'سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں'، شادی کور ڈیم کے دیہات صاف پانی سے محروم

postImg

ملک جان کے ڈی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں'، شادی کور ڈیم کے دیہات صاف پانی سے محروم

ملک جان کے ڈی

loop

انگریزی میں پڑھیں

مکران کے گاؤں کَڈکی میں رہنے والی ماسی دُر بی بی پینے کا پانی لینے کے لیے روزانہ سر پر مشکیزہ رکھ کر طویل فاصلہ طے کرتی ہیں۔کڑی مشقت کے بعد انہیں جو پانی ملتا ہے اس کا رنگ گدلا سبز ہوتا ہے جسے پیتے ہوئے کراہت آتی ہے۔

ان کے گاؤں سے صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر شادی کور ڈیم واقع ہے۔ اگر کسی طرح پائپ کے ذریعے اس علاقے میں ڈیم کا صاف پانی پہنچا دیا جائے تو ماسی سمیت بہت سے لوگوں کی مشکل دور ہو سکتی ہے لیکن کئی مطالبوں اور درخواستوں کے باوجود ان لوگوں کی کسی نے نہیں سنی۔

شادی کور مکران کے ضلع کیچ اور گوادر کے درمیان واقع ہے۔ یہ بنیادی طور پر زرعی علاقہ ہے جس کا بڑا حصہ پسنی اور کیچ کے علاقے تربت کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ یہاں سے پسنی تقریباً 45 کلومیٹر اور تربت 130 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

 شادی کور ڈیم کیچ کی حدود میں آتا ہے اور یہ مکران کا دوسرا بڑا آبی ذخیرہ ہے۔ بحری اور شادی کور ندی کو ملا کر بنائے جانے والے اس ڈیم کا افتتاح 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا۔ یہ ڈیم 6650 ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور اس میں 37 ہزار ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔

یہ ڈیم بننے کے بعد محکمہ آبپاشی نے شادی کور کے تمام زرعی علاقے کو واٹر چینلز کے ذریعے پانی کی فراہمی کا بندوبست کیا جس کے بعد شادی کور کے تمام علاقوں میں سبزیوں کی کاشت میں اضافہ ہوگیا۔ اب ضلع کیچ، گوادر اور پسنی شہر کو ترسیل ہونے والی تقریباً 40 فیصد سبزی شادی کور میں پیدا ہوتی ہے جس میں ٹماٹر، بینگن، کدو، بھنڈی، کوسا اور پالک نمایاں ہیں۔

کَڈکی شادی کور کے متعدد دیہات میں سے ایک ہے جن میں تراتی، گورستانی، کَڈکی، کَبڈی، تلوسن، سندھی پاسو، زہرین کہور اور پسنی کی زرعی اراضی کو پانی کی فراہمی اسی ڈیم سے ہو رہی ہے۔ تاہم ڈیم سے محض چند کلومیٹر فاصلے پر واقع ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔

یہاں کے لوگ ڈیم سے نکلنے والے چینلز سے پانی لیتے ہیں۔ایسا ایک بڑا چینل ڈیم سے کَبڈی گاؤں تک جاتا ہے جس سے اردگرد کئی دیہات کے لوگ پانی لیتے ہیں۔ یہ چینل پسنی تک بھی پانی  پہنچاتا ہے جسے شہر میں بچھائی گئی پائپ لائن کے ذریعے ٹینکیوں اور پھر وہاں سےلوگوں کے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم یہ چینل اور کھلے نالوں کی صورت میں ایسی دیگر آبی گزرگاہیں آبپاشی کے لیے تو موزوں ہو سکتی ہیں لیکن پینے اور دیگر گھریلو مقاصد کے لیے ان کا پانی موزوں نہیں ہے۔

زہرین کہور کے کونسلر شاکر علی کا کہنا ہے کہ اس کھلے چینل میں ناصرف لوگ بلکہ مویشی بھی نہاتے ہیں، پانی میں ان مویشیوں کا فضلہ بھی شامل ہوتا رہتا ہے، بعض اوقات کتوں اور دیگر جانوروں کی لاشیں بھی اس چینل میں پائی جاتی ہیں جبکہ شادی کور کے دیہات اور پسنی شہر کے لوگوں کو پانی کی فراہمی کا یہی ایک ذریعہ ہے۔

پسنی کے سماجی کارکن غلام نبی کہتے ہیں کہ اگر کوئی اس پانی کو ایک نظر دیکھ لے تو وہ اسے پینے کی ہمت نہیں کرے گا۔ چینل میں پائی جانے والی گندگی کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اسے پینے والے زندہ کیسے ہیں۔ اس پانی سے علاقےکے لوگوں کو بیماریاں لگ رہی ہیں جن سے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

شاکر علی دہائی دیتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں سے مویشیوں کے بجائے انسانوں جیسا سلوک کیا جائے اور کسی صاف ذریعے سے پینے کے پانی کا بندوبست ممکن بنایا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے دیہات ڈیم سے پانچ کلومیٹر یا اس سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔ اگر ڈیم سے ان دیہات تک زیر زمین پائپوں کے ذریعے پانی پہنچا دیا جائے تو لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے جا رہے ہیں'۔

پسنی میں سول ہسپتال کے ڈی ایچ او ڈاکٹر رؤف نے بتایا کہ ہسپتال میں آنے والے مریضوں میں ذیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے جن میں بیشتر آلودہ پانی پینے کی وجہ سے اسہال، ہیضے، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس اے اور ای میں مبتلا ہوتے ہیں۔

 اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں سالانہ 53 ہزار بچے اسہال کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ملک میں بیماریوں سے ہونے والی 30 سے 40 فیصد اموات آلودہ پانی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں سے ہوتی ہیں۔

پسنی کے رہائشی لطیف سید محکمہ آبپاشی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ڈیم پر تعینات ملازمین کو پابند کریں کہ وہ پانی کی گزرگاہوں (چینلز) کی صفائی قائم رکھنے کا بندوبست یقینی بنائیں اور صاف پانی کیلئے ڈیم سے پسنی شہر تک زیرزمین پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچایا جائے۔

تاریخ اشاعت 5 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ملک جان کے ڈی، بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی، مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور وہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.