ضلع سانگھڑ کی ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کم ہونے سے زیادہ پریشان کون ہے؟ پی پی یا فنکشنل لیگ

postImg

اميربخش بڑدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ضلع سانگھڑ کی ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کم ہونے سے زیادہ پریشان کون ہے؟ پی پی یا فنکشنل لیگ

اميربخش بڑدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

نئی حلقہ بندیاں رقبے کے لحاظ سے سندھ کے دوسرےبڑےضلع سانگھڑ پر بھاری ثابت ہوئی ہیں۔ یہاں قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی ایک ایک نشست کم ہونے سے دونوں متحارب سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل پریشان ہیں۔ تاہم ابھی تک اعتراضات صرف پی پی پی ہی کے سامنے آئے ہیں۔

پچھلی مردم شماری میں رقبے کے لحاظ سے سندھ کے دوسرے بڑے ضلع سانگھڑ کی آبادی 20 لاکھ 49 ہزار 873 تھی اور انتخابی حلقہ بندی میں یہاں تین قومی اور چھ صوبائی نشستیں دی گئی تھیں۔

حالیہ آدم شماری میں اس ضلعے کی آبادی23 لاکھ آٹھ ہزار 465 قرار پائی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اب سندھ میں کوٹے کے حساب سے ہر قومی حلقہ نو لاکھ 13 ہزار 52 یا اس کے قریب آبادی پر مشتمل ہو گا۔ جبکہ صوبائی حلقہ اب چار لاکھ 28 ہزار 432 آبادی پر بنایا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ضلع سانگھڑ میں 2.53 قومی حلقے بنتے تھے تاہم یہاں دو حلقے دیئے گئے ہیں۔باقی اضافی 0.53 نشست نظر انداز کر کے ایک حلقہ ختم کردیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سانگھڑ میں کوٹے کے تحت سندھ اسمبلی کے 5.39 حلقے بنتے تھے۔ لیکن یہاں اب پانچ حلقے دیئے گئے ہیں۔باقی اضافی 0.39 نشست کو نظر انداز کر کے ایک صوبائی حلقہ بھی تحلیل کر دیا گیا ہے۔

پچھلے الیکشن میں اس ضلعے کے تین قومی حلقے این اے 215، این اے 216 اور این اے 217 تھے۔ اب نئی حد بندی میں ایک حلقہ ختم ہونے کے ساتھ یہاں حلقوں کے نئے سیریل نمبر بھی این اے 209 اور این اے 210 ہو گئے ہیں۔

تحلیل ہونے والے قومی حلقہ این اے 216 (سابقہ) میں تعلقہ (تحصیل) جام نواز علی، تعلقہ کھپرو، سانگھڑ تعلقہ کی ٹاؤن کمیٹی کنڈیاری، پیروں مل، سادھنو، بہرم بھری، سنجھورو تعلقہ کے تپیداری (پٹوار)سرکلز  بوبی، دھرم رکھی، لاکھا، شفی محمد اور تھہیم شامل تھے۔

سانگھڑ کا دوسرا قومی حلقہ سانگھڑ اور سنجھورو تعلقہ جات (تحصیلوں) پر مشتمل تھا۔ جبکہ تیسرے حلقے میں ٹنڈو آدم اور شھدادپور شامل تھے۔ نئی حلقہ بندی میں سابقہ این اے 216 کے علاقوں کو دیگر دو قومی حلقوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی نئی تجاویز کے مطابق اب این اے 209 سانگھڑ ون، سانگھڑ تعلقہ،کھپرو تعلقہ، جام نوازعلی تعلقہ کے علاوہ سنجھورو تعلقہ کی جھول سپروائزری تپیداری سرکل اور ٹاؤن کمیٹی جھول کی آباد یوں پر مشتمل ہو گا۔

اسی طرح این اے 210 سانگھڑ ٹو میں ٹنڈو آدم تعلقہ، شہداد پور تعلقہ کے علاوہ جھول سپروائزری تپیداری سرکل اور ٹاؤن کمیٹی جھول کے سوا سنجھورو تعلقہ کی باقی آبادیوں کو شامل کیا گیا ہے۔

تحلیل ہونے والا قومی حلقہ این اے 216 کبھی فنکشنل مسلم لیگ یا 'حُر جماعت ' کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 2013ء میں پیپلز پارٹی کی شازیہ عطا مری نے یہ نشست فنکشنل لیگ سےچھین لی۔ پھر 2018ء میں بھی انہوں نے جی ڈی اے کے کشن چند پروانی کو ہرا دیا تھا۔

سانگھڑ سنجھورو والا قومی حلقہ بھی پچھلے الیکش میں پیپلز پارٹی کے نوید ڈیرو نے پہلی بار فنکشنل لیگ سے جیت لیا تھا۔

کھپرو کے سماجی کارکن 65 سالہ گلاب مھراج بتاتے ہیں کہ حُر جماعت کے خلیفے یہاں ترقیاتی کام پر توجہ نہیں دیتے تھے اور نہ ہی لوگوں سے رابطہ رکھتے تھے۔

"وہ سمجھتے تھے کہ ووٹ پیر پگارا کی وجہ سے ملتے ہیں تو آئندہ بھی ملتے رہیں گے۔ مگر ان کی سوچ غلط ثابت ہوئی۔"

گلاب مہراج کہتے ہیں کہ جب شازیہ مری نے حلقے میں ترقیاتی کام کرائے اور لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہیں تو پیپلز پارٹی نے یہاں قدم جما لیے۔ اب اس حلقےکا ختم ہونا شازیہ مری اور ان کی پارٹی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔

