سکندر کوڑے سے روزی ڈھونڈتا ہے۔
اس کی عمر اٹھارہ سال ہے اور وہ پچھلے دس سال سے دریائے راوی کی سوکھی ریت پر بکھرے ہوئے لا تعداد چھوٹے بڑے کوڑے کے ڈھیروں میں سے کپڑوں کے چیتھڑے اکٹھے کر کے اینٹیں بنانے والے بھٹوں کو بیچ رہا ہے جو ان چیتھڑوں کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ 'یہ چیتھڑے لوگوں کے لئے کوڑا ہے لیکن میرے لئے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ یہ کام کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میرے بڑے بھائی شادی کے بعد علیحدہ گھر میں منتقل ہو گئے ہیں اور میں اپنے بوڑھے والد کا واحد سہارا ہوں'۔
سکندر لاہور کی ایک قدیم بستی ساندہ کا رہائشی ہے جو کبھی دریا کے کنارے پر واقع ہوا کرتی تھی لیکن اب اس کے اور راوی کے درمیان مٹی کا چوڑا سا بند بنا دیا گیا ہے جس پر کئی رویہ پختہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ پچھلے ماہ کی ایک سہ پہر کو وہ کان میں ایک بندہ پہنے، سرمئی رنگ کی قمیض اور بھورے رنگ کی جینز زیب تن کئے ہوئے راوی کے کنارے کام کر رہا ہے۔
سکندر روزانہ صبح سے شام تک اپنے لوڈر رکشہ میں راوی کی ریتیلی سطح پر بکھرے ہوئے لاتعداد کوڑے کے ڈھیروں کے کئی چکر لگاتا ہے اور وہاں سے چیتھڑے جمع کرتا ہے۔ اس روز وہ سگیاں نامی بستی کے قریب بنائے گئے پل کے قریب مصروف عمل ہے۔ یہاں کئی جگہ کوڑے میں آگ لگی ہوئی ہے لہذا وہ احتیاط کے ساتھ راکھ پر چلتے ہوئے قدم آگے بڑھاتا ہے تا کہ کہیں راکھ میں دبی کوئی چنگاری اسے نقصان نہ پہنچا دے۔ کچھ قدم چلنے کے بعد وہ جھک کر کوڑا ٹٹولتا ہے، پلاسٹک کے لفافے ہاتھوں سے پیچھے ہٹاتا ہے اور مختصر سا جائزہ لینے کے بعد آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ' کوڑے سے بدبو تو آتی ہے لیکن اب مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے ' ۔
چلتے چلتے سکندر کوڑے سے بھرا ایک بڑا پلاسٹک بیگ دریافت کرتا ہے ۔اسے کھول کر وہ اس کے اندر موجود چیزوں کو ادھر ادھر پھینکتا ہے اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس میں موجود چیتھڑے ایک جگہ اکٹھے کر کے اپنے رکشے میں رکھ لیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ تقریباً 200 کلو گرام چیتھڑے جمع کرتا ہے جنہیں بیچ کر وہ اپنے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔
سکندر کی طرح ہزاروں نوجوان اور بچے بچیاں روای سمیت شہر کے مختلف حصوں سے کوڑا اٹھا کر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ اگر ان تمام لوگوں کے جمع شدہ کوڑے کا ایک خام اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ لوگ ہر روز محض راوی کے اندر کئی لاکھ کلو گرام کوڑا چھانٹتے ہیں۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں پیدا ہونے والے کوڑے کا 85 فیصد حصہ کوڑا تلف کرنے کے لئے مختص کردہ جگہوں پر پہنچتا ہے۔ بقیہ پندرہ فیصد کوڑا جو کئی سینکڑوں ٹن پر مشتمل ہے کہاں جاتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔
اس میں سے بےشمار کوڑا لاہور کے چودہ بڑے برساتی اور سیوریج نالوں کے کناروں پر اور ان کے اندر ملتا ہے جو اپنے اس تمام فضلے کے ساتھ آہستہ آہستہ بہتے ہوئے راوی میں جا ملتے ہیں۔ یوں ان کا لایا ہوا کوڑا راوی کی سطح پر بکھر جاتا ہے۔
کوڑا کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے
