اکیس سالہ محمد خان گورنمنٹ گریجوایٹ کالج راجن پور میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ بی ایس انگریزی فائنل ائیر کی پوری کلاس کے ساتھ برآمدے میں کھڑے لیکچر روم خالی ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ کالج میں کلاس روم بہت کم ہیں۔ہر پیریڈ کے بعد طالب علموں کی بھاری تعداد کا اسی طرح کوریڈور میں موجود رہنا معمول بن چکا ہے۔ایک کلاس کا لیکچرہو رہا ہو تو دوسری کلاس کے پاس انتظار کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔
محمد خان راجن پور شہر کے شمال مشرق میں واقع گاؤں قاسم پور کے رہائشی ہیں۔ وہ روزانہ 21کلو میٹر فاصلہ بسوں اور چنگ چی رکشوں میں طےکر کے کالج آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک پروفیسر ایک کلاس کو اضافی وقت دے دیں تو دوسری کلاس کا پیریڈ ہی ضائع ہو جاتا ہے اور اکثر یہی ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف بی ایس انگریزی یا فائنل ائیرکے طلبہ کو ہی درپیش نہیں بلکہ کالج کی تمام کلاسز کے ساتھ یہی ہور رہا ہے۔
کالج ریکارڈ کے مطابق ادارے میں تین ہزار600 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔یہاں بی ایس انگریزی، اسلامیات، باٹنی ، کیمسٹری ، آئی ٹی، اکنامکس اور اردو کے سات پروگرام چل رہے ہیں جن میں طلبہ کی تعداد دو ہزار 447 ہے۔
یہاں ایف اے /ایف ایس سی اور آئی سی ایس میں بھی ایک ہزار 153 طلبہ پڑھ رہے ہیں۔کالج میں طالبات تعداد 1600 ہے اور ان سب کلاسز کے لیے صرف 32 کلاس روم دستیاب ہیں۔
2004 ء میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی نے گورنمنٹ ڈگری کالج راجن پور کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اس پس ماندہ ضلعے کے لوگوں کا پرانا مطالبہ تھا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی صوبائی محکمہ تعمیرات نے پوسٹ گریجوایٹ کالج کی عمارت کے لیے فزیبلٹی پر کام شروع کر دیا۔
عمارت کی لاگت کا تخمینہ تین کروڑ34لاکھ روپے لگایا گیا۔ اگلے ہی بجٹ میں حکومت نے یہ رقم جاری کردی۔ پوسٹ گریجوایٹ بلاک کے لیے ڈگری کالج کی اراضی کا انتخاب کیا گیا۔
کالج کی پرانی عمارت 1972 ء میں انٹر کالج کے لیے تعمیر کی گئی تھی ۔اس وقت حکومت نے کالج کو چار سو 55 کنال رقبہ الاٹ کیا تھا۔ مگر یہ اراضی دو حصوں میں تقسیم ہے اور ریلوے لائن ان کے درمیان سے گزرتی ہے۔
انڈس ہائی وے پر ریلوے لائن کے مغرب میں 98 کنال پر کالج کی پرانی عمارت موجود ہے جبکہ مشرق میں کالج کے سامنے ریلوے لائن کے پار تین سو 57 کنال اراضی خالی پڑی تھی۔اسی اراضی پر پوسٹ گریجوایٹ کالج کے تین بلاکس کی تعمیر شروع کر دی گئی۔
ایم اے انگریزی، اردو اور اسلامیات کے لیے تین بلاک تعمیر کیے گئے۔ یہ عمارت 2008ء میں مکمل ہو گئی۔ مگر آج 15 سال گزرنے کے باوجود یہاں کلاسز کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔
پندرہ سال تک مناسب نگرانی اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ دومنزلہ عمارت چوروں کے ہاتھ چڑھ گئی جنہوں نے وائرنگ ،کھڑکیاں ،دروازے، جالیاں اور حفاظتی ریلنگ تک اکھاڑ لیں۔
باتھ روم کی ٹونٹیاں، واش بیسن، بجلی کے بورڈز بھی چوری کر لیے گئے۔ اب عمارت کے نام پر صرف اینٹیں اور چھت رہ گئی ہے جہاں رات کو گلہ بان اپنی بھیڑ بکریاں باندھتے ہیں۔
