فیصل آباد کے بازاروں میں شعلہ اُگلتے 'اژدھے' اور انتظامیہ کی بانسری

postImg

نعیم احمد

postImg

فیصل آباد کے بازاروں میں شعلہ اُگلتے 'اژدھے' اور انتظامیہ کی بانسری

نعیم احمد

فیصل آباد شہر کے آٹھ اہم بازار اس کے مشہور گھنٹہ گھر چوک پر آ کر ملتے ہیں۔ یہ بازار اس صنعتی شہر کا کاروباری مرکز بھی ہیں  اور شہری بد انتظامی کا سب سے بڑا مظہر بھی۔ یہاں کی ہر سڑک اور گلی میں چند فٹ کی بلندی پر ایک دوسرے میں الجھے بجلی کے لاتعداد تاروں کے بے ہنگم گچھے ہر وقت خطرے کی تلوار بنے لٹکے رہتے ہیں۔

گھنٹہ گھر سے شمال کی  جانب منٹگمری بازار اور اس سے متصل گلیوں میں پاکستان کی سب سے بڑی سوت منڈی (سوتر منڈی) واقع ہے جہاں اس کاروبار سے وابستہ 500 سے زیادہ دفاتر اور دکانیں ہیں ۔ سوت منڈی ناصرف فیصل آباد بلکہ ملک بھر کی ٹیکسٹائل ملوں کو دھاگے کی فراہمی کا اہم مرکز ہے جہاں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔

ان دفتروں اور دکانوں کے اوپر سے گزرتے بجلی کی تاروں کے گچھے کسی بھی وقت شعلے اگلنا شروع کر دیتے ہیں اور کسی نہ کسی کی عمر بھر کی جمع پونجی راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے۔

ریسکیو 1122 کے مطابق فیصل آباد میں 2022ء کے دوران آتشزدگی کے ایک ہزار 906 واقعات رونما ہوئے  جن میں 10 افراد ہلاک  اور 37 شدید زخمی ہوئے جبکہ 56 کو معمولی چوٹیں آئیں۔ ان واقعات میں ہونے والے مالی نقصان کی مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ بتائی گئی ہے۔

اسی طرح 2021ء میں آتشزدگی کے ایک ہزار 661 واقعات پیش آئے تھے جن میں پانچ افراد  ہلاک اور 50 شدید زخمی ہوئے جبکہ 33 کو معمولی چوٹیں آئیں اور 71 کروڑ روپے سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا۔

ریسکیو 1122 کے ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2022ء میں آتشزدگی کے سب سے زیادہ واقعات شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آئے جن کی تعداد ایک ہزار142 ہے اور ان میں سے زیادہ تر واقعات گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں اور شہر کے دیگر تجارتی مراکز میں پیش آئے۔

ایسا ہی ایک واقعہ سات اکتوبر 2022 ء کو پیش آیا تھا جس میں منٹگمری بازار سے متصل ایک گلی میں واقع چھ منزلہ پلازے میں آگ  لگنے سےایک ہی خاندان کے سات افراد جل کر دم توڑ گئے تھے۔

اس واقعے میں  ہلاک ہونے والوں میں 55 سالہ عبدالستار، ان کے دو بیٹے، تین پوتے اور ایک پوتی امل شامل تھیں۔ آتشزدگی میں عبدالستار کے بھائی، والدہ، بہو، پوتا اور پوتی سمیت 20 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے کئی ماہ بعد اب پلازے کی نچلی تین منزلوں میں واقع سوترمنڈی کے تاجروں کی دکانوں اور دفاتر میں کاروباری سرگرمیاں تو بحال ہو چکی ہیں لیکن اوپر کی تینوں منزلیں  تاحال خالی ہیں۔

کوئی مدد کو نہ آیا

محمد احسان نے بتایا کہ وہ اور ان کے دو بھائی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پلازے کی آخری تین منزلوں میں الگ الگ مقیم تھے۔ "رات کو جس وقت آگ لگی گھر کے تمام لوگ سو رہے تھے۔ آگ چوتھی منزل سے شروع ہوئی اور چند ہی منٹوں میں چھٹی منزل تک پہنچ گئی"۔

<p>محمد احسان حادثے کے  بعد اپنےگھر کی مرمت کا کام کرواتے ہوئے<br></p>

محمد احسان حادثے کے  بعد اپنےگھر کی مرمت کا کام کرواتے ہوئے

انہوں نے بتایا کہ آگ سے بچنے کے لیے وہ اپنے اہل خانہ سمیت نیچے جانے میں کامیاب رہے جبکہ چھٹی منزل پر رہائش پذیر ان کے بھائی اور دیگر اہلخانہ نے چھت پر جا کر اپنی جان بچائی تاہم درمیان والی منزل پر موجود افراد اور تینوں منزلوں پر موجود سامان آگ کی نذر ہو گیا۔

"ہم نے ریسکیو 1122 اور فیسکو حکام  کو بہت فون کیے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ آیا۔ ہم اپنی سی کوشش کرتے رہے لیکن آگ کی شدت کم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی"۔

محمد احسان کے مطابق بعدازاں محلے داروں نے خود ریسکیو 1122 اور فیسکو کے دفاتر جا کر عملے کو حادثے کی اطلاع دی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آتشزدگی کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے تھے لیکن اب کرایہ ادا کرنے کی سکت بھی نہیں رہی، اس لیے وہ دروازے کھڑکیاں مرمت کروا رہے ہیں تاکہ اپنے گھر کو بحال کرسکیں۔

