لوگوں کو صحت مند ماحول دینے والوں کی اپنی جان داؤ پر: حفاظتی سامان اور سہولتوں سے محروم ساہیوال کے سینٹری ورکرز

postImg

الویرا راشد

postImg

لوگوں کو صحت مند ماحول دینے والوں کی اپنی جان داؤ پر: حفاظتی سامان اور سہولتوں سے محروم ساہیوال کے سینٹری ورکرز

الویرا راشد

گجر محلہ ساہیوال کے اصغر مسیح پچھلے 12 سال سے بلدیہ ساہیوال میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی ہر وقت داؤ پر لگی رہتی ہے اور وہ تین بار مرتے مرتے بچے ہیں۔

انہیں محکمے میں سینیٹری ورکر کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا لیکن ان سے سیور مین کا کام لیا جا رہا ہے۔ انہیں نہ تو اس کام کی تربیت دی گئی ہے اور نہ ہی چہرے کے ماسک، آکسیجن سلنڈر، گیس ڈیٹیکٹر، ڈرائی سوٹ اور مخصوص جوتوں جیسا کوئی حفاظت سامان ملا ہے۔

وہ اپنے کام کے دوران تین مرتبہ زہریلی گیس کا شکار ہو چکے ہیں۔ حادثوں کے موقع پر انہیں محکمے کے بجائے مقامی لوگوں نے ہسپتال پہنچایا جبکہ اپنے علاج پر اٹھنے والے اخراجات بھی انہوں نے اپنی جیب سے کیے۔

"جب میں گٹر میں اترتا ہوں تو مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ زندہ سلامت واپس آؤں گا یا نہیں۔ میں نے محکمے کو بارہا کہا ہے کہ مجھے سیور مین کا کام نہیں کرنا لیکن جواب میں نوکری سے نکالنے کی دھمکی دے دی جاتی ہے۔ اس لیے میں مجبوراً یہ کام کر رہا ہوں"۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں چھٹی والے دن بھی کام کا بلاوا آ جاتا ہے، لیکن اضافی کام کے پیسے نہیں دیے جاتے۔

گجر محلے ہی کی رہنے والی سمیعہ شفیق کو بلدیہ ساہیوال میں سینیٹری ورکر کے طور پر کام کرتے ہوئے دو ماہ ہو گئے ہیں۔

وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔انہوں نے سجاگ کو بتایا  کہ محکمے والوں کی طرف سے ان کے لیے صفائی کا کوئی علاقہ مختص نہیں کیا گیا،  افسروں کا جہاں دل کرتا ہے اُدھر ڈیوٹی لگا دیتے ہیں۔

"ہمیں محکمے کی طرف سے نہ تو کوئی سواری دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی الاؤنس۔ جو تنخواہ ملتی ہے وہ کرایوں میں چلی جاتی ہے۔ ہمیں حفاظتی ماسک بھی نہیں دیے جاتے"۔

خرم کھوکھر سینیٹری ورکروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم تحفظ ورکر لیبر یونین کے صدر ہیں۔ وہ بلدیہ ساہیوال میں بطور سینیٹری سپروائزر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

<p>سیور مین نہ ہونے کی وجہ سے گٹروں کی صفائی یا انہیں کھولنے کا کام سینٹری ورکرز  سے لیا جا رہا ہے<br></p>

سیور مین نہ ہونے کی وجہ سے گٹروں کی صفائی یا انہیں کھولنے کا کام سینٹری ورکرز  سے لیا جا رہا ہے

انہوں نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ بلدیہ ساہیوال میں کام کے دوران کسی بھی سینیٹری ورکر کو حفاظتی سامان نہیں دیا جاتا اور نہ ہی محکمے کی طرف سےعلاج معالجے کی کوئی سہولت موجود ہے۔

"بلدیہ کے پاس سیور مین نہیں ہیں ، گٹروں کی صفائی یا انہیں کھولنے کا کام سینٹری ورکر سے لیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھرتی کے وقت ہماری زمہ داریاں نہیں بتائی جاتیں۔ ہم افسر کے حکم کے تابع ہوتے ہیں، وہ جس سے جو مرضی کام لیں"۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مسائل کے بارے میں اپنی یونین کے پلیٹ فارم سے بارہا افسران بالا کو آگاہ کیا ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔

"سینی ٹیشن برانچ کے عملے کو ترقی بھی نہیں دی جاتی ایک ورکر جس اسامی پر بھرتی ہوتا ہے وہ ساری زندگی اسی پر کام کرتے ہوئے ریٹائر ہو جاتا ہے"۔

خرم نے بتایا کہ جو ورکر خاکروب کا کام کرتے ہیں حفاظتی ماسک نہ ہونے کی وجہ اکثر سانس کی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔

