" گندم کی کاشت کے وقت ڈی اے پی کھاد کا بحران ہوتا ہے، اس کے بعد یوریا نہیں ملتی"

postImg

غلام عباس بلوچ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

" گندم کی کاشت کے وقت ڈی اے پی کھاد کا بحران ہوتا ہے، اس کے بعد یوریا نہیں ملتی"

غلام عباس بلوچ

loop

انگریزی میں پڑھیں

مرید عباس، بھکر کے علاقے نوتک نشیب کے زمیندار ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال 50 ایکڑ سے زائد رقبے پر گندم کاشت کی تھی لیکن رواں سال 30 ایکڑ گندم اور باقی رقبے پر چقندر  کاشت کیا ہے۔

 وہ گندم کم کاشت کرنے کی وجہ بے یقینی بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ضلع بھکر میں یوریا کھاد نہیں مل رہی۔

"پہلے پانی پر فصل کے لیے یوریا مل بھی جائے تو دوسری آبپاشی پر دستیابی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے"۔

 ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے یوریا کی فی بوری قیمت تین ہزار 450 سے تین ہزار 650 روپے مقرر کر رکھی ہے۔ مگر ضلع بھر میں جہاں بھی دستیاب ہے پانچ ہزار روپے بوری بک رہی ہے۔ جو اصل قیمت سے 1600 روپے زائد ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے تین سال میں بجلی اور ڈیزل کے نرخ بہت بڑھ چکے ہیں۔ اوپر سے کھاد کی ناجائز منافع خوری سے گندم کے فی ایکڑ اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس نے کاشت کار کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

وفاقی حکومت کے ادارے نیشنل فرٹیلائزر ڈیویلمپنٹ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اگست 2023ء میں ڈی اے پی (ڈی امونیم فاسفیٹ) کھاد کی 50 کلو بوری کی قیمت 10 ہزار 689 روپے تھی جو دو ماہ بعد 12ہزار 183 روپے تک پہنچ گئی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق رواں سال  اگست سے اکتوبر تک دو ماہ میں یوریا کی قیمت تین ہزار 592 سے بڑھ کر تین ہزار 786 روپے ہو چکی تھی۔ پچھلے سال اکتوبر میں یوریا کھاد کسانوں کو دو ہزار425 روپے تک فی بوری مل رہی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ملک میں ربیع سیزن کے لیے 36 لاکھ47 ہزار ٹن یوریا کھاد دستیاب ہے۔ جبکہ سیزن کی ضرورت 33 لاکھ 35 ہزار ٹن ہو سکتی ہے یعنی ملک میں طلب سے زائد یوریا کھاد موجود ہے۔
رواں سیزن میں ڈی اے پی کی طلب کا اندازہ نو لاکھ ایک ہزار ٹن لگایا گیا تھا جبکہ آٹھ لاکھ 65 ہزار ٹن کھاد دستیاب ہے۔ یعنی یہ ضرورت سے تھوڑی سی کم ہے۔

موضع ہزارہ کے رہائشی قیصر عباس خان میڈیسن کا کاروبار کرتے ہیں لیکن پچھلے چھ سال سے اپنا 60 ایکڑ رقبہ خود کاشت کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے کاشتکاری شروع کی تو یوریا آسانی سے دستیاب تھی اور ریٹ بھی مناسب تھا۔

"امدادی قیمت کم ہونے کے باوجود ہم نے گندم سے منافع کمایا مگر دو سال سے ذخیرہ اندوزوں نے کاشتکاری کو مشکل بنا دیا ہے۔ گندم کی بوائی کے وقت ڈی اے پی کھاد کا بحران ہوتا ہے، اس کے بعد یوریا نہیں ملتی۔"

وہ کہتے ہیں کہ کھاد کی سرکاری قیمتیں محض کاغذوں میں درج ہیں۔ حکومت کاشتکاروں کو کنٹرول ریٹ پر کھاد فراہم کرانے میں ناکام رہی ہے،  اوور چارجنگ اور بلیک مارکیٹنگ افسران کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

"ضلعی انتظامیہ کے جو افسر گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنے کے لیے کسانوں کے گھروں سے گندم اٹھا لاتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چند کھاد ڈیلرز کے گوداموں سے بے خبر ہوں، ڈپٹی کمشنر ذمہ داری پوری کریں تو کھاد کا خود ساختہ بحران ختم ہو سکتا ہے۔"

