ضلع حافظ آباد میں کسوکی کے دیہی مرکز صحت پر بہت سے لوگ جمع ہیں جن میں چند ڈاکٹر سے طبی معائنے کے لیے تو بعض ٹیسٹ کرانے کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔
پینتالیس سالہ محمد ارشد اپنی حاملہ اہلیہ کے ابتدائی ٹیسٹ کرانے آئے ہیں اور ہسپتال کے عملے کے ساتھ بحث و تکرار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک تو ہسپتال والوں نے ان کی اہلیہ کے پورے ٹیسٹ نہیں کیے ہیں اور جو چند کیے بھی ہیں تو ان کی زیادہ فیس وصول کی ہے۔
محمد ارشد نے اپنی اہلیہ کے ہوموگلوبن (ایچ بی)، یرقان بی، سی اور دو مزید بنیادی ٹیسٹ کرائے ہیں جو ان کے خیال میں حکومت مفت کرتی ہے لیکن ان سے پیسے وصول کیے گئے ہیں۔
ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر ہاشم آصف علی تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں پر حاملہ عورتوں کے بیشتر ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں۔ محمد ارشد سے فیس وصول کرنے کے معاملے پر ان کا کہنا ہےکہ لیبارٹری میں ایک نیا ٹیکنیشن آیا ہے اور شاید اس نے غلطی سے ایسا کیا ہے۔
اس 'غلطی' کی وہ مزید وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں کہ چونکہ یہاں حاملہ عورتوں کے علاوہ دیگر مریضوں سے ایسے ٹیسٹوں کی رعایتی فیس وصول کی جاتی ہے اس لیے اسے معلوم نہیں ہوگا کہ محمد ارشد کی اہلیہ حاملہ ہیں۔
کچھ ہی دیر میں عملے کا ایک فرد محمد ارشد سے لیے گئے پیسے انہیں واپس کردیتا ہے۔ محمد ارشد کے خیال میں اگر میڈیا کے لوگ موقع پر موجود نہ ہوتے تو انہیں اپنے پیسے واپس نہ ملتے۔
محمد ارشد سائیکل پر گاؤں گاؤں پھل فروخت کرتے ہیں وہ اہلیہ اور پانچ بچوں پر مشتمل گھرانے کے واحد کفیل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر وہ اس ہسپتال میں نہیں آتے بلکہ پندرہ کلومیٹر دور حافظ آباد شہر کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ یہاں پر مریضوں کی مناسب انداز میں دیکھ بھال نہیں ہوتی اور حافظ آباد میں انہیں بیشتر سہولیات مل جاتی ہیں۔اس بار وہ اپنی اہلیہ کو یہاں اس لیے لائے ہیں کہ انہیں معلوم ہے حکومت نے حاملہ عورتوں کیلئے مفت ٹیسٹ کی سہولت فراہم کررکھی ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کے مطابق دیہی مرکز صحت ایک لاکھ آبادی کے علاقے کو بنیادی سہولیات مہیا کرتا ہے اور اس میں مریضوں کے 20 بستر ہونا ضروری ہیں اور ہسپتال کو 24 گھنٹےکھلا رہنا چاہیے۔
تاہم 13 لاکھ 19 ہزار آبادی کے ضلع حافظ آباد میں صرف سات دیہی مرکز صحت ہیں۔ حالانکہ یہاں پر کم از کم 13 مرکز ہونے چاہیئں۔
محکمہ صحت کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ پنجاب میں صحت کا حکومتی نظام تین طرح کی سہولیات پر منحصر ہے۔ ابتدائی طور پر ہر یونین کونسل میں ایک بنیادی مرکز صحت ہوگا جہاں پر مریضوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد دیہی مرکز صحت ریفر کردیا جائے گا۔
بنیادی مرکز صحت کے علاوہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور کمیونٹی میڈوائف بھی مریضوں کو علاج کے لیے دیہی مرکز صحت بھجواسکتی ہیں۔ دیہی مرکز صحت میں جنرل آؤٹ ڈور(او پی ڈی)، زچہ بچہ کے تمام مراحل کی دیکھ بھال، ڈیلیوریز، ویکسینیشن، امراض کی تشخیص یعنی ڈائیگناسٹک سروس جیسے ایکسرے اور لیب کی سہولت ہوگی۔ اس کے علاوہ اس ہسپتال میں ڈینٹل او پی ڈی کا ہونا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ریفرل کے کردار کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ہر دیہی مرکز میں ایک ایمبولینس کا ہونا ضروری ہے۔
