پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس 21 اکتوبر 2021 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کی عدالت میں روسٹرم پر آ ئے اور کہنے لگے کہ گورنر پنجاب نے تین دن پہلے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام، دائرہِ اختیار اور کام کے بارے میں ایک آرڈیننس جاری کر دیا ہے جس کی وجہ سے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 2020 نافذالعمل نہیں رہا۔
انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس آرڈیننس کے اجرا کے بعد راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تمام درخواستیں بھی قابلِ سماعت نہیں رہیں کیونکہ یہ درخواستیں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ سے متعلق تھیں جسے ختم کر کے اس کی جگہ نیا قانون لاگو کر دیا گیا ہے۔
ان کے اس بیان کے چھ دن بعد حکومتی وکلا کی جانب سے جسٹس شاہد کریم کے سامنے ایک باقاعدہ پٹیشن دائر کر کے ان سب درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی گئی۔ اس میں عدالت سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تعمیراتی منصوبے راوی ریور فرنٹ پر کام روکے رکھنے کا اپنا حکم واپس لے۔
یہ پٹیشن دائر کرنے سے پہلے حکومتی وکلا عدالت میں زیرِ سماعت تمام درخواستوں کا تحریری جواب جمع کروا چکے تھے اور جسٹس شاہد کریم درخواست گزاروں کے وکیلوں کو ایک ایک کر کے اپنے دلائل پیش کرنے کا کہہ چکے تھے۔
اس حکم کی پیروی میں آرڈیننس کے اجرا کے وقت وقار اے شیخ نامی وکیل اپنے موکل کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست کے حق میں دلائل دے رہے تھے جس میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے دلائل میں دو نکات پر زور دیا تھا۔ پہلا یہ کہ اس ایکٹ کی رو سے یہ اتھارٹی لاہور اور شیخوپورہ کی مقامی حکومتوں کے ساتھ راوی ریور فرنٹ کی تعمیر کے لیے باقاعدہ مشاورت اور معاہدے کرنے کی پابند تھی۔ اور دوسرا یہ کہ اس قانون کے تحت راوی ریور فرنٹ کا اپنا ماسٹر پلان ہونا ضروری تھا۔
ان دلائل کے دوران جسٹس شاہد کریم نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وکلا سے کہا کہ وہ مقامی حکومتوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے عدالت میں پیش کریں لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ اسی طرح ماسٹر پلان کے بارے میں عدالت کے استفسار پر اِن وکلا نے دو متضاد جواب دیے۔ پہلے انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کے موکل نے کوئی نیا ماسٹر پلان نہیں بنایا بلکہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کا بنایا ہوا ماسٹر پلان ہی کچھ ردوبدل کے ساتھ استعمال کیا ہے لیکن بعد میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے موکل نے جون 2021 میں اپنا ماسٹر پلان بنا لیا تھا۔
ایکٹ بمقابلہ آرڈیننس
وقار اے شیخ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی صرف 20 فیصد دلائل مکمل کئے تھے اس لیے، ان کے بقول، ان ادھورے دلائل کی بنا پر آرڈیننس جاری کرنا "حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے"۔ ان کی بات اس حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ آرڈیننس میں کچھ ایسی شقیں موجود ہیں جو ان کے اعتراضات کا براہِ راست جواب ہیں۔
مثال کے طور پر اس کی ایک اہم شق کے تحت راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں تین اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ راوی ریور فرنٹ کے مجوزہ علاقے میں حصولِ اراضی کے قانون کے تحت مالکانِ زمین کو جاری کیے گئے تمام نوٹس، خواہ وہ محکمہ آب پاشی کی طرف سے ہی جاری کیے گئے ہوں، راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام منتقل ہو جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اس اتھارٹی کو حصولِ اراضی کے لیے نئے نوٹس جاری نہیں کرنا پڑیں گے اور اس علاقے میں پہلے سے چلنے والے سرکاری منصوبوں کے لیے حاصل کی جانے والی زمین خود بخود اس کے پاس آ جائے گی خواہ وہ منصوبے تعمیرات کے بجائے زراعت یا آب پاشی سے متعلق ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح اس علاقے میں جاری صفائی ستھرائی، کوڑے کرکٹ کی تلفی اور پانی کے معیار میں بہتری لانے سے متعلقہ تمام سرکاری کاموں کو تصور کیا جائے گا کہ وہ اسی آرڈیننس کے تحت ہو رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر حکومتی اداروں یا مقامی حکومتوں کا ان کاموں پر اختیار خودبخود ختم ہو جائے گا اور راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اختیارات کی تقسیم کے لیے مقامی حکومتوں سے مشاورت اور معاہدوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اسی شق کے تحت دوسری تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ آرڈیننس کے دائرہِ کار میں وہ "تمام اقدامات، احکامات، قواعدوضوابط، نوٹیفیکیشن، معاہدات، کارروائیاں، خط و کتابت، اجازتیں، منظوریاں اور حکومتی منصوبہ بندیاں" شامل کر دیے گئے ہیں جو اس کے اجرا سے پہلے ہو چکے تھے اور خواہ وہ "پنجاب حکومت، راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی، اس کے چیف ایگزیکٹو، اس کے دیگر حکام، دوسرے سرکاری محکموں اور تحفظِ ماحول کی ایجنسی سمیت کسی بھی حکومتی ادارے" نے سر انجام دیے ہوں۔
