لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

postImg

طاہر مہدی

postImg

لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

طاہر مہدی

پانچ سالوں میں 25 سے 30 لاکھ پنجابیوں نے اپنی مادری زبان پنجابی سے بدل کر اردو کر لی؛ سرائیکی اپنی مادری زبان پر قائم رہے

لوک سجاگ کا مردم شماری 2023ء کے اعداد و شمار کا تجزیہ

پنجابی اپنی مادری زبان چھوڑ رہے ہیں۔
یہ کوئی نئی یا حیران کن بات تو نہیں لگتی لیکن گذشتہ پانچ سالوں میں اس رجحان میں غیرمعمولی تیزی آ گئی ہے۔ 2023ء کی مردم شماری کے حال ہی میں جاری ہونے والے اعدادوشمار اس تبدیلی کے خدوخال واضح کرتے ہیں اور یہ اندازہ لگانے میں بھی مددگار ہیں کہ گذشتہ پانچ سالوں میں کتنے پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال چکے ہیں۔

2023ء سے قبل مردم شماری 2017ء میں کی گئی تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ دو مردم شماریاں محض پانچ سال کے وقفے سے کی گئی ہوں۔

2017ء میں پنجاب کی کل آبادی 11 کروڑ شمار کی گئی تھی جبکہ 2023ء میں یہ بڑھ کر 12 کروڑ 70 لاکھ ہو گئی گویا ان پانچ سالوں میں آبادی میں 16 فیصد اضافہ ہوا لیکن اس دوران پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں محض 11 فیصد اضافہ ہوا۔

پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ، مجموعی شرح اضافہ سے کم کیوں ہوا؟

Photo 1

تکنیکی اعتبار سے یہ پنجابیوں میں کم شرح پیدائش کے باعث بھی ہو سکتا ہے یعنی ممکن ہے کہ پنجابی، پنجاب میں آباد دیگر زبانیں بولنے والوں کی نسبت کم بچے پیدا کرنے لگے ہوں۔

آبادی کی شرح اضافہ کو اگر ضلع وار دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی پنجاب میں یہ جنوبی پنجاب کی نسبت کم ہی ہے لیکن اس کے باوجود پنجابی بولنے والوں کی آبادی کی کم شرح اضافہ کو مکمل طور پر اس کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔کیوں؟

یہاں مردم شماری کے اعداد و شمار سے سامنے آنے والی ایک اور حقیقت کو بھی جان لیں تو عقدہ کھل جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ 2017ء سے 2023ء تک پنجاب میں اپنی مادری زبان اردو بتانے والوں کی تعداد میں 71 فیصد اضافہ ہوا جو مجموعی شرح اضافہ (16 فیصد) سے ساڑھے چار گنا زیادہ ہے۔

اردو بولنے والوں کی تعداد میں اس غیر معمولی اضافہ کے بارے میں بھی وہی توجیہہ دہرائی جا سکتی ہے کہ یہ اردو بولنے والوں میں غیرمعمولی طور پر زیادہ شرح پیدائش کے باعث بھی ممکن ہو سکتا ہے لیکن کچھ اور اعدادوشمار اس کی تردید کرتے ہیں۔

2017ء سے قبل مردم شماری 1998ء میں کی گئی تھی۔ 1998ء میں اردو بولنے والے پنجاب کی کل آبادی کا 4.5 فیصد تھے جو 2017ء میں 4.9  فیصد ہو گئے جسے غیر معمولی تبدیلی نہیں کہا جا سکتا تو اگر باقی گروپوں کے مقابلے میں اردو بولنے والوں کی شرح پیدائش ان 19 سالوں میں غیر معمولی نہیں تھی تو گذشتہ پانچ سالوں میں بھی اس میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی خارج از امکان ہے۔

پنجابی بولنے والوں کی شرح اضافہ میں کمی اور ساتھ ہی اردو بولنے والوں کی شرح میں غیر معمولی اضافہ - یہ دونوں حقیقتیں بہ یک وقت ایک ہی صورت میں درست ہو سکتی ہیں کہ یہ مان لیا جائے کہ پنجاب کے بہت سے افراد جنہوں نے 2017ء میں اپنی مادری زبان پنجابی لکھوائی تھی انہوں نے 2023ء میں اسے اردو لکھوانے کو ترجیح دی۔

یعنی پنجابی اپنی مادری زبان بدلا رہے ہیں۔

2023ء کی مردم شماری میں کئی ایسی زبانوں کو بھی شامل کیا گیا جو پہلے کسی مردم شماری میں نہیں تھیں جیسے میواتی، شنا، بلتی وغیرہ۔

پنجاب میں میواتی بولنے والوں کی کل تعداد دس لاکھ کے قریب ریکارڈ کی گئی جن میں سے تین چوتھائی قصور اور لاہور کے اضلاع میں آباد ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ 2017ء میں انہیں پنجابی درج کیا گیا ہو اور اس بار کیونکہ انہیں پنجابی کی بجائے میواتی شمار کیا گیا تو پنجابیوں کی مجموعی تعداد کم ہو گئی؟