محکمہ صحت کے ان دعوؤں کے برعکس کسوکی کے مرکز صحت میں دانتوں کے علاج کے لیے پچھلے کئی ماہ سے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ حاملہ خواتین کی ڈلیوری کی ذمہ داری اس ہپستال کی مڈوائف انجام دیتی ہے۔ ڈاکٹر ہاشم آصف علی کے مطابق ایکسرے مشین بھی خراب پڑی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق اس ہسپتال میں 20 بیڈ ہونے چاہیئں لیکن یہاں پر صرف 13 بیڈ لگے ہوئے ہیں جن پر ایک بھی مریض موجود نہیں تھا۔
ڈاکٹر ہاشم اس کے باوجود بضد ہیں کہ یہاں پر مریضوں کو ہر قسم کی بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کے مطابق ہسپتال میں ہر روز تینوں شفٹوں میں اوسطاً دو سو مریضوں کا معائنہ ہوتا ہے۔ بیڈز کی کمی کے حوالے سے ان کا موقف ہے کہ تین بیڈ مرمت کے لیے دیے ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے مرکز میں مریضوں کو ہر وقت ایمبولینس کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔
لیکن یہاں کے مقامی لوگ ان دعوؤں سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے بقول اول تو اتنی سہولیات موجود نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو مریض ان سے مستفید نہیں ہو پارہے کیوں کہ ہسپتال کا عملہ تعاون نہیں کرتا۔
پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ بورڈ کی رواں سال "پنجاب گروتھ سٹریٹیجی 2023" کی رپورٹ میں حافظ آباد کو پنجاب کے ان چھ اضلاع میں شمار کیا گیا ہے جو صحت کی سہولیات کے لحاظ سے سب سے زیادہ محروم ہیں۔ان میں حافظ آباد شمالی اور وسطی پنجاب کا واحد ضلع ہے، باقی پانچ اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، خانیوال اور لودھراں ہیں جو تمام جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔
دو سال پہلے حکومت پنجاب کی طرف سے جاری صنفی امتیاز (جینڈر پیرٹی رپورٹ) بھی بتاتی ہے کہ حافظ آباد صحت کی سہولیات میں پنجاب 36 اضلاع میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ضلع میں بی ایچ یو، آر ایچ سی، تحصیل و ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور سرکاری ڈسپنسریوں سمیت کل 61 مراکز صحت یا طبی سہولیات فعال ہیں۔
بس یہی نہیں زچگی کے دوران اور اس کے بعد بچے کی صحت و خوراک کی دیکھ بھال کے لیے قائم مراکز صحت کی تعداد اس ضلع میں خوشاب کے بعد سب سے کم یعنی 22 ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب ڈیموگرافک سٹیٹس رپورٹ برائے سال 2022 بتاتی ہے کہ حافظ آباد میں پیدائش سے ایک سال تک کے ہر ایک ہزار شیرخوار بچوں میں سے 97 وفات پا جاتے ہیں جبکہ پنجاب میں یہ اوسط 60 ہے۔ اسی طرح حافظ آباد میں ایک سال سے پانچ سال کی عمر کے ہر ایک ہزار میں سے 13 بچوں کا انتقال ہوجاتا ہے جبکہ پنجاب میں اس عمر کے بچوں کی شرح اموات ہر ہزار میں سے 9 ہے۔
حافظ آباد میں پیدائش کے بعد پانچ سال کی عمر تک پہنچنے والے ہر ایک ہزار بچوں میں مجموعی شرح اموات 109 ہے جو پنجاب میں 69 کی شرح کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
