ضلع گھوٹکی میں کھاد کی قلت کے خلاف کسان ایک ماہ میں کئی بار احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ تیس نومبر کو ڈی سی اور اسسٹنٹ کمشنروں کے دفاتر کے سامنے دھرنے دیے گئے۔
خان پور مہر میں اے سی اور دھرنے کے شرکا کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیو بھی سوشل پر وائرل ہوئی جس میں اسسٹنٹ کمشنر ردا ٹالپر نے احتجاجی کسانوں کو جواب دیا تھا کہ "کھاد دلوانا میرے بس میں نہیں یہ محمکہ زراعت کا کام ہے۔ ایسے تو کل آپ مجھے بچوں کا رشتہ کرانے کا کہہ دیں گے۔"
حاجی خان کورائی میرپور ماتھیلو کی نواحی بستی رنگ علی شاہ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے اپنی دس ایکڑ زمین پر گندم کاشت کر رکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے یوریا کھاد کی بوری پانچ ہزار روپے میں خریدی ہے۔
"میں نےکئی دن دکانوں پر دھکے کھاتا رہا۔ یہ ظلم ہے جس سے کھاد خریدی اس دکان دار نے پکا بل بھی بنا کر نہیں دیا۔"
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع گھوٹکی کا 51 فیصد رقبہ یعنی آٹھ لاکھ 17 ہزار ایکڑ قابل کاشت ہے۔ جس میں سے دو لاکھ 71 ہزار 700 ایکڑ پر گندم اور ایک لاکھ 54 ہزار 140 ایکڑ پر گنا کاشت کیا گیا ھے۔
ضلع گھوٹکی کا شمار صوبہ سندھ میں گندم کے زیرکاشت رقبے اور پیداوار کے حوالے سے سرفہرست چار اضلاع میں ہوتا ہے۔
2021 میں اس ضلع میں دو لاکھ 76 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے سے تین لاکھ 75 ہزار سے زیادہ میٹرک ٹن پیداوار حاصل کی گئی تھی۔ 2022 میں تقریباً دو لاکھ 69 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کاشت ہوئی جس سے دو لاکھ 88 ہزار میٹرک ٹن سے زائد پیداوار ہوئی۔
2023 میں گھوٹکی ضلع میں 2 لاکھ 66 ہزار 421 ایکڑ رقبے سے 2 لاکھ 89 ہزار 646 میٹرک ٹن پیدوار لی گئی۔ دو سال میں نہ صرف گندم کے قابل کاشت رقبے میں 3.6 فیصد کمی دیکھنے میں آئی بلکہ پیداوار میں 23 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔
گھوٹکی کے علاوہ خیرپور، نوشیرو فیروز اور سانگھڑ میں سب سے زیادہ رقبے پر گندم کی فصل کاشت ہوتی ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر زراعت گھوٹکی نیاز کھوسو بتاتے ہیں کہ اس بار یہاں گندم کی کاشت کا سرکاری ہدف لگ بھگ پونے تین لاکھ ایکڑ تھا جو پورا ہو چکا ھے۔ جس کے لیے محکمے نے 10 لاکھ 84 ہزار 700 بوری یوریا کی مانگ کی تھی۔
کھاد کمپنیوں کی جانب سے محکمہ زراعت کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق ضلعے میں تین ماہ کے دوران 24 ڈیلروں کو یوریا اور ڈی اے پی سمیت مختلف کھادوں کی چھ لاکھ 71 ہزار 129 بوریاں فراہم کی گئی ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یوریا کا بحران ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔
کسان تین ہزار 700 روپے سرکاری ریٹ والی بوری بلیک میں ساڑھے پانچ ہزار روپے تک کی خرید رہے ہیں۔
پنجاب کی سرحد پر واقع اوباڑو کے زمیندار عبدالھادی چاچڑ نے 40 ایکڑ گندم کاشت کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کھاد وقت پر نہ ملی تو گندم کی نشوونما رک جائے گی اور پیداوار میں کمی کا نقصان کاشتکار ہی کو اٹھانا پڑے گا۔
"ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کھاد کی تین بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں اور پھر بھی ایک ایک بوری کے لیے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔"
ضلع گھوٹکی میں کھاد بنانے والے دو بڑے کارخانے کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک فوجی فرٹیلائزرز اور دوسرا پلانٹ اینگرو کی ملکیت ہے۔ تیسرا کارخانہ فاطمہ فرٹیلائزرز 50 کلومیٹر دور صادق آباد میں واقع ہے۔ تینوں پلانٹس میں لگ بھگ 25 لاکھ ٹن سالانہ یوریا بنانے کی صلاحیت ہے۔
محکمہ زراعت کے ماہرین کہتے ہیں کہ ضلع گھوٹکی میں اکتوبر سے جنوری تک یوریا کی طلب تقریباً پانچ لاکھ بوری ہے۔ کھاد کمپنیوں کی جانب سے محکمہ زراعت کو فراہم کردہ معلومات کو بھی درست مان لیا جائے تو یہاں کھاد کی کمی نہیں ہونی چاہیے تھی۔
