اٹھارہ سالہ اویس احمد، ٹنڈو محمد خان کے نواحی گاؤں 'بھائی خان تالپور' کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد جب پہلی بار انہیں سکول چھوڑنے آ رہے تھے تو راستے میں ایک بڑی زیر تعمیر عمارت کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے بتایا کہ یہاں پبلک سکول بن رہا ہے۔
"پھر روزانہ ہم اس سڑک سے گزرتے تھے تو میرے والد اکثر مجھے کہتے کہ جب یہ سکول شروع ہو گا میں آپ کو اسی سکول میں داخل کراؤں گا۔ اب بابا اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور میں نے انٹر پاس کر لیا ہے مگر پبلک سکول کی عمارت ابھی تک نامکمل اور ویران پڑی ہے۔"
وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے دور میں ستمبر 2007ء میں پراونشل ڈیویلپمینٹ ورکنگ پارٹی نے امبریلا سکیم کے تحت سندھ کے سات اضلاع میں ہائیر سیکنڈری پبلک سکول بنانے کی منظوری دی تھی جن میں سانگھڑ، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہیار، گھوٹکی، مٹیاری، قمبر ایٹ شہدادکوٹ اور کشمور ایٹ کندھ کوٹ شامل تھے۔
ایجوکیشن ورکس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹنڈو محمد خان پبلک سکول کے لیے 47 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے مختص کیے گئے تھے۔ 2008ء میں پی پی حکومت نے پھلکارہ روڈ پر ایوب ہوٹل سٹاپ کے قریب اس منصوبے کے لیے سابق وزیر محسن شاہ بخاری سے 50 ایکڑ زمین خریدنے کی منظوری دی۔
پلان کے تحت 25 ایکڑ زمین سکول کی عمارت و دیگر ضرویات جبکہ 25 ایکڑ ادارے کے رننگ اخراجات پورے کرنے کے لیے زرعی مقاصد کی خاطر مختص کی گئی تھی۔ تاہم اس منصوبے پر 2009ء میں کام شروع کیا گیا۔
ایگزیکٹو انجنیئر ورکس محبوب میمن بتاتے ہیں کہ منصوبے میں چھٹی جماعت سے بارہویں تک کی کلاسز کے کلاس رومز، انفارمیشن ٹیکنالاجی ڈیپارٹمینٹ، طلباء کے لیے دو منزلہ ہاسٹل بشمول ڈائینگ ہال اور پرنسپل کی رہائش گاہ بنائی گئی ہے۔
"یہاں ایک بڑا آڈیٹوریم، ٹیچنگ سٹاف کوارٹرز، جونیئر عملے کی رہائش کے لیے فلیٹس، ایک مسجد، پیش امام کی رہائش گاہ، کینٹین، اوور ہیڈ برج، انڈرگراؤنڈ واٹر ٹینک، بجلی و پانی کی فراہمی، کرکٹ گراؤنڈ، باؤنڈر وال ودیگر سہولیات بھی دی گئی ہیں۔"
مگر نہ صرف یہ پبلک سکول آج تک بچوں کے لیے کھولا نہیں جا سکا بلکہ امبریلا سکیم کے تحت دیگر اضلاع میں قائم باقی چھ پبلک سکولوں کا حال بھی یہی بتایا جاتا ہے۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع ٹنڈو محمد خان کی کل آبادی سات لاکھ 26 ہزار 119 نفوس پر مشتمل ہے جس کی تفصیلات ابھی تک جاری نہیں گئیں۔ تاہم ڈسٹرکٹ پروفائل بتاتا ہے کہ یہاں کی آبادی میں مرد 52 فیصد جبکہ خواتین 48 فیصد ہیں۔
بدقسمتی سے ٹنڈو محمد خان کا شمار سندھ کے سب سے کم شرح خواندگی والے اضلاع میں ہوتا ہے جہاں ایک طرف تعلیم کے مواقع کم ہیں تو دوسری طرف غربت بہت زیادہ ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی 2023ء میں جاری کی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ سندھ میں مجموعی طور پر مردوں (عمر 15 سے 49 سال) میں شرح خواندگی 59 فیصد اور عورتوں میں 40.9 فیصد ہے جبکہ ضلع ٹنڈو محمد خان میں یہ شرح بالترتیب 44.2 اور 18.3 فیصد ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ایم پی آئی (ملٹی پل ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس) کے لحاظ سے سندھ میں شدید غربت کا تناسب 28.3 فیصد ہے جبکہ اس ضلع میں شدید غربت کا شکار آبادی کی شرح 61.60 فیصد ہے۔ یعنی یہاں بہت ہی کم لوگ بچوں کی تعلیم کے لیے وسائل رکھتے ہیں۔
تاہم اس صورت حال کے باوجود ٹنڈو محمد خاں میں پبلک سکول کا یہ شاندار منصوبہ 15 سال بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا۔
ایگزیکٹو انجنیئر ورکس تصدیق کرتے ہیں کہ 47کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے میں سے سندھ حکومت مختلف اوقات میں 30 کروڑ 70 لاکھ جاری کر چکی ہے۔ جس میں سے ڈیڑھ کروڑ روپے سے منصوبے کے لیے زمین خریدی گئی تھی جبکہ محکمہ اس پر 29 کروڑ 93 لاکھ کا کام کرا چکا ہے۔
"ہم باقی 16 کروڑ 77 لاکھ کے اجرا کے لیے صوبائی حکومت کو سمری بھیج چکے ہیں جیسے ہی رقم ریلیز ہوگی کام مکمل ہو جائے گا۔"
ان کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے ناواقف ہیں۔
کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی پبلک سکول کی یہ عمارت کسمپرسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