ایسا نہیں ہے، 2017ء میں پنجابی اور اردو کے علاوہ دیگر تمام زبانیں بولنے والے (بشمول سرائیکی) پنجاب کی کل آبادی کا 25.5 فیصد شمار ہوئے تھے جبکہ 2023ء میں ان کا حصہ 25.8  فیصد ہو گیا۔ یہ فرق اتنا معمولی ہے کہ یہ پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں کمی اور اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافے کی بنیاد پر قائم کی گئی ہماری اس توجیہہ کو رد نہیں کر سکتا کہ پنجابی اپنی مادری زبان چھوڑ رہے ہیں۔

پنجابیوں میں تاریخی اعتبار سے بھی یہ رجحان نیا نہیں ہے۔ 1981ء اور 1998ء کی مردم شماریوں سے بھی یہی واضح ہوا تھا کہ پنجاب میں اردو بولنے والوں کی شرح اضافہ، پنجابی بولنے والوں کی شرح اضافہ سے زیادہ ہے لیکن یہ اضافہ غیرمعمولی نہیں تھا اس لیے اس سے شماریاتی اعتبار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں تھا کہ پنجابی اپنی زبان چھوڑ رہے ہیں۔

مثلاً 1981ء میں پنجاب کی کل آبادی میں اردو بولنے والوں کا فیصد حصہ 4.27  تھا جو 1998ء میں بڑھ کر 4.51  ہو گیا۔ 17 سالوں میں ایک فیصد کے چوتھائی برابر اس اضافے کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ یہ دونوں گروپوں کی مختلف شرح پیدائش کے باعث ہوا ہے یا پھر یہ کہ اس دوران اردو بولنے والے ملک کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے پنجاب میں آ بسے ہیں۔

لیکن 2017ء میں پنجاب میں اردو بولنے والوں کا فیصد حصہ 4.87  شمار ہوا تھا جو پانچ سال بعد بڑھ کر 7.21 فیصد ہو گیا، اس لگ بھگ ڈھائی فیصد کی چھلانگ کی اس کے علاوہ کوئی توجیہہ ممکن نہیں کہ بہت سے پنجابی اب اردو سپیکنگ ہو گئے ہیں۔

اس رجحان کی ایک سماجی وضاحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دہائیوں پہلے جن پنجابی والدین نے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان کی بجائے اردو بولنے کا فیصلہ کیا تھا، اب ان کے وہ بچے خود گھرانوں کے سربراہ بن گئے ہوں اور جو افراد اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کے ساتھ اردو ہی بولتے ہوں، ان کا اپنے پنجابی الاصل ہونے سے اعلان لا تعلقی کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتا۔

ایسے افراد کی ممکنہ تعداد کتنی ہے؟

یہ تخمینہ ایک قرین القیاس مفروضے کی بنیاد پر لگایا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر 2023ء میں بھی پنجاب کی کل آبادی میں اردو بولنے والوں کا فی صد حصہ وہی رہتا جو 2017ء میں تھا تو ان کی تعداد کتنی ہوتی۔ پھر 2023ء کی مردم شماری میں گنی گئی ان کی اصل تعداد سے اس مفروضہ یا متناسب تعداد کا فرق معلوم کر کے یہ کہا جا سکتا ہےکہ اتنے افراد اردو سپیکنگ گروپ میں نووراد ہیں اور ظاہر ہے وہ کوئی اور زبان بولنے والا گروپ چھوڑ کر ہی اس میں آئے ہیں۔

تو اگر 2023ء میں بھی پنجاب میں اردو بولنے والوں کا فیصد حصہ 2017ء والا یعنی 4.87 ہی ہوتا تو ان کی کل آبادی 62 لاکھ کے قریب ہونی چاہیے تھی جبکہ مردم شماری میں یہ 91 لاکھ 43 ہزار گنی گئی گویا اس میں 29، 30 لاکھ کا غیرمعمولی اضافہ لسانی ہجرت کے باعث ہوا ہے۔

اگر دیگر ممکنہ عوامل کو بھی تخمینے میں شامل کر لیا جائے تو شماریاتی اعتبار سے یہ کہنا محفوظ ہو گا کہ ان پانچ سالوں میں 25 سے 30 لاکھ پنجاب باسیوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کی بجائے اردو لکھوانے کو ترجیح دی۔

لوک سجاگ نے یہ حساب ضلع اور ڈویژن وار بھی کیا اور اس سے چند اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔

اپنی مادری زبان بدلنے والے پنجابیوں میں سے کم از کم ہر تیسرے کا تعلق ضلع لاہور سے ہے۔ یہاں ان کی تعداد کا تخمینہ 11 لاکھ ہے۔ یعنی ضلع کے ہر دسویں فرد نے 2017ء اور 2023ء کے درمیان اپنی مادری زبان بدلا لی۔

