پسنی: وافر پانی میسر ہونے کے باوجود شادی کور کی زمینیں بنجر کیوں ہیں ؟

postImg

ملک جان کے ڈی

postImg

پسنی: وافر پانی میسر ہونے کے باوجود شادی کور کی زمینیں بنجر کیوں ہیں ؟

ملک جان کے ڈی

لعل بخش پسنی کے علاقے شادی کور میں پچاس ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں لیکن وہ اس میں سے صرف دس ایکڑ ہی کاشت کر پاتے ہیں باقی 40 ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے زرعی مشینری اور لاکھوں روپے درکار ہیں جو ان کی بس کی بات نہیں۔ اگر وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر رقبہ قابل کاشت بنا بھی لیں تو کاشت کے لیے اتنا سرمایہ کہاں سے آئے گا؟

"زمین ہموار کرنے کے لیے ٹریکٹر والے دو ہزار روپےگھنٹہ لیتے ہیں۔ اگر میں پانچ ایکڑ بھی لیول کراؤں تو تقریباً 50 ہزار روپے لگیں گے جبکہ کھاد، بیچ، پیسٹی سائیڈز اور دیگر اخراجات ملا کر فصل پر تین چار لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ فصل خراب ہو جائے تو راشن بھی کوئی ادھار نہیں دیتا۔ حکومت ویسے ہی مدد نہیں کرتی اور این جی اوز 'زمین دار' کو مال دار سمجھتی ہیں۔

"میں جیسے تیسے دس ایکڑ کاشت کرتا ہوں جہاں میری بیوی اور بچے بھی ساتھ کام کرتے ہیں لیکن دو وقت کی روٹی بمشکل میسر آتی ہے۔"

جمعہ عصاء تحصیل پسنی ہی کے علاقے شادی کور کے رہائشی ہیں جنہوں نے گندم کاشت کی ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال انہوں نے تین ایکڑ گندم اگائی تھی جس پر بیچ، کھاد، سپرے سمیت دو لاکھ خرچ ہوئے لیکن جب فصل تیار ہوئی تو 20 کٹے ( 25 من ) گندم بھی نہیں نکلی۔

"میری محنت مزدوری چھوڑیں میں تو ادھار والی کھاد کی رقم بھی نہیں چکا پایا۔ شادی کور کے کسان وافر پانی میسر ہونے کے باوجود ذلیل و خوار ہیں۔ وسائل کی کمی کے باعث میں نے بھی اب زمین بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس سے بہتر ہےکوئی اور کام ڈھونڈوں۔"

ضلع گوادر کی تحصیل پسنی میں پہاڑوں سے آنے والی ندی 'شادی کور' بہتی ہے جو تقریباً 45 کلومیٹر ہموار ڈھلوانی علاقے سے گذرتی سمندر میں جا گرتی ہے۔ ندی کے دونوں جانب زرخیز زرعی زمینیں اور میدان ہیں۔

2023ء کی مردم شماری ظاہر کرتی ہے کہ اس تحصیل کی کل آبادی  61 ہزار 347 نفوس پر مشمل ہے جن میں سے 26 ہزار 790 افراد  دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔

تاہم ایک اندازے کے مطابق یہاں کی دیہی آبادی میں سے لگ بھگ پانچ ہزار لوگ صرف شادی کور کے علاقے میں رہتے ہیں جن میں  سے80 فیصد آبادی روزی روٹی کے لیے کھیتی باڑی پر انحصار کرتی ہے۔

پسنی کے زراعت افسر اور انچارج کوکونٹ فارم شادی کور وسیم نور بتاتے ہیں کہ اس تحصیل میں لگ بھگ 10 ہزار ایکڑ زرعی رقبہ ہے جہاں مختلف سبزیوں کے علاوہ تربوزہ، خربوزہ، بیر، کجھور، چارہ جات، کاٹن، گندم، گوار اور ماش وغیرہ کاشت ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شادی کور میں پھول گوبھی، گاجر، پالک، بند گوبھی، آلو، مولی، شلغم، بھنڈی، مرچ، ٹماٹر ، لوکی، خیار (کھیرا)، مٹر اور پیاز زیادہ کاشت ہوتے ہیں۔ یہ ضلع کیچ اور گوادر کی 30 سے 40 فیصد سبزی کی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ پسنی شہر کو بھی شادی کور سے سبزی کی ترسیل ہوتی ہے۔

شادی کور ڈیم کی بحالی

تکنیکی معلومات فراہم کرنے والے ادارے'جیو انجنیئر' کے مطابق اس علاقے (شادی کور) کی آبپاشی کے لیے 2003ء میں ساڑھے چار کروڑ( 45 ملین ) روپے کی لاگت سے پسنی شہر کے تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) شمال میں شادی کور ندی پر ایک ڈیم تعمیر کیا گیا تھا جو 10 فروری 2005ء کو شدید بارشوں کے باعث ٹوٹ گیا۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کے مطابق فروی 2005ء میں شادی کور ڈیم ٹوٹنے  سے 82 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ سیلاب سے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب لوگ شدید متاثر ہوئے تھے۔

2008ء میں شادی کور ڈیم کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا جس کی سنٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی  نے 2009ء میں منظوری دی لیکن بعد ازاں (سی پیک کے باعث)  پی سی ون میں ترمیم کی وجہ سے اس پر 2015ء تک کام شروع نہ ہو سکا۔ تاہم نئے پی سی ون میں پسنی، ارد گرد کی آبادیوں اور گوادر کو صاف پانی کی فراہمی کی سکیمیں بھی شامل کی گئی تھیں۔

