرچ، پیاز، کدو، توری و دیگر سبزیاں کاشت کی جانے لگیں۔ پھلوں کے کچھ باغات بھی لگائے گئے۔ یہاں کی آب و ہوا کو بادام، انار اور زردآلو کے باغات کے لیے سازگار مانا جاتا ہے۔
گذشتہ برس اگست کے وسط میں یہاں مسلسل 50 گھنٹے تک ہونے والی موسلادھار بارش نے تباہی مچائی اور ان ڈیمز کو شدید نقصان پہنچایا جس سے ضلع میں زراعت کا سفر رک گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سیلاب نے 12 سو ایکڑ کپاس، ایک سو 12 ایکڑ مرچ اور 27 ایکڑ پر کھڑی ٹماٹر کی فصلوں کو تباہ کیا جبکہ 112 ایکڑ پر کھڑے میوہ جات کے باغات کو بھی نقصان پہنچایا۔ سیلابی ریلوں کی لپیٹ میں آ کر تین ہزار سات سو بھیڑیں، ڈیڑھ ہزار بکریاں اور 70 گائیں بھی ہلاک ہو گئیں۔
تنگہ ڈیم میں پڑے ایک شگاف کی کئی سال سے مرمت نہیں ہو سکی تھی۔ سیلابی ریلوں نے اسے مزید نقصان پہنچایا اور کوہلو قصبہ کے نواحی علاقے کلی علن اوریانی کو مکمل طور پر ملیامیٹ کر دیا۔
2022ء کے سیلاب نے صوبہ بلوچستان کے پورے آبپاشی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 169 چھوٹے ڈیمز کو نقصان پہنچا جن میں سے 40 مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور اب پانی کی سٹوریج کے کام نہیں آ سکتے۔
یہ بھی پڑھیں
راولپنڈی کو پانی فراہم کرنے کے لیے ددہوچھہ ڈیم کی تعمیر: 'یہ منصوبہ ہمارا معاشی گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے'۔
ڈیمز ٹوٹنے کے سب سے زیادہ واقعات قلعہ عبداللہ میں پیش آئے جہاں موسلادھار بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 38 ڈیمز تباہ ہوئے۔ کوئٹہ میں 15، ضلع خضدار میں 11، ڈیرہ بگٹی میں نو، لسبیلہ میں بھی نو ،کچھی میں سات، چاغی، نوشکی، ہرنائی، ژوب، موسیٰ خیل میں پانچ پانچ ڈیمز ناکارہ ہوئے۔ ضلع خاران، واشک، مستونگ میں بھی چار چار، کیچ میں تین، قلات میں ایک، دُکی میں دو اور کوہلو میں بھی دو ڈیمز متاثر ہوئے۔
بلوچستان کے وزیر زراعت اسد بلوچ کے مطابق صوبے کے 34 میں سے 31 اضلاع میں سیلابی صورت حال کی وجہ سے زرعی زمینیں برباد ہو گئی ہیں اور ان علاقوں میں حکومت متاثرین اور خصوصاً زمینداروں کو کسی قسم کی مدد پہنچانے میں اب تک ناکام ہے۔
ان ڈیمز کی تباہی کی وجوہات کی تحقیقات کرنے کے بارے میں بھی سرکاری حلقوں میں اب تک کوئی تجویز زیر غور نہیں۔
ضلع کوہلو کو بلوچستان میں باغی سرگرمیوں کا مرکز مانا جاتا ہے۔ یہاں روزگار کے مواقع مفقود ہیں اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر نے زراعت کے پنپنے کی جو امید بیدار کی تھی اس پر گذشتہ برس کی موسمیاتی تباہی نے پانی پھیر دیا ہے۔
تاریخ اشاعت 31 جنوری 2023