اپر دیر خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کا ضلع ہے۔ اس پہاڑی ضلعے کی 12 لاکھ آبادی کا بیشتر حصہ دریائے پنجکوڑہ کے کنارے آباد ہے جبکہ کچھ لوگ پہاڑوں میں بلند مقامات پر بھی رہتے ہیں۔ یہاں بیشتر آبادی پانی کے حصول کے لئے دریائے پنجکوڑہ پر انحصار کرتی ہے جبکہ بالائی علاقوں میں رہنے والے لوگ قدرتی چشموں سے پانی لیتے ہیں۔
دریائے پنجکوڑہ کا پانی پائپوں کے ذریعے قشقارے بالا اور پناہ کوٹ میں بنائی گئی بڑی ٹینکیوں میں لایا جاتا ہے جہاں سے یہ دیر شہر کو سپلائی ہوتا ہے۔
ضلعے میں بعض جگہوں پر واٹر سپلائی سکیمیں بھی موجود ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو ٹیوب ویل کا پانی مہیا کیا جاتا ہے لیکن یہ بڑی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔
اپر دیر میں پچھلے چند سال سے پیٹ کی بیماریوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پچھلے سال یہاں گیسٹرو اور ہیضے کی وبائیں پھوٹ پڑی تھیں جن میں ہزاروں لوگ ہسپتالوں میں لائے گئے۔ اس کے علاوہ یہاں گردوں کے امراض، کینسر اور دل کی بیماریاں بھی پہلے سے بڑھ گئی ہیں اور بیماریوں سے ہونے والی اموات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
دریا کے پانی کو اس علاقے میں صحت کے ان مسائل کا بڑا سبب بتایا جاتا ہے۔
مقامی شہری مقدم خان کا کہنا کہ شہر میں نکاسی آب کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے جس کے باعث لوگ سیوریج کا پانی پائپوں کے ذریعے دریا میں ڈال رہے ہیں۔ اس طرح ناصرف یہ آلودگی گھر گھر پہنچ رہی ہے بلکہ دریاؤں اور ندی نالوں میں آبی مخلوقات کا خاتمہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔
"شہر میں کہیں بھی نہ تو پانی کو فلٹر کرنے کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی پانی جمع کرنے والی ٹینکیوں کی صفائی کی جاتی ہے۔ سیاحوں کی آمد کے سبب یہاں بہت سے ہوٹل بھی قائم ہیں جو اپنا سیوریج دریا میں پھینکتے ہیں اور اس پر روک ٹوک نہیں کی جاتی"۔
اس مسئلے کی شدت آبادی میں اضافے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ مقامی سیاسی قائدین، محکہ پبلک ہیلتھ اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) سمیت کسی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔
تاہم اپر دیر کے اسسٹنٹ کمشنر عثمان علی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ گندا پانی دریاؤں اور ندی نالوں میں ڈالنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس مسئلے کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں اور پانی کی فراہمی کے سب سے بڑے ذریعے دریائے پنجکوڑہ میں سیوریج کا پانی ڈالنے والوں کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی کی گئیں ہیں۔
عثمان علی نے بتایا کہ انہوں نے ٹی ایم اے حکام اور محکمہ نکاسی آب کے عملے کو ہدایات دی ہیں کہ وہ مختلف علاقوں میں سروے کرکے ان جگہوں کی نشاندہی کریں جہاں سیوریج کے پائپ دریاؤں میں ڈالے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریاؤں کو آلودہ کرنے والے لوگوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔
تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریٹر طارق صافی کا کہنا ہے کہ گنجان آباد شہر کے مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں تاہم ان کا محکمہ شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی جگہوں پر دریاؤں اور ندی نالوں میں ڈالے گئے سیوریج کے پائپ ہٹا دیے گئے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف مقدمے بھی درج کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہریوں کو آبی آلودگی اور اس کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً پروگرام بھی منعقد کرائے جا رہے ہیں جن میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ دریاؤں کو آلودہ کرنا انسان اور ماحول کی صحت کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔
ساٹھ سالہ بادشاہ الدین دست اور قے کی شکایت کے باعث کئی روز ہسپتال میں زیرعلاج رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوران علاج انہوں نے ایسے بہت سے مریضوں کو دیکھا جو پیٹ کی شدید بیماریوں میں مبتلا تھے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ اس کا سبب آلودہ پانی ہے۔
بادشاہ الدین سمجھتے ہیں کہ لوگ آبی آلودگی کے نقصانات سے آگاہ ہیں لیکن اس کے باوجود خودغرضی، لالچ اور لاپروائی کے باعث صاف پانی کے ذرائع کو آلودہ کرتے اور دوسروں کے ساتھ اپنی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کل رات جو بوڑھا شجر کٹ کے گرا ہے: جنگلات سے لکڑی چوری کے باعث اپر دیر میں برف باری کم ہوگئی ہے اور گرمی زیادہ۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اپر دیر کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امتیاز احمد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی بیشتر تعداد پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ شہر میں سپلائی ہونے والا پینےکا پانی فلٹر کرنے کا کوئی انتظام نہیں جبکہ قدرتی ذرائع سے آنے والا یہ پانی سیوریج کے زہریلے اجزا سے آلودہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس پانی میں مضر صحت کیمیائی مادوں کی مقدار معمول سے بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے سنگین امراض جنم لیتے ہیں جبکہ قدرتی چشموں کے پانی کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے سے پتا چلا ہے کہ ان میں کیلشیئم اور آئرن بڑی مقدار میں پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر امتیاز تجویز دیتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ایسے عناصر کے خلاف فوری کارروائی کرے جو دریاؤں کو سیوریج کے پانی سے آلودہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو بھی آگاہی دینا ضروری ہےکہ اس مسئلے پر قابو پا کر سبھی کی صحت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 2 جون 2023