نسرین سیلاب کے بعد کی صورتِ حال سے اس قدر مایوس ہوئیں کہ انہوں نے پانچ اکتوبر 2022ء کو اپنی تین کم سِن بیٹیوں سمیت دریائے کابل میں چھلانگ لگا دی۔
خوش قسمتی سے ریسکیو 1122 کے غوطہ خوروں کی بر وقت کارروائی کی وجہ سے 35 سالہ نسرین اور ان کی بیٹیوں، جن کی عمریں دو سے چھ سال کے درمیان ہیں، کو بچا لیا گیا۔
نسرین نوشہرہ شہر سے تین کلومیٹر شمال کی جانب نوشہرہ کلان کے گاؤں مِثل آباد میں رہتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے سُجاگ کو بتایا کہ انہیں ایک مقامی صاحبِ حیثیت آدمی نے رہنے کے لئے گھر دے رکھا تھا۔
گذشتہ سال 25 اگست کو آنے والے سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر کئی فٹ پانی میں گِھر گیا جبکہ اس میں موجود تمام سامان اور کھانے پینے کی اشیاء سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد جب وہ اپنے شوہر اور تین بیٹیوں کے ہمراہ دوبارہ اپنے گھر گئیں تو اسے کیچڑ سے صاف کیا اور اُس میں رہنے لگیں۔ ’’لیکن کچھ روز بعد گھر کے مالک نے ہمیں وہاں سے نکال دیا تاکہ متاثرین کو ملنے والی امداد وہ لے سکے۔‘‘
اس طرح پانچ افراد پر مشتمل یہ کنبہ سڑک پر آ گیا۔
ان دنوں ان کے شوہر بھی بے روزگار تھے، سر سے چھت بھی چِھن گئی، گھر میں پڑا سامان اور کھانے پینے کی اشیاء سیلاب کی نذر ہو گئیں جبکہ سیلاب کے کھڑے پانی کی وجہ سے جِلدی بیماریوں نے بھی انہیں آ گھیرا۔
’’ایسے میں ہماری مدد کو کوئی نہیں تھا۔ ان نامساعد حالات سے دل برداشتہ ہو کر میں نے اپنی تین بیٹیوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی۔‘‘
اس واقعہ کے بعد ایک مقامی خاتون سماجی کارکن نے ان کی مالی مدد کی اور بستر اور چارپائیاں فراہم کیں جبکہ ایک مخیّر شخص نے انہیں تین مرلہ زمین خرید کر دےدی جس پر اُس خاتون نے انہیں ایک کمرا بنا کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
حالیہ سیلاب کی وجہ کی ضلع نوشہرہ میں ہزار کے قریب گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔
نوشہرہ شہر سے شمال مشرق کی جانب 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بیلہ پیر پیائی کے علاقہ مجید آباد کی 40 سالہ بیوہ مریم بی بی کہتی ہیں کہ جب انہیں یاد آتا ہے کہ کس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا بھرا پُرا گھر سیلابی پانی میں ڈوب گیا تو وہ اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کے سامنے بند نہیں باندھ پاتیں۔
گذشتہ سال آنے والےسیلاب سے ضلع نوشہرہ میں 72 ہزار 678 سیلاب متاثرین کو کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا
وہ بمشکل اپنی بیمار خالہ اور کمسن بچے سمیت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئیں اور سر چھپانے کے لئے اپنے ایک رشتہ دار کے گھر رہنے لگیں۔
بیمار خالہ کو اُس رشتہ دار کے گھر چھوڑ کر وہ سارا دن گھر سے کچھ فاصلہ پر ریل کی پٹڑی کے قریب بیٹھ کر پانی کے نیچے اترنے کا انتظار کرتیں تاکہ وہ اپنے گھر جا سکیں۔
پانچ دن بعد پانی کچھ کم ہوا تو وہ کیچڑ کے درمیان سے اپنا رستہ بناتے ہوئے بڑی مشکل سے اپنے گھر پہنچیں تو دیکھا کہ گھر میں پڑا تمام سامان سیلاب کے پانی کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں رہا۔
خیبر پختونخوا میں محکمہ موسمیات کے مطابق 25 اگست 2022ء کو آنے والے سیلاب کی وجہ سوات کے علاقے کالام اور دِیرکے علاقوں میں معمول سے زیادہ بارشیں تھیں۔
گذشتہ سال اگست سوات کے پُر فضا مقام کالام میں 268 اعشاریہ ملی میٹر بارش ہوئی جبکہ ضلع اپر دِیر میں 361 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔
اس کے برعکس عمومی طور پر کالام میں جولائی اور اگست میں 45 سے 50 ملی میٹر تک بارشیں ریکارڈ ہوتی ہیں جبکہ اسی عرصہ کے دوران دِیر میں 150 ملی میٹر تک بارشیں ہوتی ہیں۔
حالیہ سیلاب نے سوات اور چارسدہ کے بعد ضلع نوشہرہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا جس سے سیکڑوں گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ بڑھنے سے سیلابی پانی نوشہرہ کے مقام پر حفاظتی دیوار کو توڑ کر پانی آبادی میں داخل ہوا۔
علاقہ بیلہ پیر پیائی جو کہ دیائے کابل کے کنارے آباد ہے جہاں پورے کے پورے گاؤں پانی میں ڈوب گئے۔ علاقہ بیلہ پیر پیائی میں دریائے کابل کے کنارے چار گاؤں آباد ہیں جن میں لیاقت آباد، مجید آباد، غازی آباد اور محسن آباد شامل ہیں۔ ان چاروں دیہات میں سیلابی ریلہ داخل ہوا جس کی وجہ سے کئی دن تک ان علاقوں میں پانچ فُٹ پانی کھڑا رہا۔