2008ء میں عمارت تو تعمیر ہو گئی لیکن یہاں بجلی تھی نہ ہی پانی فراہم کیا گیا تھا۔عمارت کے ارد گرد زمین تک ہموار نہیں کی گئی تھی۔ ٹھیکیدار اور محکمہ بلڈنگ نے عمارت کو کالج کے سپرد کرنے کی کوشش کی مگر کالج ڈیپارٹمنٹ نے انکار کر دیا۔
سابق پرنسپل محمد اشرف قمر، عمارت تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار اوراس وقت کے ایس ڈی او بلڈنگ وفات پا چکے ہیں اور صوبائی محکمہ بلڈنگ عمارت کی اس صورتحال ذمہ دار کالج ڈیپارٹمنٹ کو سمجھتا ہے۔
فیاض احمد راجن پور میں ایس ڈی او بلڈنگ ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ ٹھیکیدار نے تو کام مکمل کر دیا تھا۔ بس واپڈا نے ٹرانسفارمر نہیں لگایا تھا۔ قریبی آبادی کے مکین چار دیواری نہیں بنانے دیتے تھے کیونکہ اس طرح ان کا شہر جانے کا 'شارٹ کٹ' راستہ بند ہوتا تھا۔ پھر 2010 ء میں سیلاب متاثرین کو عمارت میں رکھا گیا تو انہوں نے بھی توڑ پھوڑ کی۔
ایس ڈی او بلڈنگ کہتے ہیں کہ کالج ڈیپارٹمنٹ کے ایم اے بلاک کی عمارت لینے سے کی وجہ سے یہ مسئلہ بنا۔ ان کے محکمے نے کئی بار عمارت سپرد کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
فیاض احمد کے مطابق سابق پرنسپل محمد اشرف قمرکا اصرار تھا کہ عمارت صوبائی محکمے کی زیرنگرانی بنائی گئی اور وہی تعلیمی بلاکس مکمل کرکے کالج کے حوالے کرائے۔
"ہمارا آفس ڈیرہ غازی خان میں تھا۔ افسروں کو وہیں سے آنا پڑتا تھا۔ ہم نے کوشش کر کے تین میں سے ایک بلاک کالج کے حوالے بھی کر دیا مگریہ عمارت آباد نہ ہو سکی۔"
پروفیسر ڈاکٹر رب نواز مونس اس وقت گریجوایٹ کالج کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں ایم اے بلاکس موجودہ کالج کے سامنے ریلوے لائن کے پار بنائے گئے۔ ضروری تھا کہ وہاں تک رسائی کے لیے ریلوے لائن پر انڈر پاس یا اوور ہیڈ برج بنایاجا تا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ فاصلہ دو تین سو گز بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
آواران کے چار سال سے بند پڑے کمیونٹی سکول: لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل غارت ہو گیا
وہ بتاتے ہیں کہ کالج سے ایم اے بلاکس کے لیے شہر کی مصروف وتنگ سڑک سے گذر کرجانا پڑتا ہے۔یہ ڈھائی کلومیٹر فاصلہ بعض اوقات خاصا وقت لیتا ہے۔
پروفیسر رب نواز کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار اور بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ چاہتے تھے کہ کالج غیر مکمل عمارت ٹیک اوور کر لے جہاں سٹوڈنٹس اور سٹاف کے لیے میز کرسیاں تو دور بجلی، پانی تک موجودنہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ تین میں سے ایک بلاک قدرے بہتر حالت میں تھا۔ اسے بجلی و پانی کی سپلائی کے وعدے پر 2014 ءمیں کالج کے ہینڈ اوور کر دیا گیا تھا۔ لیکن آج تک یہ وعدہ پورا ہوا نہ ہی وہاں کلاسیں شروع ہوسکیں۔
پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایم اے بلاکس تو بنا دیے گئے مگر وہاں چوکیدارتک نہیں رکھا گیا۔
"مارچ 2012 ءمیں بوائز ڈگری کالج اپ گریڈ ہوا تھا ۔یہاں چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کیے گئے۔ مگر ہم آج بھی 51 سال پہلے انٹر کالج کے لیے بننے والی عمارت میں کام کررہے ہیں "
تاریخ اشاعت 26 اگست 2023