آٹھ فروری 2024ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ضلع ساہیوال میں قومی اسمبلی کی تین اور پنجاب اسمبلی کی سات نشستوں پر مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں اس ضلعے سے دو قومی حلقوں میں مسلم لیگ ن اور ایک میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی سات نشستوں میں سے پانچ پر مسلم لیگ ن اور دو پر پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اس ضلعے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 17 لاکھ 46 ہزار 886 ہے جن میں آٹھ لاکھ دو ہزار 806 خواتین اور 9 لاکھ 44 ہزار 80 مرد ووٹر ہیں۔
این اے 141 ساہیوال ون میں شہری آبادی کا حلقہ ہے جہاں سے 2018ء میں ن لیگ کے امیدوار عمران احمد شاہ نے تحریک انصاف کے چودھری نوریز شکور کو ہرایا تھا۔
تین بار مسلسل اس نشست سے جیتنے والے عمران شاہ کا اس بار مقابلہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رانا عامر شہزاد سے ہو گا جو تحصیل ناظم ساہیوال بھی رہ چکے ہیں اور وہ سابق ایم این اے رانا طارق جاوید کے بھائی ہیں۔
یہاں پیپلز پارٹی نے محمد ذکی اور جماعت اسلامی نے محمد رحمت اللہ کو نامزد کیا ہے جبکہ میاں انوار الحق رامے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گے۔
سماجی و سیاسی کارکن عرفان اللہ بتاتے ہیں کہ ضلعے کے دیگر دو حلقوں کے برعکس اس حلقے میں پارٹی کو زیادہ ووٹ پڑتا ہے۔ یہاں رانا عامر شہزاد تحصیل نظامت کے دوران ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ لیتے ہیں اور انہیں پارٹی کا پاپولر ووٹ پڑنے کا بھی امکان ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران احمد شاہ درگاہ دائم الحضوری قصوری کے سجادہ نشین ہیں اور ان کے مریدین کی کثیر تعداد بھی اس حلقے میں موجود ہے جس کا وہ بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
اس حلقے میں ارائیں، راجپوت اور جٹ اکثریتی برادریاں ہیں جبکہ بلوچ، سگلہ، کمیانہ، وٹو، فتیانہ، سیال اور نول برادریوں کا بھی اچھا خاصا ووٹ ہے۔ تاہم شہری علاقہ ہونے کہ وجہ سے یہاں برادری اور دھڑے بندی کی بنیا د پر کم ووٹ پڑتا ہے۔
اس قومی حلقے کے نیچے صوبائی نشست پی پی 198 اور پی پی 199 کے ساتھ پی پی 200 کا حصہ بھی آتا ہے۔
ساہیوال نئی حلقہ بندیاں 2023
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 147 ساہیوال 1 اب این اے 141 ساہیوال 1 ہے
یہ ساہیوال کا شہری حلقہ ہے۔ اس حلقے میں ساہیوال تحصیل کے قصبے قادر آباد، یوسف والا اور نور شاہ بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں ساہیوال قانون گو حلقہ کے پٹوار سرکل 90 نائن ایل کو اس حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ تحصیل ساہیوال کے قانون گو حلقہ یوسف والا کے پٹوار سرکل چک نمبر 78 فائیو ایل، 80 فائیو ایل اور چک نمبر 111 نائن ایل کو نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح ساہیوال کے قانون گو حلقے کے پٹوار سرکلز، چک نمبر 94 نائن ایل، 96 نائن ایل، 97 نائن ایل اور 96 سکس آر بھی اب اس میں شامل نہیں ہیں۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 148 ساہیوال 2 اب این اے 142 ساہیوال 2 ہے
یہ حلقہ ساہیوال تحصیل کی دیہی آبادی پر مشتمل ہے جس میں ہڑپہ، کمیر، نائیوالہ بنگلہ اور چیچہ وطنی تحصیل کا قصبہ داد فتیانہ قانون گوئی حلقے کے دیہات بھی شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے میں تحصیل ساہیوال کے قانون گو حلقہ یوسف والا کے پٹوار سرکلز چک نمبر 78 فائیو ایل، 80 فائیو آر اور چک نمبر 111 نائن ایل اور ساہیوال قانون گو حلقے کے چک نمبر 94 نائن ایل، 96 نائن ایل، 97 نائن ایل اور چک نمبر 93 سکس آر کو شامل کیا گیا ہے۔ چیچہ وطنی تحصیل کے قانون گو حلقہ غازی آباد کا پٹوار سرکل چک نمبر 22 گیارہ ایل بھی اس حلقے میں شامل ہو گیا ہے۔ اس حلقے سے تحصیل ساہیوال کے قانون گو حلقے ساہیوال کے پٹوار سرکل 90 نائن ایل کو نکال دیا گیا ہے۔