حکومتی اداروں کے ساتھ مقامی رضا کاروں نے بھی متاثرہ لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد کی جبکہ متاثرین کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا۔
2022 میں آنے والے سیلاب سے ضلع نوشہرہ میں 979 گھر متاثر ہوئے
ضلع نوشہرہ کے علاقہ نوشہرہ کلان سے ہی تعلق رکھنے والے ناصر خان نے سُجاگ کو بتایا کہ حالیہ سیلابی ریلہ نوشہرہ کلان میں حفاظتی دیوار کے کچھ حصے کو بہا کر لے گیا جس کی وجہ سے پانچ سے سات فُٹ تک پانی نوشہرہ کلان کے آبادی میں داخل ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر دریائے کابل کے کنارے حفاظتی دیواروں کو مضبوط کر دیا جائے تو سیلابی ریلے سے نوشہرہ کلان کی آبادی کو بچایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 25 اگست 2022ء کو دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر دو لاکھ 60 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلہ داخل ہوا جبکہ 2010ء میں نوشہرہ دو لاکھ کیوسک سیلابی ریلے کی زد میں آیا تھا۔ لیکن پانی کے زیادہ بہاؤ کے باوجود حالیہ سیلاب میں 2010ء کے سیلاب کے مقابلہ میں بہت کم نقصان ہوا۔
سنہ 2010ء میں سیلاب کی وجہ سے نوشہرہ میں 167 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ سیلابی پانی سے 50 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے پہلے دورِ حکومت (2013-2018ء) میں اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے آبائی ضلع نوشہرہ میں 22 ارب روپے کی لاگت سے دریائے کابل پر 26 کلومیٹر پر محیط دونوں کناروں پر حفاظتی دیوار تعمیر کروائی تھی۔
اس حفاظتی دیوار کی وجہ سے 2022ء میں سیلابی ریلے سے 17 لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع نوشہرہ میں، پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، تین افراد جاں بحق اور 979 گھر متاثر ہوئے جن میں 23 مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 925 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔
خیبر پختوںخوا کی پراونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان تیمور علی خان کے مطابق حالیہ سیلاب میں ضلع نوشہرہ میں 72 ہزار 678 سیلاب متاثرین کو کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا۔
"یہ لوگ تین دن تک ان کمیپوں میں رہے جو پانی کی سطح کم ہوتے ہی اپنے گھروں میں منتقل ہو گئے"۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ میں سیلاب کے متاثرین کی شکایات: 'حکومت نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی اور ہمیں لاوارث چھوڑ دیا ہے'۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پراونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے ضلع نوشہرہ میں سیلاب سے سیلاب میں گِھرے 20 ہزار 925 افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا۔
تیمور علی نے کہا کہ حکومت جاں بحق ہونے والے افراد کے وارثوں کو آٹھ لاکھ روپے، زخمی ہونے والوں کو چار لاکھ روپے دے گی۔ مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے مالکان کے لئے تین لاکھ روپے اور جبکہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے لئے ایک لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ترجمان لائق زادہ کے مطابق اب تک 443 متاثرہ گھروں کے مالکان کو معاوضہ دیا جا چکا ہے جبکہ باقی متاثرین کی معاوضہ دینے کی عمل جاری ہے ’’جس میں اکثر متاثریں کی بینک اکاونٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس عمل میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘‘
آج سے تقریباً 14 سال قبل شورش زدہ علاقوں میں ملٹری آپریشنوں کی وجہ سے جزوی اور مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کے مالکان کے لیے چار لاکھ روپے اور جزوی نقصان والے گھروں کے مالکان کو ایک لاکھ 60 ہزار روپے معاوضہ دیا جاتا تھا۔
اس حوالہ سے ضلع نوشہرہ کے رہائشی پرویز خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے تین لاکھ روپے سے ایک گھر کی تعمیر تو دُور کی بات ’’ایک چھوٹے سے گھر کی چار دیواری کی تعمیر تک ممکن نہیں۔‘‘
تاریخ اشاعت 9 مارچ 2023