نذیر احمد عرف باؤ بھٹی کے پاؤں گوبر اور مٹی سے اٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنی تباہ شدہ فصلوں کے درمیان ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ اپنے کھیتوں پر نظر ڈالتے ہوئے وہ غم اور غصے سے بھری ہوئی آواز میں کہتے ہیں کہ "اگر یہ زمین میرے پاس نہ رہی تو میں کیا کروں گا کیونکہ مجھے تو کاشت کاری اور مویشی پالنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا"۔
ان کا تعلق وسطی پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی لاہور سے متصل تحصیل فیروزوالا کے گول نامی گاؤں سے ہے۔ پنجاب حکومت کا ایک ادارہ، راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پچھلے دو سالوں سے یہاں کی زرعی زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اسے راوی ریور فرنٹ نامی ایک رہائشی اور تجارتی منصوبے کا حصہ بنا سکے جو لاہور کے شمال میں بہنے والے دریائے راوی کے پاٹ اور کناروں پر ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر تعمیر کیا جائے گا۔
ادھیڑ عمر نذیر احمد اور ان کا خاندان 11 ایکڑ اراضی کے مالک ہیں جسے وہ کسی بھی قیمت پر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو نہیں دینا چاہتے۔ لیکن وہ زمین کے حصول کے لیے اٹھائے جانے والے سرکاری اقدامات کے خلاف مزاحمت کرنے کے الزام میں پہلے ہی دو بار جیل جا چکے ہیں اس لیے ستمبر 2022 کے تیسرے ہفتے کی ایک دوپہر کو جب ان کی انکھوں کے سامنے ان کی چری، مکئی اور چاول کی کھڑی فصلوں پر مشینیں چلا کر تلف کیا جاتا ہے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اپنے اس طرزِعمل کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس بار "میں قانونی لڑائی لڑنے کو ترجیح دوں گا"۔
ایک قریبی بستی، اعواناں والے ڈیرے، میں رہنے والے زمین دار عمر حیات کی فصلیں بھی تلف کر دی گئی ہیں۔ ان کا 13 افراد پر مشتمل خاندان آٹھ ایکڑ اراضی کا مالک ہے لیکن انہوں نے مزید 20 ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہل کاروں نے میری جوار اور کدو کی تیار فصلوں پر مشینیں چلا دی ہیں جس سے ان کی کاشت پر خرچ ہونے والے کئی لاکھ روپے ضائع ہو گئے ہیں"۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس نقصان کے نتیجے میں وہ ٹھیکہ ادا کرنے کے لیے قرض لی ہوئی رقم بھی واپس نہیں کر پائیں گے۔
فصلوں کی تلفی سے متاثر ہونے والے زمین داروں میں سلیمان سجاد وڑائچ بھی شامل ہیں۔ وہ گول کے نواح میں واقع ایاں نگر کلاں نامی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے ماہ ان کے گاؤں میں مجموعی طور پر سو ایکڑ سے زیادہ اراضی پر کھڑی فصلیں تلف کی گئی ہیں۔
تاہم راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان شیر افضل بٹ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے ادارے کے اہل کار فصلوں کی تلفی میں ملوث ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہ کام دراصل شیخوپورہ کی ضلعی انتظامیہ کر رہی ہے"۔
وہ بہرحال تسلیم کرتے ہیں کہ اتھارٹی نے حال ہی میں پنجاب بورڈ آف ریونیو کو فیروزوالا تحصیل کے مختلف دیہات سے زمین حاصل کرنے کے لیے تقریباً چار ارب روپے ادا کیے ہیں۔ چنانچہ، ان کے مطابق، "اب یہ پنجاب بورڈ آف ریونیو کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں اس زمین کا قبضہ لے کر دے"۔
چوری یا سینہ زوری؟
پچھلے ماہ کے تیسرے ہفتے میں نذیر احمد کے کھیتوں کے پاس تین ٹویوٹا ہائی لکس ٹرک کھڑے ہیں جن پر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سٹکر لگے ہوئے ہیں۔ ان سے چند قدم کے فاصلے پر ایک درخت کے نیچے اسی ادارے کے اہل کار چارپائیوں اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ نیلی وردی میں ملبوس چار مسلح افراد ان کے گرد کھڑے ہوئے ہیں۔ ان مسلح افراد کے دس بارہ ساتھی کچھ فاصلے پر مکئی کے سٹے بھون کر کھا رہے ہیں جو انہوں نے ایک تلف شدہ کھیت سے حاصل کیے ہیں۔
