اگست 2020 میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ شمالی لاہور میں دریائے راوی پرایک جدید شہر بنانے کے منصوبے کو جلد ازجلد شروع کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ان کے اس عزم کی تکمیل کے لئے اُسی ماہ پنجاب اسمبلی نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے لئے ایک نیا ایکٹ پاس کیا اور 17 دسمبر 2020 کو پنجاب حکومت نے حکومتی خزانے سے پانچ ارب روپے کا قرض اور منصوبے کی جغرافیائی حدود میں آنے والی 4100 ایکڑ سرکاری اراضی بھی راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دینے کی منظوری دے دی۔
اسی دوران راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اپنے ملازمین کی بھرتی کے لئے اخبارات میں اشتہارات دینا شروع کر دیے اورمنصوبے کے لئے درکار اراضی کا سروے بھی مکمل کر لیا۔
اس سروے کے آغاز میں منصوبے کی حدود میں آنے والے علاقوں میں موجود کاروباری اور صنعتی اداروں کے مالکان اور مقامی رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا۔ لیکن دسمبر 2020 میں راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہل کاروں کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات میں تاجروں اور صنعت کاروں کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کےکاروبار منصوبے کی جغرافیائی حدود سے نکال دیے گئے ہیں۔
اگرچہ اس کے متعلق کوئی سرکاری حکم ابھی تک جاری نہیں کیا گیا لیکن شمالی لاہور کے علاقے محمود بوٹی میں کام کرنے والے ایک صنعت کار انعام بٹ کہتے ہیں کہ 'ہمیں حکومتی اہل کاروں اور اور اتھارٹی کے افسروں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس منصوبے سے ہماری صعنتیں اور تجارتی مراکز متاثر نہیں ہوں گے'۔
تاہم منصوبے کے مجوزہ علاقے میں رہنے والے لوگ ابھی تک ایک غیر یقنیی کیفیت کا شکار ہیں۔ان کا کہنا ہےکہ 'منصوبے کے بارے میں جاری کیے جانے والی حکومتی نوٹیفیکشن میں ایک بات ہوتی ہے لیکن اس نوٹیفیکیشن کے بارے میں دیے جانے والے سرکاری اہل کاروں کے بیانات میں کوئی دوسری بات ہوتی ہے'۔
انہیں درحقیقت معلوم ہی نہیں کہ نئے شہر کے حقیقی جغرافیائی خدوخال کیا ہوں گے اور اگر ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو ان تبدیلیوں کی نوعیت کیا ہے۔
چونکہ سروے کے دوران ان کے گھروں پر چونے سے سفید نشان لگائے جا رہے تھے اس لئے انہیں خدشہ تھا کہ حکومت ان کے گھروں کو گرانے والی ہے لہٰذا انہوں نے سروے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں انہوں نے یہ احتجاج ترک کر دیا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چئیرمین راشد عزیز کی طرف سے ٹیلی وژن پر دیا گیا ایک انٹرویو ہے جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت فی الحال کوئی زمین اپنی تحویل میں نہیں لے رہی۔اس کی دوسری وجہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ ہے جس کی موجودگی میں مقامی باشندوں کو لگتا ہے کہ وہ اتھارٹی کے کسی اقدام کے خلاف کسی عدالت میں نہیں جا سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کی وجہ سے ان کے لئے اپنے گھروں کو بچانے کے 'تمام قانونی راستے بند ہو چکے ہیں'۔
قانون بمقابلہ انصاف
راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کے سیکشن چار کی شق پانچ میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کا کوئی فعل یا کارروائی محض اتھارٹی کے قیام میں کسی خلا یا خامی کی وجہ سے ناجائز قرار نہیں دی جا سکے گی۔ اسی طرح سیکشن 49 کےمطابق اتھارٹی یا اس کےاہل کاروں کے کسی بھی قدم کو، جو وہ نیک نیتی سےاٹھائیں گے یا اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، نہ تو کسی فرد یا ادارے کی طرف سے کسی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا اور نہ ہی کوئی عدالت ان اقدامات کے بارے میں کوئی سماعت کرنے کی مجاز ہو گی۔
ماحولیات اور شہری امور پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں نے اتھارٹی اور اس کے اہل کاروں کو عدالتی کارروائی سے دیے گئے اس تحفظ پر شدید غم و غصے کو اظہار کیا ہے۔اس موضوع پر بات کرتے ہوئے لاہور کنزرویشن سوسائٹی نامی ایک شہری تنظیم کے ایک سینئر رکن اور آرٹسٹ ڈاکٹر اعجاز انور نے ڈان اخبار کو بتایا کہ 'یہ سن کر میں حیران و پریشان رہ گیا ہوں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کے ذمہ دار ادارے کو اتنے وسیع اختیارات دے دیے گئے ہیں'۔
کچھ سماجی کارکنوں کایہ بھی کہنا ہے کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دیا گیا یہ تحفظ سزا اور جزا کے اس تصور کی نفی کرتا ہے جو وزیرِ اعظم عمران خان حکومتی اداروں کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایسے کئی قوانین بنائے جا چکے ہیں جن میں اس قسم کی شقیں شامل ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال کراچی کے دو سمندری جزائر کو رہائشی اور تجارتی علاقوں میں تبدیل کرنے کے لئے بنائی گئی وفاقی اتھارٹی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس ہے جس میں تقریباً وہ ساری شقیں شامل ہیں جو راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں موجود ہیں۔ اسی طرح لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے لئے بنائے گئے قانون میں بھی ایل ڈی اے اور اس کے افسران کو عدالتی بازپرس اور مقدمات سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