وفاقی پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے تین ارب 80 کروڑ روپے کی لاگت سے اس ڈیم کے پہلے فیز  کی تعمیر مکمل کی گئی تھی تاہم منصوبے کی مجموعی لاگت کا تخمینہ 7.9 ارب روپے بتایا گیا۔

بعدا ازاں قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ شادی کور  ڈیم 31 اکتوبر 2016ء کو مکمل ہو چکا ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 37 ہزار ایکڑ فٹ ہے جو شادی کور کے سات ہزار 595 ایکڑ (3075 ہیکٹر) رقبے کو 70.28 کیوسک پانی فراہم کرے گا۔

ڈیم کا ہونا نہ ہونا برابر

ایکسیئن آبپاشی بیبگر بابو بتاتے ہیں کہ اس ڈیم سے 70 کیوسک پانی کی فراہمی کے لیے ایک کینال نکالی گئی ہے لیکن اس میں صرف 12 کیوسک سپلائی دی جا رہی ہے۔ جس میں سے آٹھ کیوسک زرعی زمینوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چار کیوسک پانی واٹر ٹینکروں کے ذریعے پسنی شہر کو فراہم کیا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مین آؤٹ لٹ ( کینال) سے 10 واٹر چینل (کھالے) نکالے گئے ہیں جو کھیتوں تک پانی پہنچاتے ہیں۔

شادی کور ڈیم کے ذخیرے کا پانی کمانڈ ایریا (سات ہزار 595 ایکڑ) سے بھی زیادہ زمین سیراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ تاہم یہاں ابھی تک صرف 700 ایکڑ رقبہ ہی زیر کاشت لایا جا سکا ہے، باقی زمینیں بنجر پڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بنجر اراضی میں واٹر چینل (کھالے) نہیں بنائے گئے وہاں پانی پہنچانے کے لیے کسانوں کو خود محنت کرنا پڑے گی۔

ان کے بقول بارش کا سیزن شروع ہوتے ہی ڈیم بھر جاتا ہے اور پانی ندی میں چھوڑنا پڑتا ہے جو ضائع ہو جاتا ہے۔

2016ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جب اس ڈیم کا افتتاح کیا تو مقامی لوگوں کو توقع تھی کہ ان زمینوں کو پانی میسر آنے کے بعد یہاں کسانوں کو کا شت کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں علاقے کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی۔

طاہر بلوچ مقامی زمیندار ہیں جنہوں نے گریجوایشن کے بعد کاشت کاری شروع کر دی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ شادی کور ڈیم بننے کے ساتھ محکمہ آبپاشی نے کچھ کھیتوں اور باغات تک واٹر چینل پہنچا دیے جس سے سبزیوں کی کاشت بڑھ گئی مگر روایتی فصلوں سے تو چھوٹے کاشت کار کی لاگت ہی پوری نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ چاہیے تو یہ تھا کہ محکمہ انہار تمام قابل کاشت زمینوں تک کھال پہنچاتا، نئے بیج، کھادیں، زرعی مشینری، پیسٹی سائیڈز، جڑی بوٹی ختم کرنے والی دوائیں متعارف کرائی جاتیں اور کسانوں کی تربیت ہوتی۔

کسانوں کورقبے آباد کرنے کے لیے سبسڈی پر زرعی مشینری دی جاتیں اور  زرعی بینک وسائل فراہم کرتا۔

"مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔"

محکمہ زراعت کی عذر داریاں

 محکمہ زراعت یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ یہاں کسانوں میں زمین آباد کرنے کی استعداد نہیں ہے مگر کاشت کاروں کی صلاحیت اور وسائل میں اضافے کے لیے کوئی حکومتی ادارہ آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں'، شادی کور ڈیم کے دیہات صاف پانی سے محروم

زرعی ترقیاتی بینک پسنی برانچ کے منیجر کریم بخش بتاتے ہیں کہ ان علاقوں میں اب تک سیٹلمنٹ (بندوبست اراضی) جاری ہے جس کے مکمل ہونے یعنی ریکارڈ محکمہ مال میں آنے تک کسی کو زرعی قرضہ نہیں ملے گا ۔سیٹلمنٹ کے بعد نیا ریٹ مقرر کیا جائے گا۔

 "پہلے ہم بارانی کاشت پر چھ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے قرض دیتے تھے مگر کچھ لوگوں نے لون واپس نہیں کیا جس کے بعد بینک نے یہاں قرض کی فراہمی روک دی ہے۔"

زراعت افسر وسیم نور کا کہنا تھا کہ ان کے محکمے نے پچھلے سال کسانوں کو گندم کا بیچ فراہم کیا تھا۔ اس سال بھی ایک این جی اوز کے تعاون سے کاٹن، تربوز کے بیج اور ادویات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔

"کسانوں کی معاونت کی لیے ایک اور پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ اس بار ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سیمینارز کے ذریعے کاشت کاروں کو تربیت اور معلومات فراہم کی جائیں۔"

رحیم بخش اپنے کنبے کے ساتھ 30 سال سےکاشت کاری کرتے آرہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال انہوں نے تین لاکھ روپے خرچ کرکے تربوز بویا تھا لیکن فصل تیار ہونے والی تھی کہ بارش نے سب ملیا میٹ کر دیا۔

"ہم جہاں سے بیج، کھاد، ادویات، پلاسٹک وغیرہ ادھار لیتے ہیں، فصل بھی اسی سیٹھ کو دیتے ہیں۔ جب لاکھوں کی فصل بارش یا طوفان کی نذر ہو جائے قرض کیسے واپس کریں؟"

تاریخ اشاعت 30 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ملک جان کے ڈی، بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی، مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور وہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.