شیخو پورہ میں پارٹی ووٹ اہم، کس حلقے میں کن امیدواروں کے درمیان فائنل ریس متوقع ہے؟

postImg

بلال احمد اذان

postImg

شیخو پورہ میں پارٹی ووٹ اہم، کس حلقے میں کن امیدواروں کے درمیان فائنل ریس متوقع ہے؟

بلال احمد اذان

انتخابات قریب آتے ہی ضلع شیخو پورہ میں سیاسی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ کچھ امیدوار کارنر میٹنگز، جلسے شروع کر چکے ہیں اور جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے وہ اپیلوں کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ضلع شیخو پورہ میں 2008ء سے قومی اسمبلی کی چار اور پنجاب اسمبلی کی نو نشستیں چلی آ رہی ہیں۔ پچھلی حلقہ بندی میں یہاں قومی حلقوں کے نمبر این اے 119 سے این اے 122 تک تھے جو اب این اے 113 سے این اے 116 تک ہو گئے ہیں۔

 2008ء کے انتخابات میں اس ضلعے کی تمام چار قومی و نو نشستوں پر مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2013 ء میں ن لیگ کو صرف ایک صوبائی نشست پر آزاد امیدوار علی اصغر منڈا کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی مگر وہ بھی ن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔

پچھلے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ن لیگ سے شیخوپورہ کی ایک قومی اور چار صوبائی نشستیں چھین لی تھیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر دو صوبائی نشستیں جیتنے والوں میں مریدکے سے خرم اعجاز چھٹہ اور عمر آفتاب ڈھلوں شامل تھے جو پہلے ن لیگ کے ایم پی اے رہ چکے تھے۔ لیکن الیکشن سے قبل پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔

اس ضلعے میں ن لیگ کے تین رہنما تین قومی نشستوں پر مسلسل کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔

پچھلی بار این اے 120(موجودہ این اے 114) سے رانا تنویر حسین، این اے 121 (اب این اے 115)سے میاں جاوید لطیف اور این اے 122 (موجودہ این اے 116) سے سردار عرفان ڈوگر کامیاب ہوئے تھے۔

لیکن این اے 119 (اب این 113) سے رانا تنویر کے بھائی میاں افضال حسین پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کے بریگیڈیئر ریٹائرڈ راحت امان اللہ سے ہار گئے تھے۔


شیخوپورہ نئی حلقہ بندیاں 2023

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 119 شیخوپورہ 1 اب این اے 113 شیخوپورہ 1 ہے
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ تحصیل مریدکے کی آبادی پر مشتمل ہے۔ تحصیل فیروز والا کی میونسپل کمیٹی اور کچھ دیہی علاقے بھی اس حلقے کا حصہ ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں  تحصیل فیروز والا کے پٹوار سرکل کالا شاہ کاکو کو نکال دیا گیا ہے۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 120 شیخوپورہ 2 اب این اے 114 شیخوپورہ 2 ہے
اس حلقے میں پوری شرق پور تحصیل شامل ہے۔ فیزوز والا اور شیخوپورہ تحصیل کی کچھ دیہی آبادیاں بھی اس حلقے کا حصہ ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ  اس میں کالا شاہ کاکو پٹوار سرکل کو شامل کردیا گیا ہے۔کالا شاہ کاکو پٹوار سرکل 2018 کے انتخابات کے وقت شیخوپورہ ون کا حصہ تھا۔

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 121 شیخوپورہ 3 اب این اے 115 شیخوپورہ 3 ہے
یہ شیخوپورہ کا شہری حلقہ ہے۔جس میں میونسپل کارپوریشن شیخوپورہ کے علاوہ بھکھی اور جنڈیالہ شیر خان کے قصبے بھی شامل ہیں۔ 2023 کی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

2018   کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 122 شیخوپورہ 4 اب این اے 116 شیخوپورہ 4 ہے
یہ حلقہ تحصیل صفدر آباد اور شیخوپورہ تحصیل کے قصبوں ماناوالا اور فاروق آباد کے علاقوں پر مشتمل ہے۔2023 کی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔


حالیہ مردم شماری میں ضلع شیخوپورہ کی مجموعی آبادی 40 لاکھ 49 ہزار 418 بتائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 21لاکھ 13 ہزار 545 ہے۔ جن میں 11لاکھ 63 ہزار 194 مرد اور نو لاکھ 50 ہزار 351 خواتین ووٹر ہیں۔

نئی حلقہ بندیوں میں بھی ضلع شیخوپورہ کی چار قومی اور نو صوبائی نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں۔