ضلع حافظ آباد میں محکمہ صحت کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمر شریف راٹھور ان معلومات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حافظ آباد صرف ویکسینیشن میں قدرے پیچھے ہے اور وہ بھی اس لئے کہ دور دراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی بہتر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی رپورٹس سسٹم پر بروقت اپ ڈیٹ نہیں ہو پاتیں۔
محمد اسلم کھوکھر حافظ آباد میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ڈی ایچ کیو میں ایم ایس رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دیہی مراکز والے ڈاکٹر مریضوں کو تحصیل یا ضلعی ہیڈکوارٹر اور ضلعی ہیڈ کوارٹر والے لاہور ریفر کر دیتے ہیں۔
"اگر کوئی ایمرجنسی کی صورت میں وہاں چلا جائے تو اسے ادویات نہیں ملتیں، یہاں تک کہ ایک سرنج بھی انہیں باہر سے خرید کرلانا پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بنیادی یا دیہی مراکز کیوں جائے گا۔"
کسوکی سے مغرب کی جانب 23 کلومیٹر کے فاصلے پر کالیکی منڈی نامی قصبہ واقع ہے جہاں پر موجود دیہی مرکز صحت نئی دو منزلہ عمارت بنی ہے۔ یہاں پر موجود واحد مریض افتخار احمد کو ہسپتال عملے سے شکایت ہے کہ ڈرپ لگانے کے لیے انہیں ڈریپ سیٹ،کینولا اور انجکشن باہر سے خرید کر لانے پڑے۔
یہ بھی پڑھیں
راجن پور کے دیہی مراکز صحت، جہاں ہر بیماری کا علاج پینا ڈول کی دو گولیاں ہیں
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں پیٹ میں درد ہے اور اسہال ہوگیا ہے اسی لیے وہ یہاں پر آئے ہیں ورنہ طبی ایمرجنسی کی صورت میں وہ یا ان کے گاؤں کے دوسرے لوگ حافظ آباد جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں یہاں کے ڈاکٹر بھی بس معمولی معائنے کے بعد انہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال بھیج دیتے ہیں۔
یہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سید محسن رضا کہتے ہیں کہ ان کے ہسپتال میں ایمرجنسی کی تمام سہولتیں موجود ہے۔ افتخار کی شکایت کے جواب میں وہ کہتے ہیں۔ کہ چونکہ یہاں پر دیہی مرکز صحت میں صرف ابتدائی سکریننگ ہوتی ہے جس کے بعد مریض کو مزید علاج کے لیے حافظ آباد ریفر کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ علاقے کے عام لوگ شکایت کرتے ہیں۔کہ انہیں یہاں پر وہ تمام سہولیات نہیں ملتی جو ان کو شہر میں ملتی ہیں۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ عمر شریف راٹھور سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کالیکی منڈی کے مرکز پر مریضوں کو ریفر تو کیا جارہا ہے لیکن وہاں کوئی ایمبولینس موجود نہیں تو ان کا جواب تھا کہ اب یہ ذمہ داری ریسکیو کو سونپ دی گئی ہے۔ اگر کسی مریض کو اس کی ضرورت ہو تو وہ ریسکیو کی ہیلپ لائن پر کال کرکے فوری طور پر ایمبولینس منگوا سکتا ہے۔
دیہی مراکز صحت پر بیڈز کی کمی کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ چونکہ کئی سارے مراکز کی عمارت پرانی ہے اور وہاں پر 20 بیڈز کو رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ان مراکز میں پورے بیڈز موجود نہیں ہیں۔
وہ یقین دہانی کراتے ہیں ہسپتالوں میں ضروری آلات و مشینیوں کی جو کمی ہے اسے اگلے چھ ماہ تک پورا کرلیا جائے گا جبکہ یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ہر شعبے میں مزید ڈاکٹر، سرجن، گائناکالوجسٹ، پیڈیاٹریشن اور میڈیکل کنسلٹنٹ کی کمی کو بھی پورا کیا جائے تاکہ ان مراکز صحت پر لوگوں کا جلد اعتماد بحال ہوسکے۔
تاریخ اشاعت 14 اکتوبر 2023