پاکستان سے عمر میں پانچ سال چھوٹے چاچا خانزادہ آٹھ سال کی عمر میں اٹک سے کراچی آئے اور نوعمری ہی میں قلی بن گئے۔ 2015ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ریلوے نے انہیں تمغے اور سرٹیفکیٹ سے نوازا۔ خانزادہ صاحب نے کم و بیش چھ دہائیوں تک مسافروں کا سامان اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ بڑھاپے اور ٹانگ پر چوٹ لگنے کے باعث اب ان کے لیے چلنا بھرنا مشکل ہو چکا ہے۔ خانزادہ کو شکایت ہے کہ پوری زندگی ریلوے کو دینے کے باوجود اس محکمے نے انہیں اپنایا نہیں۔
وہ کہتے ہیں"کبھی کسی ٹھیکیدار نے میرا علاج نہیں کروایا اور نہ ہی کبھی کوئی مالی مدد کی۔ ہاں ایک دو مرتبہ کراچی کینٹ کے سٹیشن ماسٹر نے علاج کے لیے چند ہزار روپے کی مالی مدد کی تھی۔"
کراچی کینٹ ریلوے سٹیشن پر اس وقت 460 قلی رجسٹرڈ ہیں جہاں انگریز دور کی طرح اب بھی قلیوں کی تقرری ٹھیکیداری نظام کے تحت ہوتی ہے۔ یہ ٹھیکیدار کو اپنی کمائی کا 30 فیصد دیتے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق کام کے دوران زخمی یا بیمار ہونے پر ٹھیکیدار قلی کو 10 دن چھٹی اور سات سو روپے یومیہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ ٹھیکیدار کسی بھی قلی کو بغیر ثبوت چھ ماہ سے پہلے کام سے نہیں نکال سکتا۔ قلی کو یونیفارم اور سر پر پگڑی اسی نے دینی ہوتی ہے۔ نیز قلی 40 کلو سے زیادہ وزن نہیں اٹھائے گا اور 40 کلو وزن اٹھانے کے 70 روپے وصول کرے گا۔
خانزادہ کے مطابق ریلوے نے کبھی ان کی مالی مدد نہیں کی۔ عمر کے اس حصے میں اگر کسی قسم کا سماجی تحفظ ہوتا، انشورنس ہوتی یا ریٹائرمنٹ فنڈ ہوتا تو زندگی میں آسانی ہوتی۔
پاکستان میں ریلوے کے سات ڈویژن ہیں جن میں سوائے پشاور کے تمام میں قلی کام کرتے ہیں۔ گزشتہ 12 برسوں سے مسافروں کا بوجھ اٹھانے والے گل محمد کشمیری کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں غریب کو قلی کا کام دیا جاتا ہے۔ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ مزدوری کب ملے گی۔ کبھی کبھی قلیوں کے پاس کھانا کھانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔
وہ کہتے ہیں کہ میری عمر 65 سال ہے اور میں ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوں۔ میرے پاس علاج کے پیسے نہیں اور ٹھیکیدار علاج کرواتا نہیں۔
"ریلوے کے پاس ہر بڑے شہر میں ہسپتال ہیں۔ صرف کراچی میں ریلوے کے تین کلینک اور ایک ہسپتال ہے۔ اگر حکومت چاہے تو وہاں ہمارا علاج ہو سکتا ہے اور مجھ سمیت بہت سے قلیوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔"
گل محمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریلوے اور دیگر محکموں کے سرکاری ملازموں، صحافیوں، طلبہ اور بزرگوں کو رعایتی سفری ٹکٹ ملتے ہیں۔ کیا یہ قلی کا حق نہیں؟ حکومت ہمیں آنے جانے کے لیے سفری سہولت، راشن اور صحت کارڈ دے۔
یہ بھی پڑھیں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا: ریلوے ٹریک کو محفوظ بنانے پر مامور کچے ملازموں کی کتھا
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں قلی ٹھیکیداری نظام کے تحت کام نہیں کرتے بلکہ ان کی تقرری اور دیگر معاملات سٹیشن ماسٹر کے سپرد ہوتے ہیں۔ قلی اپنی کمائی سے چند روپے ہی سٹیشن ماسٹر کو جمع کرواتے ہیں۔ انہیں سماجی تحفظ اور لائف انشورنس بھی ملتی ہے۔
ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی کے مطابق حقوق کے حصول کے لیے پاکستان میں قلیوں کی مختلف ادوار میں یونینز بھی بنی ہیں۔ پہلی یونین آل پاکستان قلی ایسوسی ایشن 1972ء میں بنی اور اسی سال کراچی سٹی سٹیشن پر اس نے ٹھیکیدار محمد امین کے خلاف احتجاج کیا۔ اس پر وفاقی وزیر برائے محنت کش رانا محمد حنیف نے ٹھیکیدار کو ہٹا دیا تاہم بعدازاں یونین قائم نہ رہ سکی۔
"2015ء میں مسلم لیگ (ن) کے دورحکومت میں کراچی کینٹ ریلوے سٹیشن کے 460 قلیوں کو ریلوے نے دو کوارٹر الاٹ کیے تاکہ وہ وہاں رات کو سو سکیں۔ اتنی تعداد کے لیے دو چھوٹے کوارٹر ناکافی ہیں، اس لیے بہت ساروں کا سورج فٹ پاتھ پر طلوع ہوتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ریلوے کے ٹکٹ، ریلوے کی ٹھیکوں پر دی جانے والی کینٹین، پارکنگ اور دکانوں کے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ریلوے کے ملازمین کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئی ہیں، البتہ قلیوں کی بہتری کے لیے کسی نے نہیں سوچا۔
تاریخ اشاعت 1 نومبر 2023