ادھر انتظامیہ نے کھاد کی قلت پر قابو پانے کے لیے اکا دکا کارروائیاں بھی کی ہیں۔ سات نومبر کو اے سی ڈہرکی نے پانچ ڈیلرز کو مجموعی طور 95 ہزار روپے جرمانہ کیا۔ اسی طرح گھوٹکی میں تین ڈیلروں کو 50 ہزار جبکہ میرپور ماتھیلو میں 40 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔
اسی طرح چھ دسمبر کو بھی ڈہرکی کے تین ڈیلرز کو ڈھائی لاکھ جرمانہ کیا گیا ہے۔ جبکہ اسسٹنٹ کمشنر خان گڑھ نے مختلف گوداموں پر چھاپے مار کر دو گودام سیل کر دیے تھے۔
لیکن ان کارروائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
ڈپٹی کمشنر گھوٹکی آغا شیر زمان نے 27 نومبر کو کھاد بنانے والی تینوں فیکٹریوں کو خط لکھا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ضلع گھوٹکی کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ کھاد بحران کے باعث یہاں امن وامان کا مسئلہ ہو سکتا ہے اور گندم کی فصل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
"لہٰذا ادارے ضلعے کے کوٹے میں اضافہ کر کے کھاد کا بحران ختم کرائیں اور ذخیرہ اندوزی روکنے بھی اپنا کردار ادا کریں۔"
میرپور ماتھیلو کے ڈیلر پون کمار بتاتے ہیں کہ پچھلے ماہ ضلعے میں ڈیلرز کو کوٹے سے 50 ہزار بوری یوریا کم فراہم کی گئی تھی جس کی وجہ سےقلت پیدا ہوئی۔ ورنہ عموماً جنوری تک اس ضلعے میں کھپت پانچ لاکھ بوری تک ہی رہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں یہاں ڈیلرز کو پانچ لاکھ بوری سے زیادہ کھاد ملتی ہے جس میں بیشتر وہ دو سرے صوبوں کو سمگل کر دیتے ہیں۔ کھاد کی قلت کی ایک یہ بھی وجہ ہے۔
ایس ایس پی گھوٹکی انور کھیتران کھاد کی سمگلنگ کے بارے میں پون کمار کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈہرکی کے فیصل گڈز ٹرانسپورٹ اڈے کے مالک یوریا کی ڈمپنگ میں ملوث ہیں۔
"پولیس نے 600 بوری یوریا سے لدے ٹرالر کو قبضے میں لے کر مقدمہ بھی درج کر لیا ہے اور اڈےکا لائسنس منسوخ کرنے کے لیے کھاد کمپنیوں کو بھی لکھ دیا ہے"۔
وہ بتاتے ہیں کہ سندھ پنجاب بارڈر پر پولیس کھاد سے بھری گاڑیاں روکتی ہے تو کمپنی والے کہتے ہیں کہ یہ ان کے ڈیلر ہیں انہیں جانے دیں۔ انور کھیتران کہتے ہیں کہ پولیس کے ساتھ محکمہ زراعت کا کوئی افسر نہ ہونے کی وجہ سے پولیس یہ کام اکیلے نہیں کر سکتی۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں ڈپٹی کمشنر کی زیر صدارت کھاد کی قلت اور ناجائز منافع خوری روکنے سے متعلق اجلاس ہوا۔ جس میں یوریا کی دیگر اضلاع کو غیر قانونی منتقلی روکنےاور اوباڑو ٹول پلازا پر چیک پوسٹ بنانے کے احکامات دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں
" گندم کی کاشت کے وقت ڈی اے پی کھاد کا بحران ہوتا ہے، اس کے بعد یوریا نہیں ملتی"
اجلاس میں کھاد کمپنیوں کے نمائندوں کو دسمبر اور جنوری کے کوٹے میں 50 ہزار بوری اضافی مہیا کر نے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
ایف ایف سی کے مارکیٹنگ افسر وقار حسین بحران کا ذمہ دار کاشت کاروں کو قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کھاد کی کوئی قلت نہیں ہے کاشتکاروں کے پاس پیسہ بہت ہے۔ ضرورت 50 بوری کی ہوتی ہے وہ ڈیڑھ سو بوری خرید لیتے ہیں۔
"جب ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں کررہے ہو تو جواب ملتا ہے کہ کھاد روز مہنگی ہو رہی ہے اس لیے ابھی سے خرید کر رکھ لی۔"
وہ کہتے ہیں کہ کمپنیاں دسمبر میں صرف دسمبر کی ضرورت کی کھاد بناتی ہیں مگر کاشتکار جنوری اور فروری کی ضرورت کی کھاد بھی ساتھ خرید لیتے ہیں۔ اس لیے قلت تو ہونی ہی ہے کیونکہ سپلائی اتنی نہیں ہوتی۔
گندم کی فصل کو بروقت کھاد دینا ضروری ہوتا ہے۔ زرعی گریجویٹ اور مقامی زمیندار محمد علی مہر بتاتے ہیں کہ عام طور پر اس فصل کو چار مرتبہ کھاد دی جاتی ہے۔ پہلی کھاد بیجائی کے دو سے چار ہفتوں بعد اور دوسری اس کے دو ہفتے بعد ڈالی جاتی ہے۔
"ہمیں موسم اور زمین کی زرخیزی کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ گندم کی فصل میں اکثر اوقات فی ایکڑ تین سے چار بوریاں ڈالی جاتی ہیں۔ آخری کھاد اس وقت پر دی جاتی ہے جب دانہ بن رہا ہوتا ہے۔"
تاریخ اشاعت 1 جنوری 2024