ضلع کچہری لاہور سے آؤٹ فال روڈ کے ذریعے دریائے راوی کی طرف جائیں تو کچھ فاصلے پر سگیاں پل آتا ہے جو لاہور کو شیخوپورہ اور جڑانوالہ جیسے شہروں سے جوڑتا ہے اس پل کے شروع ہوتے ہی بائیں جانب دو رہائشی بستیاں آباد ہیں۔ ایک ساتھ واقع ان آبادیوں کے قریب لاہور سے کوڑا جمع کرنے والی ایک کمپنی کا پلانٹ ہے جہاں کوڑے کو دبا کر اس کے بلاک بنائے جاتے ہیں تا کہ اسے بکھرنے سے بچایا جا سکے ۔ ایک مقامی باشندے کا دعوی ہے کہ کوڑے سے بھرے ٹرک یہاں دن کے ہر حصے میں کوڑا لے کر آتے ہیں اور اکثر اسے بے احتیاطی سے بکھرا کر چلے جاتے ہیں۔ اس سے تھوڑا سا آگے بائیں جانب آبادی کے اختتام پر کوڑے کا ایک بہت بڑا ڈھیر پڑا ہوا ہے۔ جس سے تھوڑے فاصلے پر چند بھینسیں دریا سے نکل کر جگالی کر رہی ہیں جبکہ پاس ہی خانہ بدوشوں کی چند جھگیاں ہیں۔
راوی کنارے آباد ان بستیوں کے اکثر گھروں کی دیواریں جائیداد کی خرید و فروخت کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں۔ یہاں کچھ مکان ابھی زیر تعمیر بھی ہیں جبکہ یہاں کی گلیوں میں ہر طرف باریک اور ریتیلی مٹی بکھری پڑی ہے جو تھوڑی سی ہوا چلنے سے اڑنے لگتی ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھیں تو دریائے راوی نظرآتا ہے جس میں گدلا پانی ایک پتلی لکیر کی صورت میں بہتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سے بائیں جانب دیکھیں تو سگیاں پل کے اوپر چیلوں کی چھاؤنی چھائی ہے کیونکہ پل پر سے لوگ صدقے کے گوشت کے ٹکڑے دریا میں پھینکتے ہیں جس کے ٹکڑے یہ چیلیں اچک کر لے جاتی ہیں ۔
دریا کے دونوں اطراف میلوں تک ایسی کئی کچی آبادیاں اور بستیاں آباد ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ چلیں تو جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر یا کوڑے کو لگائی گئی آگ کی راکھ دکھائی دیتی ہے۔ ان رہائشی علاقوں کے پیدا کردہ گھریلو کوڑے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود چھوٹی اور گھریلو پیمانے پر کام کرنے والی صعنتوں کا فضلہ بھی دریا میں ہی آ کر گرتا ہے ۔ اگر دریا کے پانی کے اندر اتر کر دیکھیں تو اس کی مٹی میں اس کوڑے کے واضح نشانات دیکھے جا سکتے ہیں ۔
لگ بھگ سترہ سال کی عمر کے محمد آصف دریا کنارے بنی ایک بستی کے رہائشی ہیں۔ ان کے گھر سے چند فٹ کے فاصلے پر بہت سا کوڑا پڑا ہوا ہے۔ انہیں ٹھیک طرح سے معلوم نہیں کہ یہ کوڑا کہاں سے آیا ہے لیکن وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ یہ کوڑا ان کی بستی کا پیدا کردہ ہے۔ اس کی بجائے وہ کہتے ہیں کہ 'رات کو نیلے رنگ کی گاڑیاں آ کر یہ کوڑا پھینک کر جاتی ہیں اور کبھی کبھی رات کو اس کوڑے کو آگ بھی لگا دی جاتی ہے'۔
سگیاں پل کے ساتھ کام کرنے والے ایک دوکاندار نام نہ بتانے کی شرط پر کہتے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے کوڑے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن جب کوڑا اٹھانے والی کمپنی کی گاڑیاں کوڑے کو شہر سے پلانٹ کی جانب لے کر آتی ہیں تو ان کے گزرنے سے اڑنے والی مٹی اور کوڑے سے رسنے والے بدبودار پانی سے انہیں بہت پریشانی ہوتی ہے۔
پل کے پاس ہی نہیں بلکہ راوی کے کناروں پر دور دور تک پلاسٹک کے تھیلے بڑی تعداد میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ کئی جگہ سالوں پرانا کوڑا دریا کے بہاؤ کا مستقل حصہ بن چکا ہے جس سے دریا کی سطح کے نیچے پائی جانے والی مٹی بدبودار کیچڑ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
دریا کے اندر کئی مقامات پر خانہ بدوشوں کی جھگیاں اور مویشیوں کے باڑے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فضلہ بھی دریا کی ریت اور اس کے پانی میں آزادانہ طور پرشامل ہوتا رہتا ہے۔
