''دوا نہ ملی تو ہمارے بچوں کے چہرے داغ دار ہو جائیں گے''

postImg

دوران بلوچ

postImg

''دوا نہ ملی تو ہمارے بچوں کے چہرے داغ دار ہو جائیں گے''

دوران بلوچ

درخان مری کا نو سالہ بیٹا قاسم دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ نہیں لیتا اور الگ تھلگ رہتا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک پھوڑا ہے جس کی وجہ سے دوسرے بچے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کمتر سمجھتے ہیں۔ بگڑے زخم کی شکل اختیار کر جانے والے اس پھوڑے میں شدید خارش رہتی ہے جس کے ساتھ قاسم کو ہر وقت تیز بخار اور جسم میں درد کی شکایت بھی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس بیماری کی جو دوا لکھ کر دی ہے وہ نہ تو مقامی سرکاری ہسپتال میں دستیاب ہے اور نہ ہی کسی میڈیکل سٹور پر ملتی ہے۔

درخان مری کسان ہیں اور وہ بلوچستان میں ضلع کوہلو کی تحصیل ماوند میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے بیٹے کو کیوٹینئس لیشمنایاسس نامی جلدی بیماری لاحق ہے جو ایک مخصوص مکھی کے کاٹنے سے لاحق ہوتی ہے۔ اس میں متاثرہ فرد کی جلد پر ایک یا اس سے زیادہ دانے نکل آتے ہیں جن میں ہر وقت تکلیف دہ سوزش رہتی ہے۔

اس بیماری کی دوا عام نہ ہونے کے باعث درخان مری ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ ان کے علم میں آیا ہے کہ اگر کوئی اس مرض سے صحت یاب ہو جائے تو تب بھی اس کی جلد پر پھوڑے کا نشان باقی رہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس بیمارے کی دوا کا فوری بندوبست نہ کیا تو قاسم سمیت بہت سارے بچوں کے چہرے ہمیشہ کے لیے 'داغ دار' ہو جائیں گے۔

ڈاکٹروں کے مطابق فی الوقت اس بیماری کا واحد علاج 'گلوکن ٹائم' نامی انجکشن ہے جو بلوچستان میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور بین الاقوامی فلاحی طبی تنظیم میڈیسن سان فرنٹیئرز (ایم ایس ڈی) کے ذریعے ہی آتا ہے۔

2017ء کے اوائل سے مارچ 2023ء تک صوبے میں اس بیماری سے 95 ہزار 900 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں اس بیماری پر قابو پانے اور اس کے علاج کے لیے عالمی ادارہ صحت سے وابستہ افسر داؤد خان بتاتے ہیں کہ صوبائی محکمہ صحت انہیں بیماری کے حوالے سے اعدادوشمار فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر ڈبلیو ایچ او گلوکن ٹائم انجکشن کا بندوبست کر کے دیتا ہے۔

جن لوگوں کی انجکشن تک تک رسائی نہیں ہوتی وہ اس بیماری کے دانوں کا علاج کرنے کے لیے مختلف ٹوٹکے آزماتے ہیں۔ اس سلسلے میں مخصوص درختوں کے پتوں کا مواد بھی دانوں اور زخموں پر لگایا جاتا ہے تاہم ایسے طریقوں کی افادیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

درخان مری نے بھی بہت سے ٹوٹکے آزمائے، دم کروایا اور تعویز لیے لیکن ان کا بیٹا صحت یاب نہ ہو سکا۔

جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے بچے کو کیوٹینئس لیشمنایاسس لاحق ہے تو انہوں ںے جیسے تیسے ڈیرہ غازی خان سے ایک انجکشن منگوا لیا۔ لیکن ان کے بیٹے کو مزید دو انجکشن لگائے جانا ہیں جبکہ اس وقت ایک انجکشن کی قیمت تین ہزار روپے ہے۔

درخان مری بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے بعد زرعی رقبے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور پانی ذخیرہ کرنے والے بند تباہ ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں وہ بیروزگار ہیں اور ان کے لیے ییٹے کے علاج کے لیے رقم کا بندوبست کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