 شازیہ مری تعلقہ جام نواز علی کے مرکزی شہر بیرانی کی رہائشی ہیں۔ ان کے والد عطا محمد مری یہاں سے رکن صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر رہے جبکہ ان کی والدہ پروین عطا مری بھی رکن اسمبلی رہیں۔

سابق ایم این اے شازیہ عطا مری نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ایک صوبائی اور ایک قومی نشست کا خاتمہ سانگھڑ کے عوام سے ناانصافی ہے۔ دوسرے صوبوں میں اس سے کم ووٹوں پر نشتیں بحال ہیں تو یہاں ایسا کیوں ہوا ہے؟ پیپلز پارٹی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔

ضلع سانگھڑ کی حلقہ بندیوں پر تین نومبر تک الیکشن کمیشن میں شہریوں، امیدواروں اور ان کے حامیوں کی جانب سے اعتراضات پر مشتمل 20 درخواستیں دائر کی جا چکی تھیں۔

پی پی رہنما شازیہ مری کی بہن سینیٹر قرۃ العین مری بھی اعتراضات داخل کرنے والوں میں شامل ہیں۔جنہوں نے ضلع سانگھڑ میں ایک قومی حلقہ کم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ درخواست میں تینوں قومی حلقے برقرار رکھنے کی استدعا کی گئی ہے اور اس کے لیے متبادل تجاویز بھی دی گئی ہیں۔

ان کے علاوہ عبدالحکیم راجڑ اور عبدالقادر راجڑ کی درخواستوں میں بھی سانگھڑ کے تین قومی حلقے بنانے کی استدعا اور تجاویز دی گئی ہیں۔باقی اعتراضات حلقوں کی تشکیل اور ردوبدل کے حوالے سے داخل کرائے گئے ہیں۔

سینیئر صحافی وفا رضا بتاتے ہیں کہ اب سانگھڑ اور کھپرو  کا ایک حلقہ بننے سے پیپلز پارٹی کو ٹکٹوں کی تقسیم سمیت کئی مشکلات ہوں گی۔ جبکہ فنکشنل لیگ کو حُر ووٹ اکٹھا ہونے کا فائدہ نظر آ رہا ہے۔

 "اس حلقے میں مقیم پنجابی برادریاں مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی اور ف لیگ کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ سانگھڑ، سنجھورو اور کھپرو شھروں میں اردو بولنے والےایم کیو ایم کے زیر اثر ہیں۔ اتحاد کی صورت میں فنکشنل لیگ کو فائدہ ہو سکتا ہے تاہم انہیں بھی یہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ منتقل ہونے کا نقصان ہو سکتا ہے۔"

نئی حلقہ بندی میں قومی نشست کی طرح ضلع سانگھڑ میں ایک صوبائی نشست بھی کم ہو گئی ہے۔پہلے یہاں  چھ صوبائی حلقے  پی ایس 41 سے پی ایس 46 تک  تھے۔ اب نئے پانچ حلقوں کے سیریل نمبر پی ایس 40 سےشروع ہو کر پی ایس 44 تک ہیں۔

پہلے یہاں ہر تعلقہ(تحصیل)کو صوبائی نشست دی گئی تھی۔ مگر اب تعلقہ جام نواز علی (سابقہ پی ایس 42) کی آبادیوں کو سنجھورو، سانگھڑ اور ٹنڈو آدم کے صوبائی حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خوشاب میں ایک صوبائی نشست کا اضافہ، " پرانی غلطیوں کو کسی حد تک سدھار لیا گیا"

تعلقہ جام نواز علی کی صوبائی نشست جام خاندان کی میراث رہی ہے۔ مرحوم جام صادق علی کے بعد ان کے فرزند جام معشوق علی اور پھر جام مدد علی یہاں سے منتخب ہوتے رہے۔ جام مدد علی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو یہ حلقہ بھی پی پی کا ہو گیا۔

وفا رضا کہتے ہیں کہ تعلقہ جام نواز علی کو سانگھڑ(نیا پی ایس 42 )میں ضم کرنے سے فنکشنل لیگ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ یہاں نظامانی، راجڑ اور جونیجو برادریاں تو ہمیشہ حُر جماعت کے ساتھ رہی ہیں۔

"مگر چکوک کے ووٹرز تقسیم ہیں۔ تعلقہ جام نواز علی میں جام خاندان اور شازیہ مری کا بہت اثر ہے۔ وہاں کے تمام ووٹرز بھی اسی حلقے میں شامل ہو گئے ہیں۔اس لیے ف لیگ بہت مشکل میں نظر آتی ہے جو پچھلی بار یہاں بہت ہی کم مارجن سے جیتی تھی۔"

پیپلز پارٹی ضلع سانگھڑ کے صدر علی حسن ہنگورجو کہتے ہیں کہ سانگھڑ کی قومی اور صوبائی نشستوں کا خاتمہ عوام کا نقصان ہے۔ ان حلقوں کی بحالی کے لیےآخر تک قانونی جنگ لڑیں گے۔

فنکشنل لیگ کے رہنما حاجی خدابخش درس کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندی کو قبول کرنے یا اپیل کرنے کا فیصلہ قیادت کرے گی۔

تاریخ اشاعت 14 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے اميربخش بڑدی سینیئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ مختلف اخباروں میں سیاست، ماحولیات، تاریخ، سوشل اشوز اور مختلف کرنٹ اشوز پر کالم لکھتے رہتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.