راجن پور کی تحصیل روجھان مزاری کے سینٹری ورکر اعجاز احمد 17 اپریل 2023 کی شام جیسے ہی گٹر میں اترے تو سیوریج لائن کی زہریلی گیس نے ان کے حواس منقطع کر دیے اور وہ بے ہوش ہو کر گر گئے۔ کچھ دیر کے بعد گٹر کے باہر موجود ان کے ساتھی محمد حسین نے انہیں آواز دی۔ کوئی جواب نہ پا کر وہ اعجاز کی خیریت معلوم کرنے گٹر میں اترے اورخود بھی زہریلی گیس کے اثر سے بے ہوش ہو گئے۔
جب بلدیہ کے اہلکار ڈسپوزل پوائنٹ پر پہنچے تو دونوں کو گٹر میں اوندھے منہ گرا پایا۔ اہلکاروں نے انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا لیکن اس وقت تک دونوں کی موت ہو چکی تھی۔
گٹروں اور نالیوں کی صفائی اعجاز احمد کا خاندانی پیشہ تھا۔ ان کے والد غلام نبی بھی بلدیہ روجھان مزاری میں سینٹری ورکر رہ چکے تھے۔ پندرہ سال پہلے جب ان کا دوران ملازمت انتقال ہوا تو محکمے نے ان کی جگہ ان کے بیٹے اعجاز کو نوکری دے دی تھی۔
اگرچہ اعجاز سینٹری ورکر کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے لیکن ان سے بند گٹر کھولنے کا کام بھی لیا جاتا تھا جو اصولاً سیورمین کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ انہیں اس کام کے لئے بلدیہ کی جانب سے گیس ماسک، آکسیجن سلنڈر، ڈرائی سوٹ اور گیس ڈیٹیکٹر جیسا کوئی ضروری سامان بھی نہیں دیا جاتا تھا۔
دراصل اسی سامان کی عدم دستیاب ہی ان کی موت کا سبب بنی۔ انہوں نے سوگواروں میں بیوہ اور چار بچے چھوڑے ہیں۔
اعجاز احمد کے ساتھ فوت ہونے والے محمد حسین بلدیہ میں سینٹری ورکر کی پوسٹ پر تعینات اونچی ذات والے ایک اہلکار کی جگہ آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر صفائی کا کام کرتے تھے۔ ان کے خاندان کو بلدیہ کی جانب سے کسی معاوضے یا نوکری کی بھی امید نہیں ہے۔
اس نمائندے نے جب ان ہلاکتوں کے محرکات کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے بلدیہ روجھان کے چیف آفیسر کے دفتر سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ وہاں پچھلے چھ ماہ سے کوئی چیف افسر تعینات نہیں ہے اور بلدیہ کا اضافی چارج ضلع کونسل راجن پور کے چیف آفیسر ساجد ریاض کے پاس ہے۔
بلدیہ کی جانب سے سینٹری ورکرز کو کوئی حفاظتی سامان مہیا نہیں کیا جاتا
بلدیہ روجھان کے سینیٹری سپروائزر ندیم گوکھانی نے بتایا کہ شہر میں سیوریج لائن بیس سال پہلے متحدہ عرب امارات کے مالی تعاون سے بچھائی گئی تھی لیکن اس کے لئے سیورمین بھرتی نہیں کئے گئے تھے اور نہ ہی عملے کو سپورٹ کٹس فراہم کی گئی تھیں۔
''بلدیہ میں اس وقت پچاس سینٹری ورکرز تعینات ہیں جن میں سے آٹھ بوقت ضرورت سیوریج لائن کی صفائی کا کام بھی کرتے ہیں۔ سیوریج لائن بند ہونے کی صورت میں سینٹری ورکر کو گیس ماسک اور دیگر حفاظتی سامان کے بغیر گٹر میں اترنا پڑتا ہے۔ اگر اعجاز اور محمد حسین کے پاس حفاظتی سامان ہوتا تو ان کی جانب بچ سکتی تھی۔''
دفتر میں موجود کلرک عبدالرؤف نے فنڈز کی قلت کو عملے کو حفاظتی سامان مہیا نہ کرنے کا بنیادی سبب بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلدیہ کو پنجاب حکومت کی جانب سے تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے ماہانہ 53 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ ضرورت 90 لاکھ روپے کی ہے۔
''چند سال پیشتر ڈویلپمنٹ ٹیکس، لائسنس فیس، پروفیشنل ٹیکس، تہہ بازاری فیس اور مویشی منڈی کے ٹھیکوں سے بلدیہ کو اچھی آمدنی ہوتی تھی۔ لیکن مختلف ادوار میں حکومتوں نے یہ ٹیکس ختم کر دیے جس سے اخراجات کے مقابلے میں بلدیہ کے ذرائع آمدنی کم ہو گئے۔ اس وقت بلدیہ روجھان کے ذمے واپڈاکے 93 لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔ ہمیں پنجاب حکومت کی جانب سے جو فنڈ ملتے ہیں ان سے عملے کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ مالی وسائل کی اس قدر قلت ہے کہ ہم سیوریج لائن کے گٹروں کے ڈھکن تک نہیں خرید سکتے۔''
یہ بھی پڑھیں
لوگوں کو صحت مند ماحول دینے والوں کی اپنی جان داؤ پر: حفاظتی سامان اور سہولتوں سے محروم ساہیوال کے سینٹری ورکرز
مقامی شہری محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ سیوریج لائن تو بچھا دی جائے مگر اس کی صفائی کے لیے سیور مین بھرتی نہ کیے جائیں۔ ایسا صرف پسماندہ علاقوں میں ہو رہا ہے جہاں گلی میں جھاڑو لگانے کے لیے بھرتی ہونے والے سینٹری ورکر کو ننگے بدن سیوریج کے زہریلے کنویں میں اتار دیا جاتا ہے۔ ان میں جو اہلکار خوش قسمت نہ ہوں وہ گٹر سے باہر کبھی نہیں آ پاتے۔
اعجاز احمد کے ساتھ کام کرنے والے انتیس سالہ سینٹری ورکر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان سے وہ کام نہیں لیا جاتا جس کے لئے انہیں بھرتی کیا گیا ہے۔
''ہم سے کسی طرح کے حفاظتی انتظامات کے بغیر سیوریج کی مین لائن اور بڑے گٹر صاف کرائے جاتے ہیں۔ ہم غریب لوگ افسروں کی ناراضگی کے ڈر سے انہیں انکار بھی نہیں کر سکتے اور اسی لئے ان حالات کو مقدر کا لکھا سمجھ کر خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں۔''
تاریخ اشاعت 29 اپریل 2023