این اے 113 میں مریدکے، فیروز والا اور کالا شاہ کاکو کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں سے 16 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ جن میں عمر آفتاب ڈھلوں، ان کے والد آفتاب اقبال، خرم اعجاز چھٹہ اور راحت امان اللہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس نشست کے لیے ن لیگ سے احمد عتیق انور اور ان کے والد رانا افضال حسین، پیپلز پارٹی سے عثمان نثار پنوں اور صابر حسین بھلہ جبکہ تحریک لبیک سے نعمان خالد اور انور رشید گجر نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔

 اس نشست پر ن لیگ کے متوقع امیدوار رانا احمد عتیق انور بتائے جارہے ہیں جو چیئرمین ضلع کونسل رہ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بریگیڈیئر ریٹائرڈ راحت امان اللہ اور ان کے تینوں بیٹوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں۔

 اب یہاں فائنل ریس کن امیدواروں کے درمیان ہوتی ہے اس کا اندازہ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ہو گا۔

این اے 114 تحصیل شرقپور، کوٹ عبدالمالک، بھاریاں والا ودیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔

اس حلقے میں 23 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ جن میں ن لیگ سے رانا تنویر حسین، پی ٹی آئی سے سابق ایم پی اے علی اصغر منڈا کی اہلیہ شبانہ اصغر اور علی اصغر کے بھائی ارشد منڈا نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ یہاں سے پیپلز پارٹی کے سردار علی آصف، تحریک لبیک کے میاں آصف کے علاوہ میاں جلیل شرقپوری نے بھی درخواست دے رکھی ہے۔

سابقہ انتخابات میں اس قومی حلقے کے نیچے صوبائی نشست پر کامیاب ہونے والے علی اصغر منڈا اور میاں جلیل شرقپوری کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔

 علی اصغر 2008ء میں پہلی بار ن لیگ کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن ان کا رانا تنویر حسین سے اختلاف ہو گیا تھا۔ 2013ء میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے صوبائی نشست پر آزاد الیکشن لڑا اور جیت کر ن لیگ میں ہی واپس آگئے۔

سابق ایم پی اے کی 43 سالہ اہلیہ شبانہ اصغر جو اب خود امیدوار ہیں، بتاتی ہیں کہ رانا تنویرنے علی اصغر کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ ان کے شوہر نے 2018ء کا چناؤ قومی نشست پر رانا تنویر حسین کے خلاف لڑا مگر ہار گئے تھے۔

رانا تنویر حسین پرانے سیاست دان ہیں۔ وہ اس صوبائی نشست پر پی ٹی آئی سے جلیل شرقپوری کو ن لیگ میں لے آئے۔ جس کے نتیجے میں شرقپوری صوبائی اور رانا تنویر حسین قومی نشست جیت گئے۔ مگر وہ ایم پی اے بننے کے بعد بزدار حکومت کو سپورٹ کرتے رہے۔

شبانہ اصغر کا کہنا ہے کہ نو مئی کے بعد پولیس ان کے شوہر کی گرفتاری کے لیے کئی چھاپے مار چکی ہے جو ان دنوں سعودی عرب ہیں اور حالات بہتر ہونے تک واپس نہیں آ سکتے۔ "اب تو علی اصغر منڈا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جا چکا ہے"۔

اس حلقے میں شبانہ اصغر اور ارشد منڈا دونوں نے رانا تنویر کے مقابلے میں کاغذات جمع کرا رکھے ہیں تاہم ارشد منڈا اپنی بھاوج ہی کو الیکش لڑانے کا اعلان کر چکے۔ یہ مقابلہ کافی دلچسپ ہوگا۔

این اے 115 میں شیخوپورہ شہر کے ساتھ جنڈیالہ شیر خان و دیگر دیہات آتے ہیں۔ اس نشست پر 15 امیدوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں پی ٹی آئی سے سابق صوبائی وزیر خرم شہزاد ورک، ن لیگ سے میاں جاوید لطیف اور پیپلز پارٹی کے میاں لیاقت بھی شامل ہیں۔

اس حلقے سے پی ٹی آئی کے سعید ورک اور طیاب راشد سندھو نے بھی کاغذات جمع کرائے ہیں تاہم یہاں خرم شہزاد ورک اور جاوید لطیف کے درمیان ہی اصل میدان لگنے کا امکان ہے۔

 این اے 116 تحصیل صفدر آباد، مانانوالہ، فاروق آباد وغیرہ پر مشتمل ہے جہاں 28 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ اس نشست پر ن لیگ کے سابق ایم این اے سردار عرفان ڈوگر اور پی ٹی آئی کے خرم منور منج ممکنہ طور پر مدمقابل ہونگے۔ لیکن ابتدائی جانچ پڑتال میں پرویز الہی کے ساتھی خرم منور منج کے کاغذات نامزدگی مسترد قرار پائے ہیں۔

ضلع شیخو پورہ کے ںو صوبائی حلقوں میں ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ نئے امیدوار بھی پارٹی ٹکٹ کے لیے زور لگاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔

ایک اور اہم بات یہاں پی پی 141 سے میاں جاوید لطیف کا کاغذات نامزدگی جمع کرانا ہے جو این اے 115 سے تین بار الیکشن جیت چکے ہیں اور اب بھی وہاں امیدوار ہیں۔ اسی طرح رانا تنویر نے پی پی 139 اور پی پی 140 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ یہ دونوں
صوبائی حلقوں کے پارٹی ٹکٹ کے لیے بھی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 136 شیخو پورہ ون مریدکے سے 26 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ یہاں مسلم لیگ ن کے حسان ریاض اور پی ٹی آئی کے عمر آفتاب ڈھلو کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔ 

پی پی 137 شیخوپورہ ٹو مریدکے سے 16 امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں سے فائنل ریس ن لیگ کے ارشد ورک اور پی ٹی آئی کے خرم اعجاز چھٹہ کے درمیان ہو سکتی ہے۔تاہم ابتدائی سکروٹنی میں خرم اعجاز کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔

 پی پی 138 شیخوپورہ تھری کے لیے مجموعی طور پر 23 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔ یہاں مسلم لیگ ن کے پیر اشرف رسول اور پی ٹی آئی کے ابوزر مضبوط امید وار تصور کیے جا رہے تھے۔لیکن ابوزر کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں اور دیگر امیدواروں کے ٹکٹ ابھی سامنے نہیں آئے۔

پی پی 139 فیروز والا سے 32 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ رانا تنویر حسین کے دستبردار ہونے کی صورت یہاں میاں عبد الروف یا رانا عباس علی خان ن لیگ کے امیدوار ہونگے۔ میاں عبد الرؤف پچھلے انتخابات میں اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔
اب نشست پر سمیع اللہ بوہکا اور رانا عباس خان بھی ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ یہاں پی ٹی آئی سے سابق ٹکٹ ہولڈر محمد اشفاق یا اعجاز بھٹی امیدوار ہونگے ۔

صوبائی حلقہ پی پی 140 شرقپور سے 34 امیدوار سامنے آئے ہیں۔ رانا تنویر حسین کے یہاں نہ لڑنے کی صورت میں ن لیگ کے رانا عباس علی یا افتخار احمد بھنگو امیدوار ہونگے۔ پی ٹی آئی سے اویس عمر ورک امیدوار ہو سکتے ہیں جو ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر ورک کے بیٹے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خوشاب میں ماضی کے اتحادی آمنے سامنے، مخالف ایک دوسرے کے مددگار بن گئے

صوبائی حلقہ پی پی 141 شیخوپورہ سے کل 48 کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تھے۔ میاں جاوید لطیف کی دستبرداری کی صورت میں یہاں ان کے بھائی میاں منور لطیف یا سابق چیرمین بلدیہ امجد لطیف امیدوار ہو سکتے ہیں۔ تاجر رہنما امجد نذیر بٹ بھی ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
اس نشست پر پی ٹی آئی کے بیرسٹر طیاب راشد سندھو ، سابق ایم این اے چوہدری سعید ورک اور میاں علی بشیر نے کاغذات جمع کرا رکھے ہیں۔

استحکام پاکستان پارٹی کے میاں خالد محمود بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ جو دو مرتبہ یہاں سے ایم پی اے بن چکے ہیں اور تحریک انصاف کے صوبائی وزیر رہے۔ ن لیگ سے ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں وہ دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔

 پی پی 142 شیخوپورہ سے 28 کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تھے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے محمود الحق یا سید سجاد حسین ہونگے ۔ جبکہ پی ٹی آئی کے رانا علی سلمان، وقاص محمود مان اور بلال ورک سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سے کون الیکشن الیکشن لڑ پاتا ہے ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

 پی پی 143 فاروق آباد سے 46 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لیے سابق ایم پی اے سجاد حیدر گجر، جہانزیب خان، شہباز احمد چھینہ اور واصف ڈوگر کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی سے سابق ٹکٹ ہولڈر رانا وحید احمد خان امیدوار ہیں۔

 پی پی 144 صفدر آباد میں 48 امیدوار امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں ن لیگ کے رہنما احسن اقبال کے بھائی مجتبیٰ جمال، سجاد حیدر گجر اور عمران حیدر ڈوگر شامل ہیں۔ پی ٹی آئی سے سرفراز ڈوگر نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔

اس بار ن لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔ یہاں پارٹی ووٹ زیادہ ہے اس لیے ان دو پارٹیوں کے سوا کسی اور کے لیے اس ضلع سے سیٹ نکالنا مشکل ہو گا تاہم فیصلہ ووٹر کریں گے۔

تاریخ اشاعت 5 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال احمد اذان کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشن اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ 2011 سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.