"روزانہ کے اوقات کار آٹھ گھنٹے ہیں، لیکن کسی ایمرجنسی یا زیادہ بارش ہونے کی صورت میں انہیں روک لیا جاتا ہے، چاہے کوئی اپنی ڈیوٹی کے آٹھ گھنٹے پورے ہی کیوں نہ کرچکا ہو"۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں اوور ٹائم حاصل کرنے کے لیے یونین کا پلیٹ فارم استعمال کرنا پڑتا ہے، کبھی تو اضافی کام کی ادائیگی کر دی جاتی اور کبھی نہیں کی جاتی۔

"ہمارے ورکر کسی حفاظتی بندوبست کے بغیر رسی کی مدد سے ہاتھوں میں بالٹی لیے گٹر میں اترتے ہیں۔ انہیں بدبودار زہریلی گیسوں میں سانس لینا ہوتا ہے۔ اکثر سینیٹری ورکر صحت کے مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں"۔

بلدیہ ساہیوال کے ریکارڈ کے مطابق سینیٹری ورکر کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 355 ہے جن میں سے 44 اسامیاں خالی ہیں۔ محکمے کی طرف سے ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ سال سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کو لکھے گئے مراسلے میں مزید 150 سینڑی ورکروں اور 50 سیورمینوں کی تقرری کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

<p> سیور مینوں کی بڑی تعداد ناقص منصوبہ بندی اور عام سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا رہی ہے<br></p>

 سیور مینوں کی بڑی تعداد ناقص منصوبہ بندی اور عام سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا رہی ہے

بلدیہ ساہیوال میں صفائی برانچ کے سپرنٹنڈنٹ شیخ عمر تصدیق کرتے ہیں کہ سینیٹری ورکر سے سیور مین کا کام لیا جاتا ہے۔

"سیور مین کی بھرتی کے لیے درخواست حکومت کو بھیجی ہوئی ہے۔ ہمارے محکمے کے پاس فنڈ نہیں ہیں اس لیے جو بجٹ دیا جاتا ہے اسی میں تمام انتظام کرنا ہوتا ہے"۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ محکمہ سینیٹری سپروائزر کو چہرے کا ماسک، آکسیجن سلنڈر، گیس ڈیٹیکٹر، ڈرائی سوٹ، بیلٹ اور رسہ بھی فراہم کرتا ہے۔

بلدیہ ساہیوال کے سینیٹری انسپکٹر عامر لودھی بتاتے ہیں ان کے محکمے کی صفائی برانچ میں دو طرح کا عملہ  کام کر رہا ہے جن میں ایک مستقل اور دوسرا دیہاڑی پر ملازم ہے۔ دیہاڑی والوں کو حکومت نے چار سال سے مستقل ورک مین کا درجہ دیا ہوا ہے۔

"بلدیہ ساہیوال میں 168 کارکن مستقل ورک مین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہیں صرف تنخواہ ہی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں تنخواہ میں سالانہ اضافے، میڈیکل الاؤنس، حادثے یا بیماری کی صورت میں کوئی اور مراعات وغیرہ نہیں ملتیں بھلے وہ کتنے ہی سال سے بلدیہ میں کام کیوں نہ کر رہے ہوں۔''

ملازمین کے دعوے سے برعکس ان کا یہ کہنا ہے کہ کام کے دوران کسی حادثے کی صورت میں علاج معالجے کے اخراجات کی تفصیل فراہم کرنے پر محکمے کی جانب سے انہیں ادائیگی کر دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'گندے بدبودار پانی کی وجہ سے ہم لوگ رات کو سو نہیں سکتے': نارووال میں سیوریج سسٹم نہ ہونے سے شہریوں کی زندگی اجیرن

انسانی حقوق کے کارکن اشک ناز کھوکھر کہتے ہیں کہ ملک میں صفائی ستھرائی کے کارکنوں کے لیے کئی دہائیوں سے کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ سیور مینوں کی بڑی تعداد ناقص منصوبہ بندی اور عام سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صفائی کے کام کے لیے نوکریوں کے اشتہار میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس نوکری کے لیے صرف "غیر مسلم" ہی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ ملازمت اور پیشے کے حوالے سے امتیازی سلوک سے متعلق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن 111 اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سینیٹری ورکروں کو بغیر کسی حفاظتی سامان کے گٹر میں اتارنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے تمام سینیٹری ورکرز کو ریگولرائز کیا جائے، ان کے کام میں شامل خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تنخواہ اور ہیلتھ انشورنس میں اضافہ کیا جائے، انہیں وقتاً فوقتاً انہیں ویکسینیشن فراہم کی جائے اور حفاظتی سامان کے استعمال، صحت کو لاحق خطرات اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تربیت بھی دی جائے۔

تاریخ اشاعت 4 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الویرا راشد کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ پچھلے دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل اور زراعت ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.