ایشین جرنل آف سوشل سائینسز اینڈ ہیومینیٹیز میں 2012 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ کوڑا کرکٹ راوی کے پانی اور اس کے ارد گرد موجود بستیوں کے زیر زمین پانی کو زہریلا بنا رہا ہے تحقیق کاروں نے جب راوی کے قریب بنائی گئی محمود بوٹی لینڈ فل سائٹ کے ساتھ زمینی آلودگی کا جائزہ لیا گیا تو خوفناک نتائج سامنے آئے۔ ستمبر اور دسمبر 2010 کے درمیان لئے گئے پانی کے نمونوں میں انہوں نے ٹوٹل کولیفورم (ٹی سی)، فیکل کولیفورمز (ایف سی)، ای کوولی، سالمونلا ایس پی پی جیسے کئی جرثومے دریافت کئے جو پیٹ، جلد اور جگر کے امراض کے ساتھ دیگر کئی خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق بالخصوص گیلے موسم میں اس علاقے کا زمینی پانی پینے کے بالکل قابل نہیں رہتا۔
راوی: برلبِ مرگ دریا
راوی ان چھ دریاؤں میں سے ایک ہے جو انڈیا کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے پاکستان میں آتے ہیں۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں پاکستان اور انڈیا نے ان دریاؤں کی تقسیم کا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں انڈیا کو راوی کے پانی پر مکمل اختیار حاصل ہو گیا۔ اس وقت سے انڈیا نے اس دریا پر متعدد بند باندھے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے اس میں پانی کی مقدار بہت کم رہ جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دریائے چناب سے دو بڑی نہریں ( بمبانوالہ : بیدیاں اور قادر آباد : بلوکی ) نکال کر ان کا پانی راوی میں ڈالا گیا ہے تا کہ اسے لاہور اور فیصل آباد ڈویژنوں میں آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاسکے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں راوی کے ساتھ ساتھ تقریباً پانچ کروڑ لوگ آباد ہیں جن میں سے تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ صرف لاہور میں آباد ہیں۔
راوی کو پنجاب کی معشیت میں بھی بہت اہمیت حاصل رہی ہے ابھی بھی یہ دریا پاکستان کی تیس فیصد زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔
تاہم محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق' دریائے راوی دریائی حیاتیات کے لئے مر چکا ہے ' کیونکہ اس کے پانی میں وہ آکسیجن موجود نہیں رہی جو مچھلیوں اور دوسرے دریائی جانوروں کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ گھروں کا کوڑا کرکٹ، صعنتی فضلہ، زرعی کچرا اور ہر طرح کا کاٹھ کباڑ دریا کے کنارے آباد بڑے شہروں سے اس کے پانیوں میں شامل ہو رہا ہے۔ جسے دریا تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات یا تو سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔
ان میں سے ایک اہم اقدام کے تحت 1998 میں لاہور کی مضافاتی بستی محمود بوٹی کے مقام پر 40 ایکڑ اراضی کوڑا کرکٹ جمع اور تلف کرنے کے لئے مختص کی گئی-18 سال بعد اپریل 2016 میں بند کر دیا گیاکیونکہ اس میں مزید کوڑا ذخیرہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
محمود بوٹی راوی سے محض چند کلو میٹر جنوب میں واقع ہے ۔2011 میں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق راوی کے کنارے کھدائی کی ایک مہم کے دوران مبینہ طور پر ایک قدیم پُل کی باقیات ملیں جو محمود بوٹی سے بالکل متصل علاقے میں واقع ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے صرف تحقیقات سے ہی پتہ چل سکے گا کہ یہ پل کیوں بنایا گیا تھا اور اس سے کن کن علاقوں کو جوڑا گیا تھا۔ لیکن ان باقیات سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمود بوٹی در حقیقت دریا ہی کی کسی پرانی گذرگاہ پر ہی واقع ہے چناچہ یہاں بنائی گئی کوڑا کرکٹ جمع کرنے والی جگہ کے دریا کے موجودہ بہاؤ پر اثرات کو خارج از مکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی غیر قانونی آبادیوں کے خلاف کارروائی: 'زرعی زمین پر کنٹرول کا طریقہ'۔