ان اہل کاروں کی سربراہی آسمانی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر افسر کر رہے ہیں جو خود بھی درخت کے نیچے موجود ہیں۔ وہ اپنا نام اور عہدہ نہیں بتانا چاہتے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ "وہ خود کو کرنل لقمان کے نام سے متعارف کراتے ہیں"۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف انہی زمینوں پر کھڑی فصلیں تلف کر رہے ہیں جو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ملکیت ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق مقامی لوگوں نے "ان زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جسے چھڑانے کے لیے یہ کارروائی کی جا رہی ہے"۔
فیروز والا میں قائم اراضی ریکاڈ سنٹر سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار ان کی بات کی توثیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے چند ہفتوں میں ایاں نگر کلاں اور گول جیسے 16 موضع جات کی چار ہزار ایک سو بارہ ایکڑ اراضی راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام منتقل ہو چکی ہے۔
مقامی زمین دار حیران ہیں کہ ایسا کب اور کیسے ہوا کیونکہ، ان کے ایک رہنما، میاں مصطفیٰ رشید، کے بقول، "نہ تو ان میں سے کسی نے اپنی زمین حکومت کو فروخت کی ہے اور نہ ہی کسی نے اس ضمن میں کسی دستاویز پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کیا ہے"۔
ایاں نگر کلاں کے رہنے والے سعد اسلم وڑائچ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 17 اگست 2022 کو فیروزوالا میں واقع محکمہ مال کے دفتر سے اپنی 63 ایکڑ زرعی اراضی کی فرد ملکیت نکلوائی جس میں انہی کا نام بطور مالک درج تھا۔ اس کے باوجود چند ہفتے بعد پانچ ایکڑ پر کھڑی ان کی فصلیں تلف کر دی گئیں اور انہیں بتایا گیا کہ ان کی اراضی کا یہ حصہ اب راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام منتقل ہو چکا ہے۔
وہ کاشت کاری کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فصلوں کی تلفی سے کئی روز پہلے انہوں نے فیروزوالا کے اسسٹنٹ کمشنر اور شیخوپورہ کے ڈپٹی کمشنر دونوں کو درخواستیں دی تھیں کہ ان کی زمین راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام منتقل نہ کی جائے۔ ان درخواستوں کے ساتھ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کا 31 دسمبر 2020 کو جاری کیا گیا ایک حکم امتناعی بھی لف کیا تھا جس میں ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور مقامی زمین داروں کے درمیان متنازعہ زمین کی ملکیت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرے گی۔
کئی دوسرے مقامی زمین داروں کا کہنا ہے کہ اس حکمِ امتناعی کے بعد وہ مطمئن ہو گئے تھے کہ "اب ان کی زمینیں محفوظ ہو گئی ہیں"۔ لیکن میاں مصطفیٰ رشید کہتے ہیں کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور شیخوپورہ کی ضلعی انتظامیہ نے اس حکمِ امتناعی کو نظرانداز کرتے ہوئے "ملی بھگت کر رکھی ہے جس کے تحت زمین کی ملکیت مقامی لوگوں سے چھینی جا رہی ہے"۔
سلیمان سجاد وڑائچ بھی کہتے ہیں کہ زمین داروں کے ساتھ "جعل سازی" کی جا رہی ہے۔ وہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کی طرف سے 21 دسمبر 2021 کو دیے گئے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے پنجاب اسمبلی سے منظور کرایا گیا قانون آئین سے متصادم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے تحت اراضی کے حصول جیسے کیے گئے تمام اقدامات کو بھی غیرآئینی اور غیرقانونی کہہ کر ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اگرچہ، ان کے مطابق، 31 جنوری 2022 کو سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا تھا لیکن ایسا کرتے ہوئے اس نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو صرف انہی زمینوں پر اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی تھی جو اُس نے اُس وقت تک حاصل کر لی تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اتھارٹی نے سپریم کورٹ کے سامنے "جھوٹ بولا تھا" کہ اس نے راوی ریور فرنٹ کے لیے درکار 95 فیصد اراضی حاصل کر لی ہے۔ "اب چونکہ اس کی سماعت دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے تو اس جھوٹ کو سچ میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے"۔
