1987ء میں قائم ہونے والے ریجنل ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہاولپور میں زرعی اجناس پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے لیے 178 ایکڑ رقبہ مختص ہے جس میں سے 123 ایکڑ زرعی و تحقیقاتی مقاصد کے لیے ہے۔گزشتہ تین ماہ سے یہ ادارہ بجلی کے بلوں کی مد میں 19 لاکھ روپے کا نادہندہ ہے اور واپڈا اس کی بجلی منقطع کرنے کے درپے ہے ۔ بجلی نہ ہوئی تو اس کے کام میں خلل پڑے گا اور اس کے زیراہتمام کاشت کردہ کپاس، جوار، باجرہ، مونگ اور دھان کی فصل بھی متاثر ہو گی۔
اس انسٹی ٹیوٹ کا بجٹ صوبائی حکومت جاری کرتی ہے اورتحقیق کے لیے اسے تین ماہ کی قسطوں میں ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ دیے جاتے ہیں۔ سائنس دانوں اور دیگر ملازمین کی تنخواہوں اور دفتری اخراجات کی مد میں سالانہ چھ کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا جاتا ہے۔ فصلوں کی کاشت، بجلی، ڈیزل اور زرعی ادویات پر ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کے قریب خرچ ہوتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام کاشت کی گئی فصلوں کی سال 2022 اور 2023 میں آمدن ایک کروڑ 40 لاکھ روپے رہی جسے قواعد کے تحت نیلامی سے حاصل کیا گیا۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد خالد نے بتایا ہے کہ امسال حکومت پنجاب کے احکامات کی روشنی میں زیادہ کپاس اگاؤ مہم میں ان کا ادارہ بھی شامل ہوا اور اپنے 30 ایکڑ رقبہ پر کپاس بھی کاشت کی۔ لیکن کپاس کی فصل پر زرعی ادویات کے چھڑکاﺅ کے لیے اس کے پاس بجٹ نہیں تھا لہیذا یہ کام ادھار لے کر کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ اس ادارے میں سب سے زیادہ کام گندم کے بیج تیار کرنے پر ہو رہا ہے۔ اس ادارے نے گندم کی نواب21 جیسی قسم تیار کی ہے جس کا آٹا استعمال کرنے سے عموماً اضافی زنک کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گزشتہ سال پنجاب میں گندم کے کل کاشت ہونے والے رقبے میں سے 20 فیصد پر نواب 21 اگائی گئی۔
"گندم کی اس قسم میں پانی کی کمی اور گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اس کی پیداوار گزشتہ سال 70 من فی ایکڑ تک بھی گئی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ انسٹی ٹیوٹ کی تیارکردہ رایا کی اقسام میں چولستانی رایا بہترین ثابت ہوئی ہے۔ اس کی پیداوار 30 سے 35 من فی ایکڑ ہو سکتی ہے اور اس میں تیل کی مقدار بھی 35 سے 40 فیصد تک ہوتی ہے جبکہ عام رایا میں تیل کی مقدار 30 سے35 فیصد ہوتی ہے۔
"ہمیں کھیتوں میں کام کرنے والے سٹاف کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں صرف تین فیلڈ اسسٹنٹ ہیں اور ان کی 16 سیٹیں خالی ہیں۔ ایک چوکیدار ہے جبکہ چھ سیٹیں خالی ہیں۔ سینئر سائنس دانوں کی چھ اسامیاں بھی خالی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سات آٹھ برس سے نئی بھرتیاں نہ ہونا اور افسروں کی ترقی کا عمل رک جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں درجہ چہارم سے لے کر سائنس دانوں تک تمام اسامیوں پر تعیناتیاں سیکرٹری زراعت پنجاب کے اختیار میں ہیں جنہوں نے خالی سیٹوں پر ملازمین کی بھرتی کے احکامات جاری کرنا ہوتے ہیں۔
ریجنل ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں 24 سائنس دان کام کر رہے ہیں جن کی تنخواہوں پر تقریباً چار کروڑ 20 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ تحقیق کا بجٹ تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر لعل حسین اختر نے بتایا کہ ادارے میں گندم، چنا، مونگ، جوار، باجرہ اور رایا کی اقسام پر تحقیق جاری ہے۔ اب تک گندم کی 16 اقسام تیار ہو چکی ہیں جن میں سے چھ اقسام آس11، گولڈ 16، جوہر 16، غازی 19، نواب 21 اور صادق 21 فیلڈ میں موجود ہیں۔ نیزBF 1807 اور BF 20105 منظوری کے مراحل میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں اجناس کی کسی بھی ورائٹی یا قسم کو منظوری کے لیے اس کی تجرباتی بنیادوں پر کاشت ہوتی ہے جس میں متعلقہ اداروں کے بیج شامل کیے جاتے ہیں جو منظوری کے لیے سیڈ سرٹیفکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک رپورٹ جاری کی جاتی ہے کہ کس ورائٹی کی کتنی پیداوار رہی اور دوسرے عوامل جیسا کہ موسم کے خلاف مدافعت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں چنے کی وہ قسم بھی متعارف کرائی گئی جسے کابلی چنے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح بہاولپور چنا 21، دیسی چنا، مونگ 88 اور بہاولپور مونگ 2017 بھی اسی ادارے نے متعارف کرائیں۔ رایا کی اقسام میں بہاولپور رایا کے بعد اب چولستان رایا کی قسم بھی منظوری کے مراحل میں ہے جس کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور تیل بھی زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح جوار اور باجرہ کی بھی کامیاب اقسام متعارف کرائی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ہواؤں کے بدلتے رخ سے انجان رہے ہم: پاکستان کا زرعی شعبہ موسمیاتی تبدیلی سے کن تبدیلیوں کی زد میں ہے؟
بہاولپور کے کاشت کار محمد عارف نواز بلوچ کہتے ہیں کہ وہ دو سال سے بہاولپور کی نواب 21 کی قسم کاشت کر رہے ہیں۔ عام حالات میں اس کی پیداوار 60 من فی ایکڑ تک ہوتی ہے۔ گندم کی دیگر اقسام کاشت کیں تو ان کی پیداوار 40 من سے 45 من فی ایکڑ سے نہ بڑھ سکی۔ گندم کی یہ قسم بہاولپور کے زرعی تحقیقی مرکز کا اہم کارنامہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ ایسے اداروں اور ان کے کام کو بڑھائے تاکہ اجناس کی زیادہ پیداوار مل سکے اور ان میں بیماریوں کے خلاف مدافعت پر توجہ دی جا سکے۔
مقامی ماہر زراعت چوہدری محمد زاہد جاوید انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تحقیقی بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے اور انسٹی ٹیوٹ میں تمام خالی اسامیوں کو پر کیا جانا چاہیے تاکہ علاقے میں گندم سمیت دیگر اجناس کی پیداوار اور معیار کو بڑھایا جا سکے۔
تاریخ اشاعت 6 اکتوبر 2023