ضلع ملتان میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح انتہائی کم ہے۔ رواں برس مئی، جون اور جولائی کے دوران شہر میں ریپ کے کسی ایک مقدمے میں بھی ملزموں کو سزا نہیں ہوئی۔
2022ء میں ریپ سے متعلق تعزیرات پاکستان کے سیکشن 376 کے تحت درج 353 مقدمات سماعت کے لیے ملتان کی مختلف عدالتوں میں پیش کیے گئے۔ ان میں سے 323 مقدموں میں 342 ملزم بری ہو گئے اور 30 مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔ 14 افراد کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید، 12 کو سات سال قید جبکہ چار کو تین تین سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
رواں برس جنوری میں سیکشن 376 کے تحت ریپ کے 30 مقدمات کا فیصلہ ملتان کی مقامی عدالتوں نے کیا۔ ان میں محض ایک ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ دیگر 29 ملزم گواہوں کے منحرف ہونے اور/یا جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیے گئے۔
فروری کے مہینے میں ایسے 29 مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا جن میں دو ملزموں کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانہ ہوا جبکہ ایک ملزم کو 14 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ دیگر 26 مقدموں میں ملزم بری ہو گئے۔
مارچ میں ایسے 20 مقدمات کا فیصلہ ہوا اور ایک مقدمے میں ایک ملزم کو عمر قید ہوئی۔ باقی 19 مقدمات میں 23 ملزموں کو رہائی مل گئی۔ اپریل میں 23 میں سے ایک مقدمے میں ایک ملزم کو عمر قید کی سزا ہوئی جبکہ 22 مقدمات میں ملزم بری ہو گئے۔ مئی میں تمام 24 مقدمات میں ملزم آزاد کر دیے گئے۔ جون میں کُل 28 مقدمات میں 29 ملزمان رہا ہوئے۔ اسی طرح جولائی میں بھی 13 مقدمات میں تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا۔
ممبر پنجاب بار کونسل چوہدری داؤد احمد وینس بتایا کہ جنسی زیادتی کے مقدموں کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا البتہ کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کا خصوصی سیل بھی قائم کیا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ پراسیکیوشن کے نظام میں جدت لائی جائے اور ریپ کیسز کے ملزمان کو فوراً گرفتارکر کے اور ان کے فوری ٹرائل کرکے اینٹی ریپ ایکٹ پر عمل درآمد کرایا جائے تو ملزموں کو سزا دینا آسان ہو جائے گا۔
"ریپ کیسز میں التوا سے ملزموں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ طبی معائنے میں تاخیر سے بھی ملزموں کو ریلیف ملتا ہے۔"
ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر نذر حسین ٹانگرہ سمجھتے ہیں کہ کیس کی ابتدا میں شواہد اکھٹا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
زیادتی کا شکار ہونے والا اگر کم عمر ہو تو بیان سے منحرف ہونا معنی نہیں رکھتا کیونکہ میڈیکل ایگزامینیشن اور ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر ملزموں کو سزا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منحرف ہونے والے گواہوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق ملتان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے مقدمات کو دیکھنے والی چار ماڈل عدالتیں بہترین نتائج دے رہی ہیں۔
ماہر قانون بلال شہباز خان بلوچ کہتے ہیں کہ ملزموں کے بری ہونے کی اہم وجوہات میں پولیس تفتیش میں نقائص ،گواہوں اور متاثرہ خواتین کا منحرف ہونا شامل ہیں۔ ملزموں کو سزا دلوانے کے لیے متاثرہ فریق کا اپنے بیان پر قائم رہنا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں
موقوف ہے کیوں حشر پہ انصاف ہمارا: جنسی زیادتی کے ملزمان سزا سے کیسے بچ جاتے ہیں؟
اجتماعی زیادتی کے مقدمات میں سزائیں تو کڑی ہیں لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے پر زیادتی اور بدفعلی کے مقدمات میں ملزم بری ہوجاتے ہیں۔ ایسے مقدمات کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔"
وہ کہتے ہیں کہ ایسے مقدمات میں میڈیکل رپورٹ بھی بہت اہم ہوتی ہے جس میں تاخیر یا غلطیوں سے مجرم سزا سے بچ سکتے ہیں۔ ملزموں کی گرفتاری میں التوا کے بعد عدالتوں سے انہیں ریلیف ملنا بھی عام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اینٹی ریپ آرڈیننس 2020ء میں آیا جس کے بعد سخت اور فوری فیصلوں کو متعارف کرایا گیا اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف ماڈل عدالتیں قائم کی گئیں۔ اگر بروقت فرانزک اور ڈی این اے ٹیسٹ یقینی بنایا جائے تو متاثرین کو جلد انصاف فراہم کیا جا سکے گا۔ تاہم ایسے واقعات فوری رپورٹ ہونا اور ان پر پولیس کی غیرجانبدارانہ تفتیش بھی ضروری ہے۔
تاریخ اشاعت 25 ستمبر 2023