ملتان پر سینڈ فلائی کا حملہ: زخمی چہرے لیے مریض علاج کی تلاش میں دربدر

postImg

شہزاد عمران خان

postImg

ملتان پر سینڈ فلائی کا حملہ: زخمی چہرے لیے مریض علاج کی تلاش میں دربدر

شہزاد عمران خان

رانا اسلم اندرون حسین آگاہی ملتان کے رہائشی ہیں۔ چھ مہینے پہلے ان کے چہرے پر"مکھی نما کسی چیز" نے کاٹ لیا۔ پہلے تو انہیں کوئی تکلیف نہ ہوئی لیکن ایک ماہ بعد انہیں شدید بخار نے آ لیا جس کے ساتھ جسم میں درد بھی رہنے لگا۔ یہی نہیں بلکہ جس جگہ مکھی نے کاٹا تھا وہاں زخم ہو گیا اور اس سے پیپ بھی رسنے لگی۔

کچھ ہی عرصہ میں ان کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ اہلخانہ اور دوست بھی ان سے دور رہنے لگے۔ جب انہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ انہیں سینڈ فلائی نے کاٹا ہے جس کا علاج صرف 'گلوکن ٹائم' انجکشن سے ہی ممکن ہے۔
رانا اسلم بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے انہیں علاج تو بتا دیا لیکن اس کا حصول بجائے خود ایک مسئلہ بن گیا۔

"میں کئی روز تک ملتان کے میڈیکل سٹوروں پر یہ انجکشن تلاش کرتا رہا مگر ناکامی ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی اسے تلاش کیا لیکن یہ کہیں دستیاب نہیں تھا۔'' طویل کوشش کے بعد کہیں جا کر وہ اس انجکشن کے حصول میں کامیاب ہوئے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ انجکشن پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے اس کی سرکاری سطح پر درآمد بھی ممکن نہیں۔ چونکہ یہ سمگل ہو کر پاکستان میں آتا ہے اس لیے دکاندار اس کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں جو ایک سے دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

اسلم کی طرح دولت گیٹ کے مبین بھی سینڈ فلائی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انجکشن نہ ملنے کے باعث ان کے چہرے کا زخم بری طرح خراب ہو گیا جس کے نتیجے میں ان کے لیے کہیں آنا جانا بھی ممکن نہ رہا اور اب ان کی سماجی زندگی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

سینڈ فلائی کیا ہے؟

ملتان میں سینڈ فلائی اپنی رنگت کی وجہ سے سفید مکھی کے نام سے مشہور ہے۔

یہ زہریلی مکھی عام طور پر آتی گرمیوں میں لوگوں کو نشانہ بناتی ہے مگر اس بار یہ پہلے ہی  حملہ آور ہو گئی ہے۔

ان مکھیوں کی لمبائی تین ملی میٹر ہوتی ہے اور یہ سفید، سنہری، بھوری یا سرمئی رنگ کی ہوسکتی ہیں۔ دیہی ماحول میں یہ مکھیاں عام طور پر کیچڑ، درختوں کے کھوکھلے تنوں یا لکڑی کے خشک لٹھوں میں پرورش پاتی ہیں جبکہ شہروں میں مرطوب اور اندھیری عمارتوں میں رہتی ہیں۔ ان کے انڈوں کی افزائش گٹروں، نالیوں، پرانے گھروں کے نمدار اور تاریک کھونے کھدروں میں ہوتی ہے۔ خستہ دیواروں کی دراڑیں اور چوہوں کے بل بھی ان کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔

<p>گلوکن ٹائم انجکشن پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے یہ سمگل ہو کر پاکستان میں آتا ہے <br></p>

گلوکن ٹائم انجکشن پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے یہ سمگل ہو کر پاکستان میں آتا ہے

مادہ سینڈ فلائی جانوروں اور انسانوں کے خون پر پلتی ہے اور خاص طور پر انڈے دینے سے پہلے اسے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم نر اور مادہ دونوں ایسے غذائی اجزا پر بھی پرورش پاتے ہیں جن میں شوگر کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔

اس مکھی کے کاٹنے کے کچھ دن بعد متاثرہ جگہ پر زخم بن جاتا ہے۔ جس سے پیپ رستی رہتی ہے۔ ایسے زخم ٹھیک ہونے کے بعد زندگی بھر کے لیے بدنما داغ چھوڑ جاتے ہیں۔

سینڈ فلائی کے ایک بار کاٹنے کے بعد انسانی جسم میں قدرتی طور پر اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے اور دوبارہ اس کے کاٹنے سے زخم یا بخار نہیں ہوتا۔

بخار، بے چینی، آنکھوں اور سر میں درد سینڈ فلائی کے کاٹنے کی عام علامات ہیں۔ اس کی شدید علامات دو سے چار دن تک رہتی ہیں۔بخار سخت ہو تو اسے دور ہونے میں ایک ہفتہ لگتا ہے۔

گلوکن ٹائم انجکشن نایاب کیوں ہے؟

ملتان کے شہباز شریف ہسپتال میں خدمات انجام دینے والی ماہر امراض جلد ڈاکٹر عاصمہ بانو بتاتی ہیں کہ پہلے ملتان کے چند مخصوص علاقوں سے ہی اس مکھی کے کاٹے کے مریض ان کے پاس آتے تھے۔ لیکن اب ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ "اگر یہ کہا جائے کہ پورا ملتان شہر سینڈ فلائی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا"۔

انہوں نے کہا کہ درخت کاٹے جانے کے باعث سینڈ فلائی شہروں کا رخ کر چکی ہے جبکہ ماحول اور موسم کی تبدیلی بھی اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے۔

ڈاکٹر عاصمہ کے مطابق شہباز شریف ہسپتال میں گزشتہ کئی ماہ سے گلوکن ٹائم انجکشن دستیاب نہیں ہے اس لیے وہ مریضوں کو نشتر ہسپتال بھیج دیتے ہیں۔

ڈی ایچ او پریونیٹو سروسز ملتان ڈاکٹر فاروق احمد تصدیق کرتے ہیں کہ شہر میں سینڈ فلائی کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

"ہمارے پاس ناکافی سہولیات ہیں اور اس کے علاج کی دوا صرف گلوکن ٹائم انجکشن ہے جو مارکیٹ میں بمشکل ہی ملتا ہے۔''

انہوں نے بتایا کہ نشتر ہسپتال میں اس کے علاج کا سنٹر بنایا گیا تھا لیکن وہ بھی ادویات نہ ملنے کی وجہ سے تاحال غیر فعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

علاج یا نشہ: کنٹرولڈ آئٹمز میں شامل کیٹامین دوا کی ضرورت سے زیادہ درآمد کے پیچھے کیا راز ہے؟

نشتر ہسپتال کے حکام  کا کہنا ہے کہ سینڈ فلائی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ انجکشن نہ ملنے کی صورت میں مریض کو عارضی سکون کے لئے ادویات لکھ دی جاتی ہیں جو اس مرض کا علاج تو نہیں البتہ ان سے تکلیف ضرور کم ہو جاتی ہے۔

نشتر ہسپتال میں پچھلے دو ماہ کے دوران روزانہ سینڈ فلائی سے متاثرہ 10 سے 15مریض آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق کہتے ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ حکام کو انجکشن کی رجسٹریشن کے لیے بارہا یاد دہانی کروائی ہے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں شعبہ ڈرماٹالوجی کے سربراہ ڈاکٹر راحیل طاہر کا کہنا ہے کہ سینڈ فلائی کے مریض کومسلسل 28 روز تک روزانہ دو انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ انجکشن کی کمیابی کے سوال پر ان کا کہنا تھا ''چونکہ یہ انجکشن سمگل ہو کر آتا ہے اس لیے بیشتر میڈیکل سٹور چھاپے کے ڈر سے اسے اپنے پاس نہیں رکھتے کہ کہیں ان کی دکان کو سیل نہ کردیا جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی اس بیماری کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ 

تاریخ اشاعت 9 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.