محکمہ شماریات کے مطابق ضلع بھکر میں گزشتہ سال چار لاکھ تین ہزار ایکڑ گندم کاشت کی گئی تھی۔ امسال اب تک چار لاکھ چھ ہزار 230 ایکڑ گندم کاشت کی جا چکی ہے۔

زراعت افسر ڈاکٹر سجاد حسین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رواں سال ضلعے میں چار لاکھ دو ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔

گندم کی کاشت پندرہ دسمبر تک مکمل کی جاتی ہے۔ تاہم کماد سے خالی ہونے والی زمین پر دسمبر کے آخری ہفتہ تک بھی بوائی جاری رہتی ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال گندم کی کاشت پچاس ہزار ایکڑ زیادہ متوقع ہے۔ کیونکہ کسان کینولا اور سرسوں کی بجائے گندم کی کاشت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

"ضلع میں گندم کے لیے نو لاکھ بوری یوریا کی ضرورت ہے۔ تاہم ہم نے انتظامیہ سے اپنے ہدف کے مطابق سات لاکھ 51 ہزار 960 بوری یوریا کی ڈیمانڈ کی ہے۔ اس میں سے اکتوبر اور نومبر میں ہمیں صرف پونے دو لاکھ بوری یوریا ملی ہے جو  پہلی آبپاشی کی ضرورت سے بھی دو لاکھ ایک ہزار بوری کم ہے۔"

زراعت افسر کا کہنا تھا کہ طلب اور رسد میں بہت فرق ہے۔

"ایک تو کھاد ڈیلرز منافع خوری کرتے ہیں۔ دوسرے اگر کسانوں کو بروقت یوریا نہ ملی تو اس سے گندم کی فصل کو نقصان پہنچ سکتا ہے"۔

 ڈپٹی کمشنر آفس (ایس این اے برانچ) میں کھاد کے لیے بنائے گئے ڈیش بورڈ کے انچارج محمد نواز بتاتے ہیں کہ مختلف کھاد کمپنیوں نے نومبر میں لگ بھگ 86 ہزار بوری یوریا فراہم کی ہے۔ ڈی سی بھکر یوریا کی قلت کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی میں کھاد ڈیلروں نے طلب اور رسد کا "کنٹرول" سنبھال لیا، ڈی اے پی کے نرخ دوگنا

وہ کہتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر نے صوبائی حکومت سے ایک لیٹر کے ذریعے بھکر میں یوریا کا کوٹہ بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر چیف سیکرٹری درخواست منظور کر لیتے ہیں تو یہاں کسانوں کی مشکلات کم ہو جائیں گی۔

 محمد نواز کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت کے افسران ناجائز منافع خوری پر اب تک چالیس کے قریب کھاد ڈیلرز کے خلاف مقدمات درج کرا چکے ہیں اور 32 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے جبکہ جعلی یوریا کی چھ ہزار بوری تحویل میں لی گئی ہے۔

 بھکر کے ایک معروف فرٹیلائزر ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی ایک بڑی وجہ 'گھوسٹ ڈیلرز 'ہیں۔ تمام کھاد کمپنیوں میں ایسے ڈیلر رجسٹرڈ ہیں جن کا تعلق بھکر سے نہیں بلکہ دیگر اضلاع سے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دو بڑے 'گھوسٹ' ڈیلرز بھکر کے کوٹہ کے نام پر سیزن سے پہلے ہی ہزاروں بوری یوریا کمپنیوں سے بک کرا لیتے ہیں۔ بعد ازاں چند ایک کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے کھاد ڈیلرز کو مہنگے داموں ادھار پر مال سپلائی کرتے ہیں۔
 
"ڈیلر سے مہنگی کھاد خریدنے والے آگے کسانوں کو بھی مہنگی بیچتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت کے افسران ان گھوسٹ ڈیلرز سے واقف ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نہ کمپنیوں سے ان کی رجسٹریشن ختم کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔"

تاریخ اشاعت 13 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

غلام عباس بلوچ کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے۔ علاقائی و سماجی مسائل، سیاست، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقہ کے حقوق کیلئے لکھتے رہتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.