2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 149 ساہیوال 3 اب این اے 143 ساہیوال 3 ہے
یہ تحصیل چیچہ وطنی کا حلقہ ہے جس میں شہری آبادی کے علاوہ اس تحصیل کے بیشتر دیہات شامل ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں اس حلقے سے چیچہ وطنی تحصیل کے قانون گو حلقے غازی آباد کے پٹوار سرکل چک نمبر 22 گیارہ ایل کو نکال دیا گیا ہے۔
پی پی 198 سے مسلم لیگ ن کے پیر ولایت شاہ کھگہ امیدوار ہیں جو سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ وہ پہلے جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے صاحبزادے خضر حیات شاہ کھگہ کو الیکشن لڑایا تھا اور وہ جیت بھی گئے تھے۔اس بار وہ خود امیدوار ہیں اور اس حلقے پر کئی برسوں سے اسی خاندان کی سبقت رہی ہے۔
یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار سجاد ناصر ہیں جنہوں نے پچھلی بار آزاد حیثیت میں 17 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جماعت اسلامی نے ساہیوال کسان بورڈ کے صدر سعید رندھاوا اور پیپلز پارٹی نے پیر ظفر شاہ کھگہ کو امیدوار نامزد کیا ہے۔
عرفان اللہ کا کہنا ہےکہ یہاں کئی انتخابات کے بعد پہلی بار ولائت شاہ کھگہ کے خاندان کو سخت حریف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ سجاد ناصر کا حلقے میں ناصرف اپنا ذاتی ووٹ بینک ہے بلکہ انہیں تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پی پی 199 سے پچھلی بار مسلم لیگ ن کے ملک ندیم کامران جیتے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے شیخ محمد چوہان دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
اس بار ملک ندیم کامران کی جگہ ان کے صاحبزادے قاسم ندیم ن لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار احمد صفدر خان ہیں جو سابق ایم پی اے رانا آفتاب کے صاحبزادے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہاں ذکی چودھری کے بھتیجے سرمد شفقت اور جماعت اسلامی نے طیب محمود اشرف کو میدان میں اتارا ہے۔
پی پی 200 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ارشد ملک ہیں جنہوں نے پچھلے دو انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سابق رکن صوبائی اسمبلی حاجی جلال دین ڈھکو کے پوتے ملک احمد علی ڈھکو ہیں جن کے خاندان کا ساہیوال کی سیاسی تاریخ میں بڑا نام ہے۔
سابق سٹی میئر ساہیوال سردار اسد علی بلوچ جو مسلم لیگ ن میں تھے اب آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سابق ایم پی اے اور پی ٹی آئی کے سٹی صدر لطیف مغل کے صاحبزادے ہارون لطیف بھی آزاد امیدوار ہیں لیکن تحریک انصاف کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس نشست پر سخت مقابلہ نظر آ رہا ہے۔
این اے 142 میں ہڑپہ، داد فتیانہ اور اردگرد کے علاقے شامل ہیں جہاں ارائیں برادری اکثریت میں ہے اور ماضی میں یہاں سے وہی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن کا تعلق اس برادری سے تھا یا پھر انہیں ارائیں برادی کی حمایت حاصل تھی۔
پچھلے عام انتخابات میں بھی یہاں سے ارائیں برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے چودھری محمد اشرف تقریباً 50 ہزار کی برتری سے جیتے تھے حالانکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار ڈھکو خاندان کے ملک محمد یار تھے۔ جن کا اس حلقے کی سیاست بھی بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
اس حلقے میں اس بار تحریک انصاف نے بھی ارائیں کارڈ کھیلا ہے اور سیاسی طور پر مضبوط ڈھکو خاندان کی بجائے معروف ارائیں زمیندار چودھری محمد آصف کے بھتیجے چودھری محمد عثمان کو ٹکٹ دیا ہے۔