'جھوٹے وعدے اور لارے'

اس حادثے کے فوراً بعد ڈپٹی کمشنر فیصل آباد عمران حامد شیخ نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے متاثرین کی مالی امداد اور سول ڈیفنس و دیگر متعلقہ محکموں کو شہر کی بلند و بالا عمارتوں میں آگ سے تحفظ کے اقدامات یقینی بنانے اور فیسکو انتظامیہ کو گھنٹہ گھر کے اطراف میں واقع پلازوں و رہائشی عمارتوں کے نزدیک سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

لیکن نہ تو امداد کا وعدہ پورا ہوا اور نہ ہی ہدایات پر کوئی عمل ہو سکا۔

اس حادثے کی تحقیقات کے لیے دو کمٹییاں تشکیل دی گئی تھیں جن میں سے ایک کمیٹی کو حادثے کی وجوہات کی مکمل تحقیقات اور اداروں کا رسپانس ٹائم چیک کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ جبکہ دوسری کمیٹی نے آٹھ بازاروں میں بجلی کی تاروں اور ٹرانسفارمرز کو محفوظ بنانے سمیت ہنگامی حالات میں اداروں کی گاڑیوں کی آسان رسائی اور آگ سے بچاؤ کے اقدامات پر رپورٹ تیار کرنا تھی۔

ڈپٹی کمشنر کی طرف سے تاجروں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ تحقیقات  10 روز میں مکمل کر لی جائیں گی جس کے بعد ان کی رپورٹیں تاجروں کو پیش کی جائیں گی۔

لیکن کسی کمیٹی کی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی۔

نومبر 2022ء میں ضلعی انتظامیہ نے چوک گھنٹہ گھر میں ایمرجنسی رسپانس سنٹر قائم کرنے کا اعلان کر کے گھنٹہ گھر سے ملحقہ بازاروں کی تمام عمارتوں میں آگ بجھانے والے آلات نصب کرنا لازمی قرار دے دیا تھا۔

<p>منٹگمری بازار کی گلیوں میں لٹکتے بجلی کے بے ہنگم تار <br></p>

منٹگمری بازار کی گلیوں میں لٹکتے بجلی کے بے ہنگم تار

ایمرجنسی رسپانس سنٹر میں ریسکیو 1122، سول ڈیفنس، ہیلتھ اور دیگر ایمرجنسی اداروں کے نمائندے 24 گھنٹے موجود رہنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔

مزید حادثے

سوت منڈی کے تاجروں کی تنظیم پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے صدر شیخ قیصر شمس گچھا نے بتایا کہ بارہا رابطہ کرنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نہ تو متاثرین کی مالی امداد کی گئی ہے اور نہ ہی دیگر انتظامی امور پر کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس حادثے کے بعد بھی گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں میں شارٹ سرکٹ اور بجلی کی  تاروں کی ٹرپنگ کے باعث آتشزدگی کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔

چنیوٹ بازار میں ہونے والی ایسی ہی آتشزدگی میں جانوروں کی ادویات کا کاروبار کرنے والے ماجد عمران کی دکان جل کر راکھ ہو گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ "میں رات کو اپنی دکان بند کرکے گیا تھا لیکن آدھی رات کے بعد مجھے مارکیٹ کے چوکیدار کا فون آ گیا کہ دکان میں آگ لگ گئی ہے"۔

ماجد کا کہنا تھا کہ جب تک وہ دکان پر پہنچے، اندر رکھا سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

حادثوں کا ہجوم: پاکستان ریلوے میں بد انتظامی اور نا اہلی نے ریل کے سفر کو کتنا غیر محفوظ کر دیا ہے۔

13 دسمبر 2022ء کو جڑانوالہ کے پاکستانی گیٹ سے متصل مارکیٹ میں بھی شارٹ سرکٹ کے باعث ہونے والی آتشزدگی سے درجنوں دکانیں، ریڑھیاں اور ٹھیلے جل کر راکھ ہو گئے تھے۔

 "کام ہوگا مگر معلوم نہیں کب؟"

فیسکو کے ترجمان طاہر شیخ کہتے ہیں کہ گھنٹہ گھر اور اس سے منسلک بازاروں میں بجلی کے تاروں اور کھمبوں کے نظام میں بہتری لا کر شارٹ سرکٹ اور دیگر حادثات پر قابو پانے کے لیے پرائیویٹ کنسلٹنسی فرم کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "کنسلٹنٹ فرم بجلی کی ترسیل کے موجودہ نظام، بجلی کے میٹروں اور تاروں کا جائزہ لے کر خطرے سے پاک سسٹم کی تجاویز دینے کے ساتھ تاروں اور ٹرانسفارز کی مناسب تنصیب کے لیے مکمل ڈیزائن فراہم کرے گی"۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کنسلٹنٹ فرم کے انتخاب کا عمل جاری ہے جس کے بعد عملی کام شروع ہو گا۔ تاہم انہوں نے اس کام کے آغاز اور اس کی تکمیل کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم دینے سے معذوری ظاہر کی۔

تاریخ اشاعت 23 جنوری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نعیم احمد فیصل آباد میں مقیم ہیں اور سُجاگ کی ضلعی رپورٹنگ ٹیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس سی کیا ہے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.