لیکن لاہور ہائی کورٹ میں مجوزہ شہر کے منصوبے کے خلاف دائر کی گئی کئی درخواستوں میں سے ایک کے محرک شیراز ذکا نامی وکیل کے مطابق اس طرح کے استثنیٰ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی موجودگی میں کسی سرکاری ادارے، عوامی عہدیدار یا حکومتی ملازم کوعدالتی کارروائی سےمستثنیٰ قرار دینا لوگوں کو ڈرانے کا ایک حربہ تو ہو سکتا ہے لیکن عدالتیں اسے تسلیم نہیں کرتیں۔
لاہور میں پچھلے پچیس سال سے زمین اور جائیداد سے متعلق مقدمات کی پیروی کر نے والے وکیل عمران حیدر بھی کہتے ہیں کہ یہ استثنیٰ اعلیٰ عدلیہ کے ان آئینی اختیارات کی نفی کرتا ہے جنہیں استعمال کر کے وہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ان کے خیال میں ان اختیارات کے عدم موجودگی میں عدلیہ اپنی بنیادی آئینی ذمہ داریاں پوری ہی نہیں کر سکتی۔
لاہور ہائی کورٹ نے2 جنوری 2021 کوکیے گئے ایک فیصلے میں ان تمام دلائل کی توثیق کردی ہے۔
اس دن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ کی عدالتی استثنیٰ سے متعلق تمام شقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے راوی پر نیا شہر بسانے کے منصوبے پر کام روک دیا۔ مختلف افراد کی طرف سے منصوبے کے ممکنہ ماحولیاتی اثرات کے بارے میں دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ پنجاب کے محکمہ تحفظ ماحولیات کی طرف سے مجوزہ شہر کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بنائی جانے والی پورٹ کی تکمیل اور منظوری تک اس پر کوئی پیش رفت نہ کرے۔
مفادِ عامہ کیا ہوتا ہے؟
شیراز ذکا نے لاہور ہائی کورٹ کو دی گئی درخواست میں یہ موقف بھی اختیار کیا کہ مجوزہ شہر کی تعمیرکے لئے 89000 ایکڑ زرعی زمین حکومتی تحویل میں لی جا رہی ہے تا کہ اس پر رہائش گاہیں اور سڑکیں وغیرہ بنائی جا سکیں حالانکہ ایسا کرنا اقوامِ متحدہ کی طرف سے 1992 میں منظور کیے گئے حیاتیاتی تنوع کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔
تجارتی اور کاروباری منصوبے کے لیے کسی فرد کو اس کے گھر اور زمین سے محروم کرنا آئین میں دیے گئے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
شیراز ذکا یہ بھی کہتے ہیں کہ زرعی زمین کو رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا زمین کے استعمال میں اس تبدیلی کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ جب کہ عمران حیدر کے مطابق لاہور میں ایسے بہت سے رہائشی منصوبے موجود ہیں جن میں پچھلے 25 سال میں کوئی قابلِ ذکر تعمیرات نہیں ہوئیں لیکن ان کے زیرِ استعمال زمین پہلے کی طرح اناج اگانے کے لئے بھی استعمال نہیں ہو رہی۔ انہیں خدشہ کہ کہیں راوی پر تجویز کردہ شہر کے لئے لی جانے والی زرعی زمین کے ساتھ بھی یہی نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں
مالِ سرکار، دلِ بے رحم: راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کو دی جانے والی حیران کن تنخواہ اور مرعات۔
ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس موضوع پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں راشد عزیز کاکہنا تھا کہ اس منصوبے میں ایک گرین سٹی بنایا جائے گا جس کے تحت 80 لاکھ درخت لگائے جائیں گے اور سیکڑوں ایکڑ اراضی پر زرعی فارم قائم کئے جائیں گے۔تاہم منصوبے کے بارے میں2014 میں بنائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گرین سٹی صرف 5748 ایکڑ پر بنایا جائے گا جو اس میں استعمال ہونے والی کل زرعی اراضی کا صرف ساڑھے چھ فیصد ہے۔
شیراز ذکا یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک تجارتی اور کاروباری منصوبے کے لئے کسی فرد کو اس کے گھر اور زمین سے محروم کرنا آئین میں دیے گئے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو لوگوں کو زندہ رہنے اور عزت کی زندگی بسر کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ 'یہ بنیادی حقوق صرف اسی صورت میں نظر انداز کیے جا سکتے ہیں جب کسی منصوبے کا مطمعِ نظر مفادِ عامہ ہو'۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایک ایسے منصوبےکو مفادِ عامہ کا منصوبہ قرار دے دے جس کامقصد چند لوگوں کو فائدہ دینا ہے تو یہ 'ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے جن کی زمین حاصل کی جا
رہی ہے'۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتھارٹی کو یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اپنے طور پر کسی بھی چیز کو مفادِ عامہ قرار دے دے۔ 'یہ اختیار صرف پنجاب حکومت کو حاصل ہےلیکن اس نے اسے ابھی تک استعمال نہیں کیا'۔
یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو کہا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر وضاحت کرے کہ اس منصوبے میں مفادِ عامہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفع 14 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2021