راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غیر قانونی آبادیوں کے خلاف کارروائی: 'زرعی زمین پر کنٹرول کا طریقہ'۔

postImg

تنویر احمد

postImg

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غیر قانونی آبادیوں کے خلاف کارروائی: 'زرعی زمین پر کنٹرول کا طریقہ'۔

تنویر احمد

بیرسٹر علی ظفر لاہور کی ایک نامور قانونی شخصیت ہیں۔ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ جنرل ایوب خان کی حکومت کے وزیرِ قانون اور ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کے بیٹے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں 14 دسمبر 2021 کو چند کسانوں سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تمام تعمیرات باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وہ جلد ہی سینیٹ میں منظوری کے لیے ایک ایسا مسودہِ قانون پیش کریں گے جس کے تحت پورے پاکستان کے لیے ایک جامع منصوبہ (ماسٹر پلان) بنایا جائے گا تاکہ مختلف اقسام کی تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ قطعاتِ زمین مختص کیے جائیں اور زرعی اراضی پر رہائشی، تجارتی اور صنعتی تعمیرات نہ کی جا سکیں۔ 

تاہم کسان ان کی اس بات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ انہیں بتاتے ہیں کہ تھوڑی دیر پہلے وہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکیل کے طور پر کمرہِ عدالت میں اس کے برعکس دلائل دے رہے تھے۔ میاں مصطفیٰ رشید نامی ایک کسان ان سے کہتے ہیں کہ "آپ عدالت میں کہہ رہے تھے کہ حکومت زرعی زمینیں کسانوں سے زبردستی حاصل کر کے انہیں رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے"۔ 

بیرسٹر علی ظفر جواباً کہتے ہیں کہ "آپ میری بات سمجھے نہیں۔ میں مجموعی طور پر بےہنگم منصوبہ بندی کی بات کر رہا ہوں"۔

اس "بےہنگم منصوبہ بندی" کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی جگہ زرعی زمین کے بیچوں ایک رہائشی منصوبہ بن جائے اور پھر تھوڑی سی زرعی زمین درمیان میں چھوڑ کر اسی طرح کا ایک اور رہائشی منصوبہ بن جائے تو یہ صورتِ حال بالکل قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے بلکہ، ان کے مطابق، ہونا تو یہ چاہیے کہ "آپ ایک علاقہ زرعی مقاصد کے لئے مختص کر دیں اور پھر وہاں کوئی تعمیرات نہ ہوں"۔ 

اس سے پہلے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل، راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی، نے دریائے راوی کے ارد گرد ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین پر راوی ریور فرنٹ کے نام سے ایک تعمیراتی منصوبہ بنانے کا فیصلہ اسی لیے کیا ہے کہ لاہور میں بےقاعدہ رہائشی منصوبے خودرو پودوں کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے شہر میں ماحولیاتی آلودگی سے منسلک کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے، ان کے بقول، "منصوبہ بندی پر مبنی ایک نیا شہر بنانا بہت ضروری ہے"۔

لیکن راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے راوی ریور فرنٹ کا جاری کردہ ماسٹر پلان ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے کیونکہ اس کے پیشِ نظر اس منصوبے کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

اس پلان کے مطابق لاکھوں رہائشی اور تجارتی عمارات پر مشتمل یہ منصوبہ ایک ایسی زمین پر تعمیر کیا جائے گا جس کا ایک بڑا حصہ دریائے راوی کے بیچوں بیچ واقع ہے جبکہ اس میں سے آٹھ سو 94 ایکڑ اراضی جنگلات کے طور پر مختص ہے اور 77 ہزار ایکڑ اراضی پر فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ راوی ریور فرنٹ کے مجوزہ علاقے کا ایک بڑا حصہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماسٹرپلان کے تحت سرسبز علاقے (green zone) کے طور پر رکھا گیا ہے جس میں کوئی رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارات نہیں بنائی جا سکتیں۔ 

مصطفیٰ رشید بیرسٹر علی ظفر کی توجہ اس ماسٹر پلان کی طرف دلا کر کہتے ہیں کہ "راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک ایسی زمین پر بڑے پیمانے پر رہائشی اور تجارتی تعمیرات کرنا چاہتی ہے جو سرسبز علاقے کے طور پر مختص کی گئی ہے"۔

بیرسٹر علی ظفر ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میرا موقف یہ نہیں کہ زرعی زمین ختم ہو جائے بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ ہر چیز منصوبہ بندی کے ساتھ ہو"۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "فرض کریں کہ ایک ایسا قانون بن جائے جس میں کہا گیا ہو کہ لاہور کی حدود کے باہر چالیس چالیس میل تک کوئی تعمیرات نہیں ہوں گی تو میں بہت خوش ہوں گا لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں رہا"۔ 