اگر لاہور کے گرد اگرد بنی رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو ائیرپورٹ اور شاہدرہ کے تقریباً درمیان میں کوڑے کا ایک پہاڑ نظر آتا ہے یہ محمود بوٹی کا کوڑا کرکٹ کے ذخیرہ اور تلفی کے لئے مختص کردہ مقام ہے۔ اس کے سامنے کاحصہ پودے لگا کر یہاں سے گزرنے والوں کی نظروں سے چھپا دیا گیا ہے ۔
کوڑے کا یہ ڈھیر 80 فٹ بلند ہے۔ اس کی چوٹی پر جانے کے لئے کوڑے کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اوپر سے گزر کر جانا پڑتا ہے جن کے درمیان گاڑیوں کی آمدورفت سے ایک راستہ بن چکا ہے جو پہاڑی سڑکوں کی طرح بل کھاتا ہوا آہستہ آہستہ بلند ہوتا جاتا ہے۔ اس پہاڑ پر چڑھ کر دیکھیں تو لاہور بہت نیچے دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بائیں جانب لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا کوڑے سے کھاد بنانے کا پلانٹ ہے جو بند پڑا ہےاور اس کے شمال میں کچھ فیکٹریاں اور زیر کاشت کی زمین نظر آتی ہے جو پھیلتے پھیلتے راوی سے جا ملتی ہے۔
کوڑے کے اس ڈھیر کو کسی پلاسٹک شیٹ یا کسی دوسرے طریقے سے نہیں ڈھانپا گیا۔ ہوا چلتے ہی اس میں ڈھیر ہوئے پلاسٹک کے تھیلے اڑنے لگتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہاں موجود یہ تھیلے اور دوسرا لاکھوں ٹن فضلہ بارشوں اور آندھیوں کے موسموں میں کسی نہ کسی حد تک دریائے راوی میں شامل ہو کر دریائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔
محمود بوٹی میں جہاں بھی کوڑے میں پانی کھڑا ہے وہاں مسلسل بلبلے دیکھنے کو ملتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ کوڑے میں سے مسلسل ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والی گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے ۔ یہ گیسیں بھی زیر زمین پانی میں شامل ہو کر بالآخر راوی کے پانی کو زہریلا بنا رہی ہیں۔
ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک ایف سی کالج یونیورسٹی میں ڈین فار پوسٹ گریجویٹ سٹڈیز ہیں اور اسی یونیورسٹی میں سکول آف لائف سائنسز میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ راوی کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوڑے کو ڈھاپنا بہت ضروری ہے ورنہ اس میں سے ماحولیات کے لئے نقصان دہ گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔' دوسرے ممالک میں اس عمل سے گیس کشید کر کے ایندھن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ صرف ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے'۔
لاہور کا کوڑا کہاں جاتا ہے ؟
لاہور میں ایک دن میں تقریباً 5500 ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق اس کوڑے کا 85 فیصد حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کوڑے کے ذخیرہ اور تلفی کی جگہوں تک پہنچتا ہے۔ آزادانہ اور غیر جانبدرانہ جائزوں کے مطابق مناسب طریقے سے تلف نہ کئے جانے والے کوڑے کی مقدار باقی بچ جانے والے کوڑے سے کہیں زیادہ ہے۔