کوہلو میہں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اصغر مری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ 'ایم ایس ڈی' کی جانب سے انہیں پچھلے دو برس میں تقریباً 50 انجکشن دیے گئے ہیں لیکن اس بیماری کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
چونکہ یہ ملیریا کی طرح عام بیماری بن چکی ہے اور اس سے جان کا خطرہ بھی نہیں ہوتا اس لیے عام لوگ اور حکام اس کی جانب زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

محکمہ صحت کے ضلعی سربراہ ڈاکٹر گہنوار مری بتاتے ہیں کہ کوہلو کے دیہی علاقوں سے ہر سال اس بیماری کے تقریباً چار سو مریض سامنے آتے ہیں۔ چونکہ بیشتر دیہی مراکز صحت میں گلوکن ٹائم انجکشن دستیاب نہیں ہوتا اس لیے بہت سے مریضوں کی حالت بگڑ بھی جاتی ہے۔

بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ کیوٹینئس لیشمنایاسس کے علاج کے لیے پاکستان میں بھی ایک دوا تیار کی گئی ہے لیکن تاحال اس کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی۔

کوہلو میں ایک میڈیکل سٹور کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ اس بیماری کے علاج کی دوا پاکستان میں بنا لی گئی ہے لیکن اسے بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ڈرگ انسپکٹر کسی میڈیکل سٹور سے یہ دوائی پکڑ لیں تو اس پر بھاری جرمانہ عائد کر دیتے ہیں۔ اسی لیے میڈیکل سٹور مالکان اسے چھپا کر رکھتے ہیں اور عام فروخت نہیں کرتے۔

عالمی ادارہ صحت نے مارچ 2019ء میں پاکستانی حکام کو خبردار کیا تھا کہ ملک میں گلوکن ٹائم کے نام سے جعلی انجکشن فروخت ہو رہے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی کوئٹہ میں جعلی گلوکن ٹائم کی فراہمی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔

بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر نور قاضی واضح کرتے ہیں کہ اس بیماری کے علاج کے لیے پاکستان میں کوئی دوا تیار نہیں ہوتی۔ جس انجکشن کی مقامی سطح پر تیاری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں ہے اس لیے نہ تو اسے سرکاری طور پر خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی میڈیکل سٹور اسے بیچنے کا مجاز ہے۔

بیماری کیسے پھیلتی ہے

کوہلو اور اس کے گردونواح میں بلوچی اور کھیترانی زبانوں میں اس مرض کو 'ورخ دانغ' کہتے ہیں جبکہ پشتون آبادی اسے "کال دانہ" کہتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یہ مرض لیشمانیا نامی یک خلوی طفیلیے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بیماری کی تین اقسام ہیں جنہیں وسرل، کوٹینئس اور میوکو کیوٹینئس کہا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کی پہلی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد کو منتقل نہیں ہوتی۔

اس بیماری کے ماہر ڈاکٹر عطا اللہ مری کا کہنا ہے کہ سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کے آغاز پر اس مرض کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے۔ کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ، مچھر دانی کا استعمال اور صفائی اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر ہیں۔ چونکہ یہ مکھی چند فٹ سے زیادہ اونچائی پر نہیں اڑ سکتی لہٰذا ڈاکٹر رات کو قدرے اونچی جگہ سونے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اگر ملیریا پھیل رہا ہے تو یہ 'مالک کی مرضی' ہے: تحصیل جوہی میں ملیریا کی وبا سے تین ماہ میں 100 سے زیادہ اموات

اس بیماری کے مریضوں کی مشکلات صحت یاب ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتیں۔ ان کی جلد پر دانوں اور زخموں کے نشان رہ جاتے ہیں جس کے باعث انہیں امتیازی سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں اور عورتوں کے لیے یہ بیماری نفسیاتی دباؤ کا سبب بھی بنتی ہے۔

امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر سال اس بیماری کے 21 سے 35 ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ ان میں بیشتر لوگوں کا تعلق خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ہوتا ہے لیکن اب یہ بیماری رفتہ رفتہ پنجاب اور سندھ میں بھی پنجے گاڑ رہی ہے۔

تاریخ اشاعت 7 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

دوران بلوچ کا تعلق کوہلو بلوچستان سے ہے۔ وہ پیشہ ور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان کے مختلف مین اسٹریم میڈیا چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.