سات سال پہلے غلام مصطفیٰ 12 ایکڑ زرعی زمین کے مالک تھے لیکن اب ان کے پاس صرف دو ایکڑ رہ گئے ہیں جن پر کاشتکاری کر کے وہ بمشکل اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
وہ وسطی پنجاب کے ضلع ساہیوال کے گاؤں 5/76 آر کے رہنے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقریباً 50 برس قبل حکومت نے ان کے خاندان کو مقامی لمبردار مقرر کر کے اسے غیرآباد زمین الاٹ کی تھی جسے قابلِ کاشت بنانے میں ان کے باپ دادا کو کئی سال لگ گئے تھے۔ تاہم جولائی 2015 میں پنجاب کی صوبائی حکومت نے ان کی 10 ایکڑ اراضی سمیت ان کے گاؤں کی زمین کا ایک بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے لیا اور اس پر ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کے نام سے بجلی پیدا کرنے کا ایک کارخانہ لگا دیا۔
درآمدی کوئلے سے چلنے والے اس بجلی گھر کی تعمیر سے پہلے 5/76 آر کا مجموعی رہائشی اور زرعی رقبہ دو ہزار ایک سو 50 ایکڑ تھا جو اب ایک ہزار ایک سو 50 ایکڑ رہ گیا ہے۔ اس منصوبے کے باعث زمین سے محروم ہونے والے اکثر لوگوں کے پاس، غلام مصطفیٰ کے مطابق، ایک ایک دو دو ایکڑ اراضی تھی "جو ان کے روزگار کا واحد ذریعہ تھی"۔ یہ اراضی حکومت کے پاس چلے جانے سے اب "انہیں فاقوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔
ان زمین داروں میں چھ بچوں کے والد محمد رفیق بھی شامل ہیں۔ وہ 60 سال کے ہو چکے ہیں لیکن بڑھاپے کے باوجود وہ کبھی فیصل آباد کے کسی کارخانے میں کام کر کے روزی کماتے ہیں اور کبھی تعمیراتی شعبے میں بطور مزدور کام کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی گھر کی تعمیر سے پہلے ان کے معاشی حالات بہت اچھے تھے (حالانکہ وہ صرف دو ایکڑ اراضی کے مالک تھے)۔ لیکن، ان کے مطابق، اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد ان کے حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اپنی دونوں بھینسیں بھی فروخت کر دی ہیں کیونکہ کاشت کاری کے بغیر ان کے چارے کا انتظام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
محمد رشید بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان کی عمر 55 سال ہے اور وہ پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ اپنی ایک ایکڑ اور ڈیڑھ کنال زرعی زمین بجلی گھر کو دینے کے بعد انہوں نے بھی محمد رفیق کی طرح اپنے دودھ دینے والے مویشی فروخت کر دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب انہیں ذاتی استعمال کے لیے بھی دودھ دہی دستیاب نہیں حالانکہ کبھی ان کے پاس اتنا دودھ ہوتا تھا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد وہ اسے فروخت بھی کر لیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق زمین سے محرومی کے نتیجے میں جنم لینے والے معاشی حالات سے تنگ آ کر کئی مقامی خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہوں پر جا بسے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاؤں میں ایک سو ایکڑ اراضی پر لگے ہوئے امرود، آم اور جامن کے باغات بھی بجلی گھر کی نذر ہو چکے ہیں۔ جنوری 2014 میں صوبائی محکمہ ماحولیات کی جاری کردہ رپورٹ بھی اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ اس منصوبے کے لیے مختص زمین پر نو ہزار تین سو دو پھل دار اور جنگلی درخت موجود تھے جو سارے کے سارے کاٹے جا چکے ہیں۔ اسی طرح 36 ٹیوب ویل، تین نہری کھالے اور سات سو 83 ایکڑ پر مشتمل فصلیں بھی بجلی گھر کی تعمیر کی خاطر ختم کر دی گئیں۔
ان میں سے کھالوں کی بندش کا مقامی زراعت پر شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ اس کے باعث ان کے گاؤں کے پاس سے گزرنے والی نہر لوئر باری دوآب سے مقامی زمینوں کو فراہم کیا جانے والا پانی لگ بھگ پانچ سال بند رہا۔ صوبائی محکمہ آبپاشی کے ساہیوال میں متعین ایک سب انجینئر ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 5/76 آر کو پانی کی فراہم کرنے والے "تینوں کھالے بجلی گھر کے اندر سے گزر رہے تھے اس لیے 2017 میں انہیں بند کرنا پڑا"۔