دروازے، کھڑکیاں، الیکٹرک فٹنگ، تار، بورڈز اور پانی کی موٹریں تو پہلے ہی چور اکھاڑ کر لے جا چکے تھے۔ حال ہی میں یہا ں سے بجلی کے پولز اور ٹرانسفارمر بھی غائب ہو گئے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ لوگ اس عمارت کی چھت توڑ کر سریا نکال رہے ہیں مگر ضلعی انتظامیہ سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
پچھلے سال صرف ایک بار ٹندو محمد خان کے سب انجنیئر ایجوکیش ورکس مقبول احمد شیخ نے تھانہ بی سیکشن میں سکول کے کنسٹرکشن مٹیریل کی چوری کامقدمہ درج کرایا تھا جو 2019ء سے یہاں پڑا تھا۔ لیکن اس کیس میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
جب ڈپٹی کمشنر ٹنڈو محمد خان دھرموں مل بھوانی سے لوک سجاگ نے عمارت کی حالت زار اور چوری کی ان وارداتوں سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ "آپ اس پر ہماری ہائر اتھارٹیز سے بات کر لیں میں اس کا جواب دینے کا مجاز نہیں ہوں۔"
تاہم ایس ایس پی ٹنڈو محمد خان امداد حسین شاہ کا چوری کی تفتیش میں پیشرفت سے متعلق کہنا تھا کہ پولیس چوروں کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان وارداتوں میں ایک بڑا گینگ ملوث ہے جس کو جلد گرفتار کرلیں گے۔
طالب علم اویس احمد بتاتے ہیں کہ سکول کی عمارت تقریباً 90 فیصد مکمل تھی جس کو اب سیلن لگ چکی ہے۔مختلف لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے جو یہاں اپنے خاندانوں سمیت رہائش پذیر ہیں جہاں اب وہ کسی کو آنے بھی نہیں دیتے۔
اس حوالے سے سابق وزیراعلیٰ سندہ کے ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ صوبے میں سب سے بڑا بجٹ محکمہ تعلیم کا ہے مگر بچوں کو معیاری تعلیم میسر نہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ہر ضلع و تحصیل میں انگلش میڈیم سکول کھولنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
"ہمارا پروگرام تھا کہ کیڈٹ کالجز یا پبلک سکولز کھول کر سری لنکا جیسے ملکوں سے اساتذہ لے آئیں گے کیوںکہ ہمارے زیادہ تر مقامی ٹیچر سکول ہی نہیں جاتے جبکہ اکثر اوقات سکولوں کی عمارتوں میں مال مویشی اور گدھے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
روز بروز مسمار ہوتا واحد پرائمری سکول
سابق وزیر اعلیٰ منصوبے میں تاخیر کا ذمہ دار صوبائی بیوروکریسی کو ٹھراتے ہیں۔
" بیوروکریٹ مافیا سسٹم کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔ میں کسی ایک حکومت پر الزام نہیں لگاتا لیکن سندھ سیکرٹریٹ میں بیٹھے محکمہ تعلیم کے لوگ بچوں کو فوڈ سپلیمینٹ دودھ وغیرہ دینے جیسے منصوبے لاتے ہیں جن سے بچوں کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا البتہ بیوروکریٹ مزید موٹے ہو جاتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ مٹھی کیڈٹ کالج بھی تاحال فنکشنل نہیں ہو سکا جس کی بلڈنگ ویسی ہی پڑی ہے۔ تاہم حکومتوں کی تبدیلی سے عوامی فلاح کی سکیموں پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔
اب امبریلا جیسی نئی سکیموں پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
رواں صوبائی بجٹ سے پہلے پلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے جو گائیڈ لائنز جاری کی تھیں ان کے تحت ہر ضلعے کے لیے الگ ترقیاتی سکیم بنے گی۔
تاہم صوبائی حکومت نے تجویز کردہ امبریلا سکیموں کا فیصلہ کرنے کے لیے ضلعے کی سطح پر ایک چار رکنی کمیٹی بنا دی ہے جس کے سربراہ متعلقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر ہوں گے جبکہ ایگزیکٹو انجینئر ایجوکیشن ورکس، متعلقہ چیف مانیٹرنگ افسر اور ریفارم سپورٹ یونٹ کے متعلقہ سربراہ اس کے رکن ہوں گے۔
اس نوٹیفکیشن میں کمیٹی کے ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنسز) سے یہ واضح نہیں کہ ٹنڈو محمد خان پبلک سکول جیسی پرانی یا جاری امبریلا سکیموں کا کیا بنے گا؟
مقامی ایم پی اے اعجاز شاہ بخاری بتاتے ہیں کہ سکول کی تعمیر شہر اور ضلعے کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس منصوبے کے فنڈز کے لیے انہوں نے پچھلی اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی تھی مگر کورونا اور سیلاب کی وجہ سے یہ التوا کا شکار ہو گیا۔
اگرچہ وہ پرامید ہیں کہ پبلک سکول پر کام بہت جلد دوبارہ شروع کیا جائے گا تاہم یہاں کے شہریوں کو اس منصوبے سے مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
تاریخ اشاعت 13 مئی 2024