کوڑے کو تلف کرنے کے لئے سرکاری طور ہر متعین جگہوں میں سب سے اہم 128 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر پھیلی ہوئی لکھو ڈہر سائٹ ہے جسے پاکستان کی پہلی سائنسی بنیادوں پر بنائی گئی سینٹری لینڈ فل سائٹ (sanitary landfill site) کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ محمود بوٹی سے تقریبا ساڑھے پانچ کلو میٹر دور مشرق میں رنگ روڈ کے نزدیک واقع ہے ۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے دعوے کے مطابق اس سائٹ میں کوڑے کو سنبھالنے کے لئے ضروری تمام بین الاقوامی معیارات کو مدِ نظر رکھا گیا۔
اس کے دو ابتدائی حصوں کو اس طرح سے بنایا گیا کہ وہ مجموعی طور پر 4000 سے 4500 ٹن کچرا سائنسی طریقوں سے ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق اس لینڈ فل کی اہم خصوصیات اس کے نیچے موجود زمینی پانی اور مٹی کو آلودہ ہونے سے بچانا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والی میتھین گیس کے بارے میں بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ اسے بجلی کی پیداوار میں استعمال کیا جا سکے گا۔
تاہم ایک بلین روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی اس سائٹ کے اندر بھی کوڑا بےقاعدگی سے ہر جگہ پھینکا جا رہا ہے جس سے اس کے نیچے موجود زیر زمین پانی اور مٹی دونوں خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
اس حوالے سے ڈپٹی جنرل مینجر آپریشن لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی محمد آصف اقبال کہتے ہیں کہ کوڑا تلف کرنے کی جگہیں بنانے سے پہلے ایک سروے کیا جاتا ہے جس میں اس طرح کے امور کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ جگہیں شہر سے مزید برآں ہوں، ایئر پورٹ سے تقریباً دس کلو میٹرکے فاصلے پر ہوں اور آبی ذخائر کو بھی نقصان نہ پہنچائیں۔ لکھو ڈہر سائٹ بناتے وقت بھی 'ہمارے ماہرین نے مدِ نظر رکھا تھا اور تحفظ ماحولیات کے محکمے کی اجازت کے بعد ہی یہ سائٹ بنائی گئی تھی' ۔
رافع عالم اس بات سے متفق نہیں کہ یہ سائٹ صحیح طور سے کام کر رہی ہے۔ وہ لاہور میں ماحولیاتی قانون وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قائم کئے گئے راوی کمیشن کے ممبر بھی رہے ہیں اور کمیشن میں درخواست دائر کرنے والے کمال خان ممتاز کے وکیل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آج بھی بہت بڑی مقدار میں کوڑا شہر کے اندر اور باہر انتہائی بے قاعدہ، غیر سائنسی اور نقصان دہ طریقے سے جمع اور تلف کیا جا رہا ہے۔ وہ لاہور ویسٹ میجمنٹ کمپنی کو کوڑے کے بے قاعدہ طور پر پھینکے جانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ ' لاہور ان خوش قسمت شہروں میں سے ایک ہے جن کے پاس سائنسی بنیادوں پر بنی ہوئی کوڑا تلف کرنے کی جگہ موجود ہے اب یہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوڑے کو محفوظ طریقے سے تلف کرے لیکن مشینری نہ ہونے کے باعث کوڑا ہرجگہ پھینکا جا رہا ہے'۔
اس صورتحال میں کوڑا اگر راوی میں جا رہا ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔
آخر راوی کو کوڑا کرکٹ سے بچانے کے لئے حکومت کون سے ایسے اقدامات اٹھا سکتی ہے جو فوری طور پر قابل عمل اور مؤثر ہوں؟
ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کہتے ہیں اس تمام مسئلے کا حل سائنس ہے۔' کوڑا پھینکنے کے لئے ایسی ٹیکنالوجیز موجود ہیں جن کی مدد سے زیر زمین پانی کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ حکومتی اہلکار سائنس کے استعمال سے بھاگتے ہیں '۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفع 2 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 4 اکتوبر 2021