شاہد لطیف اس حلقے کی ایک یونین کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے محمد عثمان کی طرف چلے گئے ہیں۔ ارائیں برادری کی تقسیم ہے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار محمد عثمان کی انتخابی مہم سے لگتا ہے کہ وہ فرنٹ رنر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جبکہ ڈھکو خاندان اور سابق ایم این اے رانا طارق جاوید کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہیں ملا دیا۔ اس بات کا چودھری اشرف کو شاید کوئی فائدہ ہو جائے لیکن ن لیگ کے لیے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ پرانے مسلیگی ارشد خان لودھی کی بیٹی عائشہ لودھی بھی یہاں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔
اس حلقے میں عائشہ لودھی ن لیگ کے ٹکٹ کی مضبوط امیدوار تھیں لیکن پارٹی قیادت نے گذشتہ دو بار کے فاتح چودھری اشرف کو ہی امیدوار چنا۔
شاید لطیف کے خیال میں عائشہ لودھی بھر پور مہم چلا رہی ہیں اگر ن لیگ کی قیادت انہیں دستبردار کرانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو ہوگا۔
اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے مہر غلام فرید کاٹھیہ کو امیدوار نامزد کیا تاہم ان کی انتخابی بہت کمزور نظر آتی ہے۔
اس قومی نشست کے نیچے دو صوبائی حلقے پی پی 201 اور پی پی 202 آتے ہیں جبکہ تیسرے حلقے کا ایک حصہ آتا ہے۔
پی پی 201 سے مسلم لیگ ن نے گزشتہ انتخابات میں یہ نشست جیتنے والے نوید اسلم خان لودھی کو ہی امیدوار برقرار رکھا ہے جو ارشد خان لودھی کے داماد اور اوپر قومی اسمبلی کے حلقے میں حصہ لینے والی عائشہ خان لودھی کے شوہر ہیں۔
تحریک انصاف محمد یار ڈمرا کی حمایت کررہی ہے جو اپنے قومی حلقے کے امیدوار محمد عثمان کے ساتھ مل کر الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ آٹھ فروری کو اس حلقے میں سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
پی پی 202 تحصیل چیچہ وطنی کی دیہی آبادیوں پر مشتمل ہے جہاں وحید اصغر ڈوگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ، رانا ریاض ن لیگ اور سعید چیمہ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ سابق نائب تحصیل ناظم رانا سجاد آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ضلعے کا یہ شاید واحد حلقہ ہے جہاں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار شہزاد سعید چیمہ بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ 2018 میں وہ یہاں تیسرے نمبر پر رہے تھے لیکن انھوں نے 25 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس حلقے میں راجپوت برادری کے علاوہ جٹ برادری کی بھی بڑا ووٹ بینک ہے۔
پچھلے الیکشن میں رانا سجاد نے ن لیگ کے امیدوار رانا ریاض کی بھرپور حمایت کی تھی اور وہ کامیاب ہوگئے تھے۔ تاہم اس مرتبہ رانا سجاد ن لیگ کے ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن پارٹی نے انہیں نظر انداز کر دیا جس وہ آزاد حیثیت میں بھی بھرپور کمپین کر رہے ہیں۔
ن لیگ کا ووٹ تقسیم ہونے سے تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو گا اس طرح یہاں تحریک انصاف، رانا ریاض اور سعید چیمہ کے مابین سخت مقابلے کی امکان ہے۔
سیاسی کارکن صوفی شہزاد بتاتے ہیں کہ این اے 142 کے نیچے جتنے بھی صوبائی حلقے ہیں یہاں دلچسپ صورتحال ہے اور مسلم لیگ ن کے امیدوار آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ یہاں پر عائشہ لودھی کے شوہر نوید اسلم جو ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر ہیں ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار میاں حسین رامے حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چودھری اشرف جو قومی حلقے میں ن لیگ کے امیدوار ہیں وہ پی پی 201 میں نوید لودھی کے خلاف تحریک انصاف کے محمد یار ڈمرا کی حمایت کر رہے ہیں۔اس صورتحال سے ن لیگ کی قومی کے ساتھ صوبائی نشستیں بھی خطرے میں ہیں۔
این اے 143 میں چیچہ وطنی شہر، کسوال اور اقبال نگر وغیرہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ حلقہ صوبہ پنجاب کے ان 11 حلقوں میں شامل ہے جہاں پر ن لیگ نے پاکستان استحکام پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔
اس حلقے سے معروف سیاسی رائے خاندان، جو پچھلی بار بھی فاتح رہا تھا اس سے تعلق رکھنے والے رائے حسن نواز، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
سابق ایم این اے چودھری طفیل جٹ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چودھری زاہد اقبال سابق ضلعی چیرمین اور ایم این اے بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
یہاں سے آئی پی پی کے امیدوار ملک نعمان احمد لنگڑیال جو پچھلی بار تحصیل چیچہ وطنی کے ایک صوبائی حلقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے لیکن پھر انہیں نشست سے ہاتھ دھونے پڑے اور ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف سے ہار گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
قصور کا نیا سیاسی منظر نامہ اور پرانے سیاست دان، شہباز شریف کس نشست پر کھڑے ہیں؟
صوفی شہزاد ن لیگ کے ایڈجسٹمنٹ کے فیصلے کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں چودھری طفیل جٹ جو 2013ء میں کامیاب ہوئے تھے ان کی ن لیگ سے جیت کے امکانات کافی زیادہ تھے۔
ارائیں برادری کی اکثریت سابق ایم این اے زاہد اقبال کو سپورٹ کرتی چلی آئی ہے اور وہ سابق ضلع ناظم ہیں جو تیسری بار ن لیگ میں نظر انداز کیے جانے پر اپنا گروپ بنا کر آزاد امیدوار بن گئے ہیں۔
صوفی شہزاد کے مطابق اس حلقے میں جٹ اور ارائیں برادریوں کا بڑا ووٹ بینک ہے جو اب ن لیگ کی طرف سے اپنا امیدوار سامنے نہ لانے کے باعث بٹ چکا ہے۔ اسی طرح گجر اور راجپوت برادری کی اکثریت رائے گروپ کے ساتھ ہے۔جبکہ ڈوگر برادری کی اکثریت بھی رائے گروپ کی حامی ہے۔
چودھری زاہد اقبال، طفیل جٹ اور نعمان لنگڑیال میں ووٹ کی تقسیم کا رائے حسن نواز کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس حلقے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے عرصے تک اس حلقے میں راج کرنے والی بیگم شہناز جاوید کے صاحبزادے علی جاوید کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے۔وہ شاید زیادہ ووٹ تو حاصل نہ کرپائیں لیکن شہناز جاوید خاندان کی چیچہ وطنی کی سیاست میں واپسی ہوسکتی ہے۔
قومی اسمبلی کے اس حلقے میں نیچے پی پی 202 نصف جبکہ پی پی 203 اور پی پی 204 کی پوری آبادی آتی ہے۔
پی پی 203 سے پچھلے انتخابات میں تحریک انصاف کے رائے مرتضی اقبال کامیاب رہے تھے جنہوں نے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھی اور صوبائی نشست کو چھوڑ دیا۔ ضمنی میں یہاں سے تحریک انصاف نے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے صمام بخاری کو ٹکٹ دیا جو جیت بھی گئے تھے۔
اب اس حلقے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار رائے مرتضی اقبال ہیں جبکہ چودھری زاہد اقبال آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں طفیل جٹ کے بھائی چودھری حنیف جٹ کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دیا ہے جبکہ وحید کاٹھیا پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔اس نشست پر زور دار مقابلہ متوقع ہے۔
ساہیوال کے ساتویں صوبائی حلقے پی پی 204 سے میجر غلام سرور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جبکہ نعمان لنگڑیال کے صاحبزادے فلک شیر لنگڑیال آئی پی پی کے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حلقے میں بھی کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جس پر شاہد منیر جٹ آزاد او چودھری عادل سعید گجر مسلم لیگ ق کے امیدوار ہیں۔
آئی پی پی اورپی ایم ایل این کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے طفیل جٹ گروپ یہاں آزاد امیدوار عادل سعید گجر کی حمایت کررہا ہے۔ عادل سعید گجر کا خاندان پچھلے دو انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ تھا ۔
صوفی شہزاد کو لگتا ہے کہ تحصیل چیچہ وطنی کے ایک قومی اور تین صوبائی حلقوں میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی پوزیشن بہتر ہے لیکن مقابلے بھر پور ہوں گے۔
تاریخ اشاعت 3 فروری 2024