ان کا موکل اس دوران ایسی تمام رہائشی، تجارتی اور صنعتی تعمیرات کو ختم کرنے کے اقدامات اٹھا رہا ہے جو اس کی مجوزہ حدود میں واقع زرعی زمین کی جگہ لیتی جا رہی ہیں۔ 

زرعی زمین پر کی گئی بے ہنگم تعمیرات

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 9 دسمبر 2021 کو اپنی مجوزہ حدود میں واقع 10 رہائشی منصوبوں کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ ان میں سے سات منصوبے لاہور کے شالیمار ٹاؤن میں واقع ہیں جبکہ تین ضلع شیخوپورہ کے علاقے کالا شاہ کاکو کا حصہ ہیں۔ اتھارٹی نے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے ہیں جن میں لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ان منصوبوں میں پلاٹوں کی خرید و فروخت سے باز رہیں ورنہ وہ اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ 

اس کے اہل کار کہتے ہیں کہ انہوں نے ان منصوبوں کے ذمہ دار افراد کو کئی خطوط لکھے ہیں تاکہ وہ اپنا موقف واضح کر سکیں لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے کے بعد ہی ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے تاکہ "لوگوں کو جعل سازی سے بچایا جا سکے"۔

ان میں سے زیادہ تر منصوبے پچھلے بیس سے پچیس سال سے چل رہے ہیں۔ ان میں سے ایک، گیریژن اینڈ پیرا ڈائز ہاؤسنگ سکیم، مشرقی لاہور میں تیج گڑھ روڈ پر واقع ہے اور ایک سو 20 کینال (15 ایکڑ) پر مشتمل ہے۔ اس کا 70 فیصد سے 80 فیصد حصہ آباد ہو چکا ہے۔ 

اس کے منتظم میاں طارق کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ منصوبہ شروع کیا تو اس وقت لاہور میں کئی ٹاؤن بنائے گئے تھے جو اپنے اپنے علاقے میں انتظامی امور چلانے کا اختیار رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس منصوبے کی منظوری کے لیے عزیز بھٹی ٹاؤن میں ایک مفصل درخواست جمع کرائی جسے ٹاؤن انتظامیہ نے بعد ازاں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے صدر دفتر میں بھیج دیا۔ لیکن، ان کے بقول، وہاں یہ درخواست گم ہو گئی۔

میاں طارق کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تقریباً سارے پلاٹ فروخت ہو چکے ہیں اس لیے وہ اب خود ان کی خرید و فروخت نہیں کرتے ہاں البتہ اس میں پلاٹوں کے مالک اگر اپنے پلاٹ یا گھر بیچ رہے ہیں تو اس میں منصوبے کی انتظامیہ کا کچھ عمل دخل نہیں۔

تاہم گیریژن اینڈ پیرا ڈائز ہاؤسنگ سکیم کے داخلی راستے پر اس کا انتظامی دفتر موجود ہے جس کے دروازے پر لکھا ہے کہ یہاں کئی قسم کے رہائشی اور تجارتی پلاٹ فروخت کے لیے دستیاب ہیں جس سے بظاہر لگتا ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اس کے دفتر کو سِیل کیے جانے کے باوجود اس کی انتظامیہ اس خرید و فروخت میں ملوث ہے۔

گلشنِ یاسین بھی اسی طرح کا ایک رہائشی منصوبہ ہے جو مشرقی لاہور کی مومن پورہ روڈ پر واقع ہے۔ اس کے ساتھ موجود گاؤں، نت کلاں، کے رہائشی محمد اعجاز کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوا اور اس کا رقبہ تقریباً 62 ایکڑ ہے۔ تاہم یہاں رہنے والے لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس منصوبے کو کس نے شروع کیا تھا اور نہ ہی اس کے منتظمین کا اب کوئی دفتر موجود ہے۔ 

گلشنِ یاسین کے عقب میں واقع ایک اور رہائشی منصوبے، نور گارڈن، کا انتظامی دفتر واقع ہے (جسے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بند کر دیا ہے)۔ اس میں تعمیر کردہ مکانوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان کے اردگرد ابھی بھی سرسبز کھیت موجود ہیں۔ اس کے سِیل شدہ دفتر کے باہر ڈریم ہومز نامی رہائشی منصوبے کے اشتہارات بھی لگے ہوئے ہیں جو ایک نسبتاً نیا منصوبہ ہے اور جہاں ابھی تقریباً چھ سات گھر ہی بنے ہوئے ہیں۔