تم اپنی کرنی کر گزرو
درجن بھر زمین دار 21 ستمبر 2022 کی سہ پہر لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں کرسیوں پر مایوس بیٹھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا خیال ہے کہ وہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے قانونی اور عدالتی جنگ نہیں جیت سکتے اس لیے انہیں اس کے خلاف مزاحمت کے دوسرے طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔
لیکن وہیں موجود میاں مصطفی رشید اور سلیمان سجاد وڑائچ انہیں سمجھاتے ہیں کہ "ہمیں قانونی راستہ کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ابھی تک زیادہ تر عدالتی فیصلے ہمارے حق میں آئے ہیں"۔ وہ اپنے ساتھیوں کوخبردار کرتے ہیں کہ ان کا مقدمہ کمزور کرنے کے لیے "راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی والے انارکی اور لڑائی جھگڑا چاہتے ہیں" اس لیے انہیں یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
اسی روز چند گھنٹے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ان زمین داروں کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست سُنی جس میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ چلائے۔ عدالتی کارروائی شروع ہوتے ہی انہوں نے دونوں فریقوں کے وکلا سے پوچھا: "مجھے بتائیں کہ میں یہ درخواست کیوں سنوں جبکہ (اس سے متعلقہ مقدمے پر) میں اپنا حتمی فیصلہ دے چکا ہوں اور اس کے خلاف اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں کی جاری ہے"۔
اس پر زمین داروں کے وکیل وقار اے شیخ نے انہیں بتایا کہ اس درخواست کی سماعت اس لیے ضروری ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے موکلین کی زمینیں جعلی طریقے سے اپنے نام منتقل کر رہی ہے اور ان کی فصلیں تباہ کر رہی ہے۔
دوسری طرف حکومتی وکیل، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب ٹیپو سلطان مخدوم، نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس شاہد کریم کو یہ درخواست نہیں سننی چاہیے کیونکہ "یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے"۔
وقار اے شیخ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکلین نے پہلے سپریم کورٹ میں ہی اپنی درخواست دائر کی تھی لیکن وہاں کے رجسٹرار نے اس بنا پر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ان کے موکلین سپریم کورٹ میں جاری مقدمے میں فریق نہیں ہیں۔
تاہم دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد جسٹس شاہد کریم نے طے کیا کہ درخواست گزاروں کو سپریم کورٹ ہی جانا ہو گا۔
یہ سن کر وقار اے شیخ نے ان سے استدعا کی کہ وہ اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھ دیں کہ درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ سے کیوں رجوع کیا جانا چاہیے۔ ان کا استدلال تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی اس وضاحت کے بغیر ان کے موکلین سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہی نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ وہاں چلنے والے مقدمے میں فریق نہیں ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے ان کی دلیل مانتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں لکھ دیا کہ چونکہ وہ اس معاملے میں اپنا فیصلہ پہلے ہی دے چکے ہیں اس لیے اس درخواست کی سماعت اب سپریم کورٹ ہی کر سکتا ہے۔
لیکن یہ فیصلہ تحریر کرنے سے پہلے انہوں نے ٹیپو سلطان مخدوم اور ان کے ساتھ کھڑے پولیس افسران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "آج یہ لوگ نوکری کی خاطر ایسے کام کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنے چاہئیں لیکن کل کو ان کاموں کے نتائج ان کے بچے بھگتیں گے"۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "پاکستان کو خوراک کی کمی کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ کیونکہ ایک طرف تو (حالیہ) سیلاب نے بہت سی فصلیں تباہ کر دی ہیں جبکہ دوسری طرف باقی بچ جانے والی فصلوں کو یہ لوگ تباہ کر رہے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 5 اکتوبر 2022