اگرچہ حال ہی میں ایک قریبی گاؤں 6/77 آر میں ایک متبادل کھالا بنا کر ان کے گاؤں کو نہری پانی کی فراہمی کافی حد تک بحال کر دی گئی ہے لیکن غلام مصطفیٰ کے مطابق اس نئے کھالے میں خرابی یہ ہے کہ اس کے ذریعے فراہم کیا جانے والا پانی ابھی بھی تین سو 25 ایکڑ اراضی پر نہیں پہنچ رہا۔ نتیجتاً اس اراضی کو "ٹیوب ویل سے سیراب کرنا پڑتا ہے جس پر اٹھنے والے اخراجات اکثر چھوٹے زمینداروں کی استطاعت سے باہر ہیں"۔
دعوے بمقابلہ شکایتیں
ساہیوال کول پاور پراجیکٹ ایک ہزار تین سو 20 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لاہور سے کراچی جانے والی قومی شاہرا ہ کے شمال میں قادر آباد نامی قصبے کے قریب واقع یہ بجلی گھر ساہیوال شہر کے مرکز سے تقریباً 19 کلومیٹر کے فاصلے پر بنایا گیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 1.8 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کیے گئے اس منصوبے پر کام 31 جولائی 2015 کو شروع ہوا اور مئی 2017 میں ختم ہوا۔
حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کی گئی سی پیک اتھارٹی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران تین ہزار مقامی لوگوں کو روزگار ملا جبکہ پاکستان ٹوڈے نامی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کا کہنا ہے کہ اسے چلانے کے لیے دو سو سے زیادہ پاکستانی انجینئر بھرتی کیے گئے جنہیں اس مقصد کے لیے چین سے تربیت دلوائی گئی۔
تاہم مقامی لوگ اس منصوبے کو علاقے کی زراعت اور قدرتی ماحول کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے انہیں بدحالی، بیروزگاری اور بھوک کے سوا کچھ نہیں دیا۔ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ اس کے منفی معاشی اثرات کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے جس نے "بجلی گھر بنانے سے پہلے نہ تو مقامی آبادی سے مشاورت کی اور نہ ہی اس کے لیے لی گئی زمین کا معاوضہ طے کرتے وقت زمینداروں سے پوچھا"۔ بلکہ، ان کے بقول، "جن لوگوں نے حکومت کا مقرر کردہ معاوضہ قبول کرنے سے انکار کیا ان کی زمین ان سے زبردستی چھین لی گئی"۔
یہ بھی پڑھیں
کیا کالا دھواں چھوڑنے والے بھٹوں کا کوئی متبادل ہے؟
وہ خود بھی ایسے لوگوں میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر کے 12 روز کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا جہاں، ان کے مطابق، انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ 2017 میں انہوں نے ساہیوال کی ضلعی سول عدالت میں ایک دعویٰ بھی دائر کیا کہ انہیں ان کی زمین کا مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "بیسیوں پیشیوں کے باوجود بھی اس مقدمے کی سماعت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی"۔
بجلی گھر کی تعمیر کے لیے لی گئی زمین میں محمد سلیم نامی ایک مقامی استاد کا 10 کنال رقبہ بھی شامل ہے۔ وہ غلام مصطفیٰ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے ان سے زمین لیتے وقت ان سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی بلکہ "جن مقامی لوگوں نے حکومتی شرائط پر اپنی زمین فروخت کرنے سے انکار کیا انہیں گرفتار کر لیا گیا"۔ ان کے مطابق "بعض مقامی لوگوں نے زمینیں خریدنے کے حکومتی طریقہ کار کو لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بنچ میں چیلنج بھی کیا"۔
تاہم تین سال تک اس مقدمے کی سماعت کرنے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ بجلی گھر کے لیے لی گئی زمین کا معاوضہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس مقصد کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے طے کردہ نرخوں کے مطابق دیا جائے۔ اس کمیٹی کے سربراہ ڈسٹرکٹ کلکٹر ساجد محمود کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ 5/76 آر کے باسیوں کی شکایات بے بنیاد ہیں۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے زمین کی قیمت کا تعین اپنے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لیے تین سو 72 مقامی زمینداروں اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ایک ایکڑ اراضی کی قیمت 20 لاکھ 70 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بجلی گھر کے لیے حاصل کردہ زمین پر کھڑی فصلوں، جنگلات، پھل دار درختوں، آبی گزرگاہوں اور ٹیوب ویلوں کی بھی باقاعدہ قیمت مقرر کی گئی تھی اور اس منصوبے پر کام شروع ہونے سے پہلے ہی اس قیمت کے مطابق مقامی مالکانِ زمین کو ادائیگیاں بھی کر دی گئی تھیں۔
تاریخ اشاعت 23 مئی 2022