مومن پورہ روڈ پر ہی نگہبان ہومز نامی ایک چھوٹا سا رہائشی منصوبہ بھی موجود ہے جو تقریباً بارہ سے چودہ ایکڑ پر محیط ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کے مطابق اس منصوبے کا آغاز 2016 میں ہوا تھا اور اس میں ابھی صرف تین سے چار گھر بنے ہیں۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس منصوبے کی بیرونی دیوار کئی جگہوں سے گرا دی ہے۔ 

اس طرح کی کارروائیوں کے نتیجے میں ان منصوبوں میں آباد لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کئی سال سے رہ رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے گھروں کی زمین پیسے دے کر خریدی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر یہ منصوبے غیر قانونی ہیں تو ان کی زمین فروخت کرنے والے لوگوں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے اور ان افسروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے اس زمین کی غیرقانونی خرید و فروخت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ 

لیکن یہ مکین چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے گھروں سے بے دخل نہ کیا جائے بلکہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت ان کے مکانات راوی ریور فرنٹ کا حصہ بن جائیں۔ 

جواباً راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہل کار کہتے ہیں کہ وہ تعمیر شدہ گھروں کو کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے حالانکہ ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں ایک بالکل مختلف موقف اختیار کیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے 17 دسمبر 2021 کو وہ کہتے ہیں کہ اتھارٹی صرف ایسے موجودہ منصوبوں کو ہی قانونی قرار دے گی جن میں سے ہر ایک کا رقبہ کم ازم کم تین سو ایکڑ ہو گا اور وہ اِس کے قائم کردہ تعمیراتی معیار پر پورا اترتے ہوں گے۔ ان کے مطابق وہ تمام چھوٹے منصوبے جو اِن شرائط کو پورا نہیں کرتے انہیں اتھارٹی اپنے کنٹرول میں لے لے گی اور پھر ان میں رہنے والے لوگوں سے اپنے ماسٹر پلان کے مطابق ہی برتاؤ کرے گی۔ 

کیا راوی ریور فرنٹ زرعی زمین کو بحال کر دے گا؟

ستمبر 2020 میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وجود میں آنے سے پہلے یہ 10 رہائشی منصوبے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیرِاختیار علاقے میں تھے جو واضح طور پر انہیں روکنے یا قانون کے دائرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی ڈائریکٹر میٹرو پولیٹن پلاننگ بشریٰ خالد خود تسلیم کرتی ہیں کہ یہ منصوبے غیر قانونی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

زرعی زمین کا متنازعہ حصول: بی آر بی نہر سے لاہور کو پانی کی فراہمی کھٹائی میں پڑ گئی۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اپنی حدود ابھی پوری طرح متعین نہیں اور نہ اس کے پاس اس کی مجوزہ حدود میں موجود رہائشی منصوبوں کے مکمل اعدادوشمار اور متعلقہ دستاویزات موجود ہیں۔ اس لئے، ان کے مطابق، ابھی یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ مجموعی طور پر ان حدود میں آنے والے کتنے رہائشی منصوبے قانونی ہیں اور کتنے غیر قانونی۔ 

تاہم راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان حدود میں تقریباً دو سو سے زائد رہائشی منصوبے موجود ہیں جن میں سے کئی ایک کسی بھی متعلقہ ادارے سے اجازت لیے بغیر بنائے گئے ہیں اور لاہور میں کی گئی کسی بھی منصوبہ بندی میں شامل نہیں رہے۔

بشریٰ خالد کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے پچھلے ہفتے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے ملاقات کی ہے جس میں ان  سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کی حدود متعین کریں تاکہ ان کے اندر آنے والے تمام رہائشی منصوبوں کے کوائف اور دستاویزات ان کے حوالے کی جا سکیں۔ 

دوسرے لفظوں میں ان معلومات کی عدم موجودگی میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اقدامات ان تمام "غیرقانونی" تعمیرات کا احاطہ نہیں کر سکتے جو راوی ریور فرنٹ کی مجوزہ حدود میں موجود ہیں کیونکہ یہ حدیں ابھی تک متعین ہی نہیں ہوئیں۔ 

لیکن راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں عدالتی جنگ لڑنے والے کسانوں اور اس کے دیگر ناقدین کی نظر میں ان اقدامات کا بنیادی مقصد نہ تو لاہور کی منصوبہ بندی میں موجود نقائص کو دور کرنا ہے اور نہ ہی شہر کے گرد موجود زرعی زمین کو اس کی اصلی حالت میں بحال کرنا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ کارروائیاں اصل میں بےقاعدہ رہائشی منصوبوں کو ختم کر کے اِن کی جگہ راوی ریور فرنٹ کی مجوزہ تعمیرات کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ 

تاریخ اشاعت 20 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.