دوسرا نمبر ضلع راولپنڈی کا ہے جہاں اپنی زبان بدلنے والوں کی تعداد چار لاکھ سے کچھ زیادہ بنتی ہے اور یہاں ہر تیرہویں فرد نے لسانی ہجرت کی۔ ضلع گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں دو، دو لاکھ پنجابیوں نے اپنی مادری زبان کو خیرآباد کہا اور شیخوپورہ اور سرگودھا میں ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ اور سیالکوٹ میں ایک لاکھ افراد نے۔ لسانی ہجرت کا اربنائیزیشن سے تعلق بھی واضح ہے جو اس عام تاثر کی تائید کرتا ہے کہ نسبتاً خوشحال پنجابی شہری زبان تبدیل کرنے کو سماجی اور معاشی ترقی کی سیڑھی کا ایک اہم قدم تصور کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

2017 کی مردم شماری کے نتائج: پنجاب میں سرائیکی بولنے والوں کے تناسب میں اضافہ۔

ساہیوال ڈویژن کے تین اضلاع ساہیوال، اوکاڑہ اور پاکپتن میں بھی اردو بولنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے اور پنجابی بولنے والوں کی تعداد میں کمی کے تخمینوں میں مطابقت ہے یعنی اس ڈویژن میں سوا لاکھ پنجابیوں نے اپنی زبان تیاگ دی۔

ضلع ملتان میں بھی یہی رجحان سامنے آتا ہے۔ یہاں بھی ہر دسویں پنجابی نے اپنا اندارج اردو سپیکنگ کے طور پر کروایا لیکن ضلع میں سرائیکیوں کی متناسب تعداد جوں کی توں رہی گویا اردو کا انتخاب کرنے والے محض پنجابی ہی ہیں، سرائیکی اس میں شامل نہیں۔

خانیوال میں پنجابیوں کی متناسب تعداد میں ایک لاکھ کی کمی ہوئی لیکن اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافہ اس سے نصف ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں اپنی زبان کو چھوڑنے کا فیصلہ کرنے والے پنجابی، اردو اور سرائیکی میں تقسیم ہو گئے جو ضلع میں سرائیکی بولنے والوں کی تعداد میں ہونے والے متناسب اضافے میں بھی نظر آتا ہے۔

لودھراں میں اردو بولنے والوں کی متناسب تعداد میں 50 ہزار کی کمی ہوئی لیکن ساتھ ہی میواتی بولنے والوں کی تعداد میں تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوا۔ 2023ء میں میواتی زبان کو مردم شماری کے فارم میں پہلی بار شامل کیا گیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ پہلے اپنی زبان اردو درج کراتے رہے تھے لیکن اس بار کیونکہ انہیں اپنی زبان کو اس کے نام سے درج کروانے کی سہولت دستیاب تھی تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔

جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژنوں اور سرگودھا ڈویژن کے ماسوائے ضلع سرگودھا کے تینوں اضلاع (بھکر، میانوالی اور خوشاب)  میں سرائیکی بولنے والوں کی متناسب تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی یہاں اردو بولنے والوں کی متناسب تعداد میں اضافہ معمولی ہے اور وہ یہاں کی پنجابی بولنے والوں کی آبادی میں متناسب کمی سے مطابقت رکھتا ہے۔

یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرائیکی بولنے والوں نے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر اردو کو اختیار نہیں کیا۔

جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی 95 فیصد آبادی پنجابی بولنے والوں کی ہے لیکن وہاں بھی اپنی مادری زبان کو چھوڑنے کا رجحان سامنے نہیں آیا۔

ڈیرہ غازی خان پنجاب کا واحد ڈویژن ہے جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے معمولی کمی آئی۔ ڈویژن کی 80 فیصد آبادی کی زبان سرائیکی ہے۔ یہاں اردو اور پنجابی بولنے والوں کی متناسب تعداد میں 50، 50 ہزار کی کمی ریکارڈ ہوئی اور سرائیکی بولنے والوں کی متناسب تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوا گویا یہاں اردو اور پنجابی بولنے والے دونوں گروپوں نے ہی اپنی اپنی زبانوں کی بجائے سرائیکی کو اپنی مادری زبان بتایا۔

تاریخ اشاعت 19 ستمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

طاہر مہدی ایک انتخابی تجزیہ نگار ہیں انہیں صحافت کا وسیع تجربہ ہے اور وہ سیاسی اور سماجی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

لسانی ہجرت 2023: پنجابی اپنی ماں بولی کو گھروں سے نکال رہے ہیں

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

لیبیا میں قید باجوڑ کے سیکڑوں نوجوان کب وطن واپس آئیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی

جامشورو کول پاور پلانٹ: بجلی مل جائے گی لیکن ہوا، زمین اور پانی سب ڈوب جائے گا

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'نچلی ذات میں پیدا ہونا ہی میری بدنصیبی کی جڑ ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'مجھے احساس دلایا جاتا ہے کہ میں اچھوت ہوں'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'میں اس مریضہ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم کلاس روم میں نہیں پڑھ سکتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'وہ میرے ساتھ کھانا اور میل جول پسند نہیں کرتے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'تم نے روٹی پلید کر دی ہے'

تعصب اور تفریق کا سامنا کرتی پاکستانی اقلیتیں: 'پانی کے نل کو ہاتھ مت لگاؤ'

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- پیٹر جیکب

پنجاب: ووٹ لیتے وقت بھائی کہتے ہیں، ترقیاتی کام کی باری آئے تو عیسائی کہتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.