اس شق کی لائی ہوئی تیسری تبدیلی یہ ہے کہ آرڈیننس کا نفاذ اس دن سے کیا گیا ہے جس دن راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کا اجرا کیا گیا تھا۔ آرڈیننس کے اپنے الفاظ میں یہ "ہمیشہ سے نافذالعمل تصور ہو گا"۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شق میں کئی خامیاں ہیں۔ ان کے مطابق اس میں پایا جانے والا سب سے اہم سقم یہ ہے کہ اس کے ذریعے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دائرہِ اختیار کو دیگر تمام محکموں اور اداروں کے دائرہِ اختیار پر فوقیت دے دی گئی ہے جس سے، ان کی نظر میں، سرکاری اداروں کے درمیان تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کا دوسرا اہم ترین سقم یہ ہے کہ اس کے ذریعے ماضی میں کیے گئے اقدامات کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے حالانکہ ایسا کرنا آئین کی اس ضمانت سے متصادم ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جس کا اطلاق اس کے اجرا سے پہلے ہونے والے واقعات پر کیا گیا ہو۔
ماہرین کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ آرڈیننس نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کی وہ شق ختم کر دی ہے جس کے تحت یہ اتھارٹی ان تمام تعمیراتی منصوبوں کے لیے متبادل زمین فراہم کرنے کی پابند تھی جو متعلقہ حکومتی اداروں کی منظوری اور اجازت سے راوی ریور فرنٹ کے مجوزہ علاقے میں پہلے سے موجود ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس شق کے خاتمے سے اس اتھارٹی اور ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں اور افراد کے درمیان ایک نئی قانونی جنگ شروع ہو جائے گی۔
ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرڈیننس متعدد آئینی دفعات کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی بھی نفی کرتا ہے اس لیے اس بات کا کافی امکان ہے کہ عدلیہ اسے جلد یا بدیر مسترد کر دے۔
لاہور ہائی کورٹ کے وکیل احمد رافع عالم جو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف زیرِ سماعت ایک درخواست کی پیروی بھی کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ "یہ آرڈیننس پنجاب اسمبلی کے ذریعے بنایا گیا قانون نہیں ہے بلکہ گورنر کا جاری کیا ہوا قانون ہے اس لیے اس پر محض اس وجہ سے بھی عدالت میں اعتراض کیا جا سکتا ہے"۔انہیں یقین ہے کہ اس اعتراض پر ہی عدالت اسے غیر آئینی قرار دے دے گی۔
ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اسی سال لاہور ہائی کورٹ میں ایک ایسے آرڈیننس کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے تحت دیوانی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے طریقہ ہائے کار میں تبدیلیاں کی گئی تھی۔ ان کے مطابق "اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے یہ آرڈیننس اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اسے 48 گھنٹوں میں تیار اور نافذ کر دیا گیا تھا اور اس عمل کے دوران وکلا کے کسی نمائندے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی"۔
وہ کہتے ہیں کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو بھی انہیں بنیادوں پر مسترد کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسے نہ صرف جلدی میں تیار کیا گیا ہے بلکہ اسے بنانے میں کسی بھی ایسے شخص یا ادارے سے مشاورت نہیں کی گئی جو اس کے نتیجے میں براہِ راست متاثر ہو گا۔
متاثرین کے عدالتی حقوق
جسٹس شاہد کریم نے آرڈیننس کے اجرا کے بعد دائر کی گئی اس حکومتی درخواست کو 2 نومبر 2021 کو مسترد کر دیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے متعلقہ تمام عدالتی کارروائیاں ختم کر دیں۔ اس ضمن میں جاری کیے گئے اپنے تفصیلی فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ آرڈیننس کے ذریعے کی گئی قانونی تبدیلیاں اس اتھارٹی کے مخالف "درخواست گزاروں کی استدعا کو کوئی ضرب نہیں پہنچاتیں"۔
یہ بھی پڑھیں
لاہور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ: متنازعہ زمین کو عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے کیسے نیلام کیا جا رہا ہے۔
اس کی جو شق تمام گزشتہ اقدامات، احکامات اور کارروائیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اور راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اس موقف کو مزید تقویت تو دیتی ہے کہ یہ تمام اقدامات، احکامات اور کارروائیاں غیر قانونی نہیں لیکن یہ درخواست گزاروں کی استدعا پر کوئی "معنی خیز اثر مرتب نہیں کرتی"۔
جسٹس شاہد کریم نے درخواست گزاروں کو یہ اجازت بھی دی کہ وہ آرڈیننس کے مواد کے مطابق اپنی اپنی درخواستوں میں تبدیلیاں کر لیں اور انہیں سماعت کی اگلی تاریخ تک عدالت میں جمع کرا دیں۔ انہوں نے درخواست گزاروں کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ اپنی ترمیم شدہ درخواستوں کی کاپیاں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پنجاب حکومت کو بھی دیں تاکہ وہ اپنے تحریری بیانات میں ان درخواستوں کے مطابق تبدیلیاں کر سکیں (بشرطیکہ وہ ایسا کرنا چاہیں)۔
انہوں نے اپنے فیصلے کے آخر میں لکھا کہ "آرڈیننس کے اجرا سے درخواست گزاروں کا اسے چیلنج کرنے کا حق ختم نہیں ہو گیا" کیونکہ یہ چیلنج صرف آرڈیننس تک محدود نہیں بلکہ زمین کی ملکیت اور حکومتی اداروں کے اختیارات سمیت کئی "وسیع معاملات کا احاطہ کرتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 19 نومبر 2021